پاکستان میں اب یہ سوال باقی نہیں رہا کہ کرپشن ہورہی ہے یا نہیں بلکہ معاملات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ بحث کرپشن کی شرح پر ہوتی ہے یا کرپشن کرنے والی اشرافیہ میں آگے کون ہے ؟ مختلف شعبوں میں کرپشن سے متعلق حالیہ ہوشربا انکشافات پریشان کن ہیں اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چین جیسے دوست ہمسایہ ملک نے بھی ہاتھ کھڑے کردئیے ہیں اور اگر کرپشن کے خاتمے کیلئے عملی طور پر جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ملکی ڈھانچے کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے - اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور اس سے حاصل ہونیوالے منافع کو ایک طرف رکھتے ہوئے چینی کمپنیاں پاکستان میں کام کرنے سے معذوری کا اظہار کررہی ہیںکیونکہ یہاں کی بیوروکریسی اور موجود سسٹم ان سے کک بیک کے نام پر اس قدر رشوت طلب کررہا ہے کہ انکے بس سے باہر ہوچکا ہے - دوسری طرف جب سے کرپشن کے پیسے کا دہشت گردی کیلئے استعمال سامنے آیا ہے عالمی طاقتیں بھی اس میں کود پڑی ہیں - ذرائع کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ امریکہ میں دیگر امور کیساتھ ساتھ پاکستان میں کرپشن کی صورتحال بھی زیر بحث معاملات میں اہمیت کی حامل تھی اور امریکہ نے ہمارے سپہ سالار کو ضرب عضب میں کرپشن کے خاتمے کو بھی شامل کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کرپٹ لوگوںکیخلاف بلا تفریق کارروائی کرنے کی تجویز دی ہے - یہ بحث بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی ادارہ کرپشن کیخلاف عملی کارروائی کرسکتا ہے اسکی تازہ مثال سابق صدر زرداری کیخلاف کوٹیکنا کیس سے بریت کا فیصلہ ہے جس میں پرسوں عدلیہ اور نیب نے کروڑوں روپے کے اخراجات کرکے نتیجہ صفر جمع صفر نکالا ہے - کیاہمارا تفتیشی ڈھانچہ اس قابل ہے کہ وہ کرپشن جیسے انتہائی پیچیدہ مسئلے کا حل تلاش کرسکے - اسی طرح ہمارا سیاسی سیٹ اپ کبھی بھی اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ وہ آزادانہ احتساب کرکے کرپشن پر ہاتھ ڈال سکے - سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور ان سے تفتیش بھی اسی راہ کی مسافر دکھائی دیتی ہے جس پر زرداری صاحب نے سفر طے کیا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ کرپشن میں ملوث بڑی مچھلیاں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کچھ ثابت نہ ہونے کے باعث الٹا عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں اور خود کو سیاسی مظلوم ثابت کرکے دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے - اسی جگہ یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ مخدوم امین فہیم جن کو انکے سیاسی ساتھی خراج تحسین پیش کررہے ہیں وہی سیاسی شخصیت تھے جنہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں علم نہیں کہ انکے بنک اکاؤنٹ میں دس کروڑ کی رقم کس نے ڈال دی - یہاں ضمنی طور پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ہالہ کے علاقے سے پینتالیس (45) برس تک نمائندگی کرنیوالے مخدوم کیا اپنے ایک شہر میں لوگوں کو تعلیم، صحت اور روزمرہ ضروریات فراہم کرنے میں کامیاب رہے جس کا جواب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں - کرپشن کی طرف واپس آتے ہوئے یہ سوال تیزی سے اٹھایاجارہا ہے کہ اب صرف اور صرف آرمی کا ادارہ بچہ ہے جسے ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلئے کسی دباؤ یا مصلحت کا شکار ہوئے بغیر کارروائی کرنا ہوگی - خبریں سنی جارہی ہیں کہ کرپشن کیخلاف اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور سندھ کے بعد پنجاب سے ہوتے ہوئے یہ کارروائیاں اسلام آباد کا رخ کرنے والی ہے اوراس میں حکمران جماعت کو بھی استثنیٰ نہیں ہوگا - دسمبر سے پہلے ہی دو وفاقی وزراء اور دو ہی صوبائی وزراء کو نیب کے حوالے کرنے کی خبریں گردش کررہی ہیں - اسی طرح عدلیہ کو بھی شامل کرلیا گیا ہے اور کرپشن کی شکایات پر صرف لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے جبکہ ایک اور جسٹس کو گھربھیج دیا گیا ہے -یہ پس منظر انتہائی حوصلہ افزاء ہے اگر آغاز عدلیہ سے ہورہا ہے تو انجام کے لئے کسی بھی ادارے یا شخصیت کو تیار رہنا چاہیے -
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہو ئے جانبدارانہ اور باہم سمجھوتے کی بجائے سو فیصدی غیر جانبداری ، شفافیت اور بے رحمی پر مبنی کرپشن کے خاتمے کی مہم شروع کی جائے اور اس کا آغاز اوپر سے نیچے کی طرف آنا چاہیے ایسا ملک جہاں پر حج سکینڈل ، پولیس فاؤنڈیشن ، این ایل سی ، ای او بی آئی جیسے بڑے سکینڈل منہ کھولے کھڑے ہوں وہاں احتساب بیورو میں مک مکا کرنے کی سہولت موجود نہیں ہونی چاہیے -بدقسمتی سے ہمارے ہاں سابق وزرائے اعظم سے لیکر موجودہ وفاقی وزراء تک ایک دوسرے کے سیاسی مخالف کرپشن سے انکار نہیں کرتے بلکہ جواب کے طور پر مقابلہ یہ ہوتا ہے کہ کس نے زیادہ مال کمایا- ہماری موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق صحت کے شعبے میں 52 فیصد مریضوں کی شکایات یہ ہوتی ہیں کہ انہیں رشوت دیکر سرکاری طبی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں- تعلیم کے میدان میں یہ شرح بڑھ کر 62 فیصد تک پہنچ جاتی ہے جبکہ پولیس میں اور اضافہ کرتے ہوئے 76 فیصد اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں 99فیصد سائلین غیر قانونی طور پر رقوم دیکر اپنا جائز کام کرواتے ہیں-
اس تمام صورتحال کے تناظر میں پاکستان کیلئے انتہائی فیصلہ کن موڑ ہے اور اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق کرپشن کیخلاف اقدامات کا آغاز نہ کیا گیا تو رہی سہی کسر بھی نکل جائیگی -جس ملک میں واپڈا کو درست کرنے ، مردم شماری کرنے ، ضمنی الیکشن کو شفاف بنانے ، پولیو مہم اور دیگر ملکی معاملات کیلئے فوج کو بلایا جاسکتا ہو کیا امر مانع ہے کہ کرپشن کیخلاف افواج اپنا کردار ادا نہ کرسکیں-جہاں تک نیب کا تعلق ہے اس کی مایوس کن کارکردگی پر اعلی عدالتوں کے تحفظات سامنے آچکے ہیں ،کئی ایک معاملات میں نیب نے صرف ڈاکخانے کا کردار ادا کیا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب کی پیش کردہ رپورٹ اسکی بے بسی کی داستان بیان کررہی ہے جہاں اعتراف کیا گیا ہے کہ وہ برسراقتدار کون کونسی اعلی شخصیات کے مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود نجانے کس وقت کا انتظار کررہے ہیں اسی طرح جو کیس نمٹائے گئے ہیں ان میں سے اکثر پر پلی بارگین کا فائدہ اٹھایا گیا البتہ بعض جگہوں پر رقوم واپس لی گئیں ہیں لیکن اس کی شرح مجموعی طور پر بہت کم ہے - نیب کے اداروں میں تقرری سے لیکر تفتیش کے مراحل سب کے سامنے ہیں- اگر پاکستان سے کرپشن کے خاتمے میں سنجیدگی دکھائی جانی ہے تو افواج پاکستان کو اس ضمن میں ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دیا ہوگا اور کسی رو رعایت کے بغیر بلا تفریق کارروائی کرنی ہوگی اور اس کا آغاز اقتدار میں بیٹھی بڑی مچھلیوں سے کرنا ہوگا -پاکستان کی عوام کرپشن کے خاتمے کیلئے اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑیں ہوں گے یہ ہر دل کی آواز ہے کہ ملک سے لوٹ مار کا خاتمہ ہو ، اب اس ضمن میں ایک دن کی تاخیر کا جواز نہیں ، تمام تر صورتحال سب کے سامنے آچکی ہے اور اب یہ بات طے ہے کہ جس دن کرپشن ختم نہیں کم ہونا شروع ہوگئی تو بجلی کے بحران سمیت تمام ملکی مسائل رفتہ رفتہ حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024