یہ ایک حقیقت ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنا پر برصغیر کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کا مطالبہ 1946ء کے آخر تک مختلف مرحلوں‘ کانفرنسوں‘ مذاکروں‘ کمیشنوں اور جائزوں کے بعد ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا تھا کہ اب اسے نہ تو انگریز مسترد کرسکتا تھا اور نہ کانگریس کا واویلا اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ چنانچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ قیامِ پاکستان کے سوا برصغیر کی آزادی کے مسئلہ کا کوئی بھی حل قابلِ قبول نہیں ہوگا‘ تاہم بعض علاقوں کے پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کے حتمی فیصلے کے اعلان سے پیشتر استصوابِ رائے(ریفرنڈم) کا اصول طے کیا گیا۔ ان علاقوں میں مشرقی بنگال میں سلہٹ کا علاقہ اور اس جانب صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقے شامل تھے۔انگریز اور کانگریس کی ملی بھگت اب بھی اپنی جگہ کام کررہی تھی اور برطانوی حکمران اب بھی بلوچستان کو برصغیر سے علیحدہ ایک ایسی خود مختار ریاست کی صورت دینے پر تلے ہوئے تھے جو برصغیر میں ان کے اقتدار کی آخری آماجگاہ بن سکے۔ اس لیے سلہٹ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں تو انہوں نے استصوابِ رائے عامہ کرانے کا فیصلہ کیا اور بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ شاہی جرگے کے سپرد کردیا۔ بلوچستان میں ریفرنڈم کی تاریخ 29جون مقرر ہوئی تھی لیکن اس سے قبل ہی بعض ایسی مشکلات پیدا ہو چکی تھیں جن کی وجہ سے پاکستان کے حق میں فیصلہ ہونا آسان نظر نہیں آتا تھا۔ مسلم لیگی زعمائ‘ قبائلی سردار اور سرفروش حالات کا رخ موڑنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ دوسری جانب کانگرس بھی سازشوں میں مصروف تھی جبکہ انگریز بھی مسلمانوں کی یکجہتی کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ قائداعظمؒ نے 25جون کو مندرجہ ذیل بیان جاری کیا۔
’’اب یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ بلوچستان میں 29جون کو استصواب رائے ہوگا۔ میں ہر مسلمان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھارت کی دستور ساز اسمبلی کی بجائے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیں‘ مجھے امید ہے کہ رائے دہندگان‘ جو شاہی جرگہ کے ارکان فیصلہ دیتے وقت اس چیز کا احساس کریں گے کہ بلوچستان مملکت پاکستان میں ہی باعزت طور پر زندہ رہ سکتا ہے۔
قائداعظمؒ کے اس بیان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ اب ریفرنڈم میں فقط تین دن باقی تھے ۔ بلوچستان میں پاکستان کے لیے اور بھی زیادہ انہماک کے ساتھ کام شروع ہوچکا تھا۔ راتوں کی نیند اور دن کا آرام پاکستان پر نچھاور کیا جارہا تھا۔ بلوچستان کے سردار کانگریس کی عظیم پیش کشوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا رہے تھے۔ نتیجتاً 28جون کی رات کے دس بجے تک 5سرداروں کے علاوہ تمام سردار پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کا وعدہ کرچکے تھے۔ لیکن اسی رات اے جی جی نے بتایا کہ 29جون کو ریفرنڈم نہیں ہوگا‘ صرف لارڈ مائونٹ بیٹن کا 3جون والا اعلان پڑھ کر سنایا جائے گا اور اس کے 24گھنٹے بعد 30جون کو سرداروں کی رائے لی جائے گی۔ یہ بڑی گہری چال تھی۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر کچھ اور بھی رونما ہوسکتا تھا۔ چنانچہ ہندو اور انگریز کی اس ملی بھگت کے خلاف تحریک پاکستان کے دیوانے ڈٹ گئے۔ انہوں نے نواب محمد خان جوگیزئی کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جیسے ہی اے جی جی مسٹر جیفرے پرائر اپنا بیان ختم کرنے لگیں‘ یہ کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ ہم سب سردار فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم پاکستان کے حق میں ہیں اور جو صاحب مخالف ہیں وہ جدا ہوجائیں۔ سب کو یقین تھا کہ اس جرات مندانہ اور پرعزم طریق کار سے مخالف عناصر کی سازش ختم ہوجائے گی۔ رات بھر تیاریاں ہوتی رہی۔ دوسرے سرداروں کو بھی ذہنی طور پر تیار کرلیا گیا۔ سردار دودا خان مری نے کہا کہ پاکستان کے لیے بلوچوں اور پٹھانوں میں مسابقت ہوگی۔ دیکھیں کون بازی لے جاتا ہے۔29جون کو ٹائون ہال کوئٹہ میں دس بجے سب سردار یکجا ہوئے۔ پریس والوں کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی۔ کانگریس اس اجلاس کے بارے میں کچھ زیادہ پریشان نہ تھی۔اس کے سامنے 30جون کی تاریخ تھی اور وہ اس مناسبت سے اپنی چالیں چل رہی تھی۔ ٹائون ہال کے باہر ہجوم ہی ہجوم تھا۔ ایک جانب بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کا کیمپ لگا ہوا تھا۔
ٹھیک دس بجے مسٹر جیفرے پرائرہال میں داخل ہوئے۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعلان پڑھنا شروع کیا۔ وہ ابھی یہ اعلان ختم نہ کر پائے تھے کہ نواب محمد خان جوگیزئی بڑے اعتماد سے اٹھے اور مسٹر جیفرے پرائر سے مخاطب ہوئے کہا: ’’ہم یہ بیان پہلے پڑھ چکے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنے کے لیے مزید وقت نہیں چاہیے کیونکہ شاہی جرگے کے سردار پاکستان کی حمایت میں فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ پاکستان دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے گا۔ وہ حضرات جو اس فیصلے کے خلاف ہیں‘ ایک طرف ہوجائیں۔‘‘
سردار د ودا خاں مری نے بھی پاکستان کے حق میں تقریر کی اور پھر چند ہی منٹ میں تائید کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔ صرف چار سردار درمیان میں کھڑے رہے۔ انہوں نے پوچھا: ’’کیا یہ بلوچستان اور قلات کا مسئلہ ہے؟‘‘ ۔مسٹر جیفرے اردو میں بولے ’’یہ صرف ہندوستان اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ قلات کا اس میں کوئی دخل نہیں۔‘‘ اس پر ان چاروں سرداروں نے بیک زبان کہا: ’’ہم خان آف قلات سے عہد کرچکے ہیں کہ ان کا ساتھ دیں گے‘ مگر یہ تو پاکستان اور ہندوستان کا مسئلہ ہے ہم اپنا ووٹ پاکستان کو دیتے ہیں۔‘‘
مسٹر جیفرے پرائر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی اور اس نے اردو میں کہا: ’’اچھا ہم وائسرائے کو تار بھیج دیں گے کہ شاہی جرگے کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہے۔‘‘
پورا ہال تالیوں کی گونج سے لرز اٹھا۔ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گرج دار گونج پیدا ہوئی۔ممتاز دانشور، مورخ نسیم حجازی کہتے ہیں کہ اس فیصلے کو منوانے میں نواب محمد خان جوگیزئی‘ میر جعفر خاں جمالی‘ سردار غلام محمد خاں ترین‘ عبدالغفور درانی‘ حاجی جہانگیر خاں اور سردار محمد خان جوگیزئی نے ایک اہم کردار ادا کیا ۔ علاوہ ازیں قاضی محمد عیسیٰ‘ بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ مسلم نیشنل گارڈز‘ اراکین شاہی جرگہ، آل انڈیا مسلم لیگ کے گمنام سپاہی اور دوسرے متعدد کارکنوں کی خدمات بھی قابل صد ستائش ہیں۔ ان سب رہنمائوں اور کارکنوں کی وجہ سے آج بلوچستان دولت خداداد پاکستان کا جزولاینفک ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024