صحافت کا استاد ،الیاس شاکر
وہ ایک جینئس تھا۔ صحافت اس کے خون میں رچ بس گئی تھی ۔ میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ اچھا نیوزمین تھا‘ رپورٹر یا پھر کالم نگار‘ ہاں وہ صحافت کا استاد تھا اس نے یہ ہنر ابتداء میں سیکھ لیا تھا کہ اس کا قاری کیا پڑھنا چاہتا ہے۔ الیاس شاکر سے میری دوستی کی ڈور تین دہائیوں تک طویل ہے۔ ان کے حوالے سے اتنی باتیں اور یادیں ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ طنزو مزاح ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ وہ انتھک محنت کرنے والا انسان اور اس کی خوبصورت تحریریں دل کو موہ لیتی تھیں۔ بڑی مشکل‘ متنازعہ اور ہنگامہ خیز باتوں کو شاکر صاحب اتنی خوبصورتی سے ادا کرتے تھے کہ ہر جملے پر داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ دنیا سے رخصت ہو جانے والا یہ پیارا ساتھی بے شمار انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے نوجوان صحافیوں کو چاہئیے کہ وہ ان کے کالموں کو پڑھیں۔ واقعات کو حقیقت میں ڈھالنے کا اسلوب‘ خوبصورت زبان نایاب مثالیں اور بات سے بات نکالنے کا فن کوئی الیاس شاکر سے سیکھے۔ معاشرے کے تلخ حقائق اور انسانی محرومیاں اور تمام لوگوں کے حقوق سے متعلق ان کے تجزیئے جہاں حقیقت پر بے رحمی سے پردہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ان کی تحریر میں الفاظ کی ترتیب اور چاشنی سے ان کا یہ ہنر دمکتا نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لاجواب ایڈیٹر تھے۔ اگر کوئی ان کے متحرک زرخیز ذہن کا اندازہ کرنا چاہتا ہے تو وہ قومی اخبار کی چٹ پٹی معنی خیز اور پرکشش سرخیوں پر ایک نظرڈال لے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ الیاس شاکر کی سوچ و فکر کا کمال ان کی خبروں رپورٹنگ اور کالم نگاری میں یکساں نظر آتا ہے خبروں کی افادیت اور اہمیت کو میرٹ پر پرکھنے میں ان کا ذہن ہمہ وقت مستعد اور چوکنا رہتا تھا اخبار کا حقیقی جھومر اس کی لیڈ اسٹوری ہوتی ہے۔ وہ اس اسٹوری کو اتنے پیرائے اور انداز میں لکھنے کے ماہر تھے کہ ان کے نیوز ایڈیٹر کو ہمیشہ ایسے عصا ب شکن مراحل سے گزرنا پڑتا تھا کہ شاکر صاحب کی لکھی ہوئی لیڈ کے کس جملے کو فائنل کرے۔ زیادہ تر اس کافیصلہ بھی شاکر صاحب کرتے تھے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرہ برابر بھی عار نہیں‘ کہ نوائے وقت میں سیاسی ڈائری کو انوکھے اور خوبصورت انداز سے نکھارنے اور سنوارنے کا جو فن الیاس شاکر نے متعارف کرایا تھا الفاظ کی یہ جادو گری ان کی ذہانت ‘ برجستگی‘ اور وسیع مطالعے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ مجھے
آج اپنے ایک اور پیارے دوست یوسف خان مرحوم یاد آرہے ہیں۔ یوسف خان اور الیاس شاکر کی تحریروں میں وہ ایک دوسرے کا مقابلکہ کرتے دکھائی دیتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اس دور میں ان دونوں نے ایسے موضوعات اور انداز سے اپنی تحریروں کو سجایا اور چار چاند لگائے جس نے نوائے وقت کے سیاسی ایڈیشن کو یکتا اور منفرد بنا دیا تھا۔ صحافت کی بھیڑ میں شاکر صاحب نے بڑی تگ و دو کی ‘ انہیں کئی بار نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ بعض اوقات خطرات اور اندیشے ان کے دروازے پر دستک دیتے رہے لیکن وہ جرات سے اپنی بات کہتے رہے اور اسے منواتے رہے۔ وہ ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ہر طبقہ فکر میں وہ مقبول تھے وہ بڑی مشکل باتیں بڑی آسانی اور مزاح کے انداز میں کر جاتے تھے۔ سیاسی طور پر وہ ایک خاص موقف رکھتے تھے لیکن اپنی بات پوری جرات سے کہتے اور اس میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ قومی اخبار کی مقبولیت اور اس کا معیار ان کی انتھک محنت اور کاوشوں کا ثمر ہے۔ انہوں نے وسائل نہ ہوتے ہوئے جس طرح تنکا تنکا اکٹھا کیا اور پھر اس شاندار اخبار کو صحافتی دنیا میں ایک مثال بنا دیا انہوں نے الیکٹرانک میڈیا میں بھی طبع آزمائی کی یہ ماننا پڑے گا کہ نئے نئے آئیڈیاز ان کے ذہن سے بکھرتے رہتے تھے۔ ضیاء شاہد سے ان کی خصوصی ارادت تھی کیونکہ ہر خبر کو نئی جدت دینا اور مفہوم کو عوامی انداز میں بیان کرنا ضیاء صاحب کی انوکھی ڈکشنری ہے لیکن الیاس شاکر کا کمال یہ تھا کہ وہ اس میں بھی اپنی پسند کاتڑ کا ضرور لگاتے تھے۔ مختار عاقل ان کے ہر دکھ درد کے ساتھی رہے۔ یہ دوستی بھی مثالی تھی وہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے۔ دونوں کا تعلق میرے شہر حیدر آباد سے تھا۔ ہم جب اکٹھے ہوتے تو حیدر آباد کی سہانی شامیں‘ مہمان نوازی‘ ہالہ نا کے کا گوشت‘ اس شہر سے تعلق رکھنے والی لاجواب شخصیات کا تذکرہ ہماری گفتگو کا موضوع ہوتا۔ کراچی میں قیصر ریسٹورنٹ کی ران ‘ شومارکیٹ کی مچھلی ا ور صابری کی نہاری شاکر صاحب کے پسندیدہ کھانے تھے۔ الیاس شاکر کو زندگی کے آخری 30سالوں میں قدرت نے بے پناہ مالی وسائل سے نوازا لیکن وہ اپنی پرانی اور خستہ حال موٹر سائیکل کا تذکرہ کرنا کبھی نہ بھولتے۔ جو ان دنوں ان کا بڑا سہارا تھی۔ الیاس شاکر اے پی این ایس اور سی پی این ای کے سرگرم رکن تھے۔ مظلوم طبقات کی آواز میں اپنی آواز ملانا ان کی ز ندگی کا اہم مشن رہا۔ الیاس شاکر اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی باتیں اور یادیں ہمیشہ ستاتی رہیں گی۔
خدا رب العزت سے دُعا ہے کہ وہ صحافت کے اس روشن اور درخشندہ ستارے کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔(آمین)