اس تقریر کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نفس مضمون اور مدعا اقلیتوں کو احساس تحفظ اور بحیثیت شہری برابری کا پیغام دینا ہے اور قوم کو اتحاد کی تلقین کرنا ہے جس میں پاکستان کی ترقی کا راز مضمر ہے کیونکہ ہندوستان میں یہ پراپیگنڈہ جاری تھا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہو گی جہاں اقلیتوں کو غلام بنا کر رکھا جائے گا۔ اس تقریر میں قائداعظمؒ نے رومن کیتھلک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کا ذکر کیا جو کہ عیسائیت کے دو فرقے ہیں، وہ اسلام اور ہندومت کی مانند دو مختلف مذاہب نہیں۔ اس تقریر سے قبل اور بعدازاں بھی قائداعظمؒ اقلیتوں کو یقین دہانیاں کراتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے کہ Tolerance اسلام کا بنیاد اصول ہے۔ چنانچہ قائداعظمؒ نے 14 اگست 1947ءکو دستور ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر ماﺅنٹ بیٹن کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے بھی اپنے اسی نقطہ نظر کو دہرایا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے اقلیتوں کے حوالے سے مغل بادشاہ اکبر کی فراخدلی کا ذکر کیا تھا جس کے جواب میں قائداعظمؒ نے کہا کہ ”اکبر بادشاہ نے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ اسکا آغاز تیرہ سو برس پہلے ہو گیا تھا جب ہمارے نبی کریمﷺ نے فتح کے بعد نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے فراخدلانہ سلوک کیا اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے“۔
میرا تاثر یہ ہے کہ گیارہ دسمبر کی قائداعظمؒ کی تقریر کا قصد اقلیتوں کو احساس تحفظ دینا تھا نہ کہ کسی سیکولر نظام کی بنیاد رکھنا۔ میرے اس تاثر کی تصدیق قائداعظمؒ کے ایک انٹرویو سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے 25 اکتوبر 1947ءکو ”رائٹر“ کے نمائندے کو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میں دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریر (11 اگست) میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ اقلیتوں سے پاکستان کے شہریوں جیسا سلوک کیا جائے گا اور ان کو وہی حقوق حاصل ہونگے جو دوسروں کو حاصل ہونگے۔ پاکستان غیرمسلم اقلیتوں میں احساس تحفظ اور اعتماد پیدا کرنے کیلئے سب کچھ کرے گا۔ (بحوالہ ایس ایم برک صفحہ 61)
مشکل یہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات 11 اگست والی تقریر کی تشریح و توضیح پر تو بہت زور صرف کرتے ہیں لیکن 25 اکتوبر والی تقریر کا ذکر نہیں کرتے جس میں خود قائداعظمؒ نے گیارہ اگست کی تقریر کے حوالے سے اپنے مدعا کی وضاحت کی تھی۔ مختصر یہ کہ ہمارے دانشوروں کا ایک طبقہ قائداعظمؒ کی محض ایک تقریر کے چند فقروں کو اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے اپنا من پسند مفہوم نکال لیتا ہے اور پھر یہ اعلان کر دیتا ہے کہ قائداعظمؒ سیکولر نظام کے حامی تھے۔
یہ بات ثابت ہو چکی بلکہ طے ہو چکی کہ قائداعظمؒ نجی زندگی میں مذہب کے اصولوں پر عمل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے ذانی زندگی میں جو اہم فیصلے کئے ان میں اسلام کی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ انہوں نے اسلام، قرآن اور سیرت النبی کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا اور جب وہ بار بار اپنی تقریروں میں یہ کہتے تھے کہ قرآن ہماری سوچ کا منبع ہے، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسوہ حسنہ ہمارے لئے ایک نمونہ ہے تو یہ باتیں محض زبان کا کارنامہ نہیں تھیں بلکہ ان کے تیقن اور باطن کا حصہ تھیں اور انکے دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھیں۔ سیاسی زندگی کے حوالے سے چار دہائیوں پر مشتمل ان کی سینکڑوں تقریریں، بیانات اور انٹرویو زاس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ انہیں اسلام سے گہرا لگاﺅ تھا لیکن اس کے باوجود وہ ہرگز مولوی، صوفی یا مذہبی قسم کے انسان نہیں تھے۔ وہ سچائی، راست گوئی، اصول پرستی، اخلاص، یقین محکم، کردار کی عظمت، اسلام اور مسلمانوں سے بے لوث سچی محبت کی اعلیٰ مثال تھے۔ خاص طور پر قیام پاکستان کے بعد کی تقریروں میں ان کے اقوال و افکار پر مذہب کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں اور انہی تقریروں کا غور سے مطالعہ کر کے قائداعظمؒ کا تصور پاکستان سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کیلئے کس قسم کا سماجی و سیاسی نظام، دستور اور حکومتی ڈھانچہ چاہتے تھے لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ اپنے اس خواب کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔
یوں تو قائداعظمؒ کی تقاریر میں اس قسم کے بہت سے حوالے ملتے ہیں لیکن میں اس بحث کو سمیٹنے کیلئے فقط چند ایک مطبوعہ بیانات کا ذکر کروں گا جس سے اندازہ ہو گا کہ قائداعظمؒ کے خیالات میں ایک تسلسل تھا اور وہ مسلسل کیا کہتے رہے، یہی بیانات اس امر کی شہادت دیں گے کہ کیا قائداعظمؒ سوچ کے حوالے سے سیکولر تھے؟ کیا وہ پاکستان کیلئے ایک سیکولر جمہوری نظام چاہتے تھے؟
نومبر 1945ءمیں قائداعظمؒ نے پشاور میں کہا ”آپ نے سپاسنامہ میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان میں کونسا قانون ہو گا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب ہے، یہی مسلمانوں کا قانون اور بس.... اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہو گا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کےخلاف نہیں ہوگا“۔ (بحوالہ گزشتہ ملک حبیب اللہ صفحہ 123) 14 فروری 1947ءکو شاہی دربار سبی، بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے کہا ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ¿ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام نے دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں“۔ 30 اکتوبر 1947ءکو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”اگرچہ ہم قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہو گی.... میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔ (بحوالہ رفیق افضل قائداعظمؒ کی تقاریر صفحہ 447-8)
25 جنوری 1948ءکو عید میلاد النبی کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے وکلاءکے سامنے ان حضرات کو بے نقاب کیا جو ان کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلا رہے تھے۔ اس وقت قائداعظمؒ پاکستان کے گورنر جنرل بھی تھے اسلئے ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ ”پالیسی بیان“ کی حیثیت رکھتا تھا۔ قائداعظمؒ کے ان الفاظ پر غور کیجئے اور ان الفاظ کے آئینے میں ان چہروں کو تلاش کیجئے جنہیں قائداعظمؒ نے شرارتی اور منافق کہا۔ قائداعظمؒ نے کہا ”میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہو گی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوتا تھا۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے اسلئے کسی کو بھی خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں“۔ (بحوالہ رفیق افضل صفحہ 455)
پھر فروری 1948ءمیں قائداعظمؒ نے امریکی عوام کے نام ایک ریڈیو پیغام میں یہ واضح الفاظ میں کہہ کر نہ صرف ہر قسم کے شکوک و شبہات کی دھند صاف کر دی بلکہ اس بحث کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سمیٹ دیا۔ قائداعظمؒ نے فرمایا ”پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اسکی حتمی شکل و صورت کیا ہو گی؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہو گا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح تیرہ سو برس قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انہی سے راہنمائی حاصل کی جائےگی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیوکریٹ (مذہبی) ریاست نہیں ہو گی اور یہاں تمام اقلیتوں، ہندو، عیسائی، پارسی کو بحیثیت شہری وہی حقوق حاصل ہونگے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہونگے“۔ (ایس ایم برک صفحہ 125)
قائداعظمؒ کی تقریروں کو پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ درمیانی فاصلوں کے باوجود وہ ایک ہی تسبیح کے دانے اور ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں جن میں کہیں بھی جھول یا انحراف موجود نہیں۔ وہ شروع سے آخر تک تسلسل سے کہتے رہے ہیں کہ قرآن ہماری سوچ و فکر کا منبع اور راہنما ہے، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، سیرت النبی ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے، جمہوریت، مساوات اور انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا ہے اور اسلام نے جمہوریت کی بنیاد تیرہ سو سال قبل رکھ دی تھی اسلئے ہمارے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونگے اور یہ کہ ہمارے نبیﷺ نے یہودیوں، عیسائیوں سے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا تھا ہم اس پر عمل کرینگے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں رکھی جائے گی وہ سازشی اور منافق ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر تمام شکوک و شبہات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہو گا اور اس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیجئے کہ کیا قائداعظمؒ ذہنی طور پر سیکولر تھے اور کیا وہ پاکستان کیلئے کسی سیکولر نظام کا خواب دیکھتے تھے؟
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024