پنجاب اسمبلی: فیصل سبحان معاملہ پر دوسرے روز بھی سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو: اجلاس ایجنڈا مکمل کئے بغیر ملتوی
لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے فیصل سبحانی کے معاملے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے دوسرے روز بھی ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، سپیکر ڈائس کا گھیرائو کر کے شدید نعرے بازی کی، اپوزیشن نے مطالبہ کیا دو ارب کی کرپشن کے بارے میں وزیر اعلیٰ ایوان میں آ کر وضاحت کریں یا وزیر قانون جواب دیں ورنہ احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا، گنے کے کاشتکاروں کے مسائل کے حل کے حوالے سے وزیر خوراک اور سیکرٹری کو جمعہ کے روز ایوان میںطلب کر لیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی اپنے مقررہ وقت کی بجائے 50منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی خان گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں دو محکموں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور آبپاشی کے بارے میں سوالوں کے جوابات دیئے گئے۔ نگہت شیخ کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا آئندہ چند ماہ تک پنجاب کو ڈرگ فری صوبہ ڈکلیئر کردیا جائے گا، اس کے لئے تمام میئرز لے لئے گئے ہیں۔ آبپاشی کے بارے میں ممبران کے سوالوں کے جوابات صوبائی وزیر امانت اللہ شادی خیل نے دیئے۔ تحریک التوائے کار کے جوابات نہ آنے پر اپوزیشن ارکان کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے کہا پچھلے چار برسوں میں کسی محکمے نے ہماری تحاریک التوائے کار کے جوابات نہیں دیئے۔ جس پر ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گورچانی نے اسمبلی حکام کو ہدایات جاری کیں وہ تمام محکموں کو خط لکھیں اب تک کی جتنی بھی تحاریک کے جواب نہ آنے کی وجہ سے موخر ہیں پیر 5مارچ تک ان کا جواب ایوان میں آنے چاہئیں۔ جس پر اپوزیشن ارکان نے کہا چار برسوں میں جواب نہیں آئے تو ایک ہفتہ میں کیسے آ جائیں گے۔ نکتہ اعتراض پر سردار شہاب الدین اور احمد خان بھچر نے گنے کے کاشتکاروں کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا حکومت کے اقدامات کے باوجود مل مالکان کاشتکاروں سے ایک سو بیس روپے اور سو روپے فی من گنا خرید رہے ہیں اور ادائیگی بھی نہیں کررہے ۔انہوں نے کہا کہ 90شاہراہ پر ہونے والی میٹنگ میں صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ نے مجھے اور ڈاکٹر وسیم اختر کو بلایا لیکن ہم ان کی اس بات کا حصہ نہیں بنے کیونکہ انہوں نے مل مالکان سے ملی بھگت کرکے گنے کی قیمت 180 روپے سے کم کرکے 160روپے مقرر کی،یہ کاشتکاروں کے ساتھ ظلم ہے اور ہم حکومت کے اس ظلم کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ اس لئے ہم اجلاس سے واپس آگئے ۔ رکن اسمبلی میاں اسلم اقبال نے کہا شوگر ملیں حکمرانوں کی ہیں ۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا میاں صاحب مسائل جہانگیر ترین کی شو گر ملوں نے پیدا کئے ہیں ،باقی تمام ادائیگی بھی کررہی ہیں ۔ اپوزیشن ارکان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا جن وزراء اور حکومتی ممبران کی شوگر ملوں کے دورہ کیلئے ڈیوٹی لگائی ہوئی ہیں ان میں اپوزیشن کے ممبران کو بھی شامل کیا جائے۔جس پر احمد خان بھچر نے کہا کہ اب ہم نے ان کمیٹیوں کا حصہ نہیں بننا کیونکہ گنے کا کرشنگ سیزن ختم ہونے والا ہے تاہم ایک مطالبہ ہے شوگر ملیں اپریل تک چلائی جائیں اور متعلقہ وزیر ایوان میں آ کر تازہ ترین صورتحال سے ایوان کو آگا ہ کریں ۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے اسمبلی حکام کو ہدایت کی وہ وزیر خوراک اور سیکرٹری خوراک کو جمعہ کے روز ایوان میں بلائیں۔ قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے نکتہ اعتراض پر کہا ملتان میٹرو بس منصوبے میں اربوں کی مالی بے ضابطگیاں ہو ئی ہیں اور فیصل سبحانی کے اکاؤنٹ سے کسی فیک کاؤنٹ میں دو ارب روپے ٹرانسفر کئے گئے ہیں ،یہ دو ارب روپے جن کمپنیوں میں ٹرانسفر ہوئے وہ شریف خاندان کی ہیں،وزیر اعلیٰ اس بات کی وضاحت خود ایوان میں آ کر کیوں نہیں کرتے وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور عوام ان سے یہ سوال کرتی ہے جس کا جواب انہیں دینا چاہیے یا وزیر قانون اس کی وضاحت کریں ۔جس کے بعد تمام اپوزیشن ممبران کھڑے ہو گئے اور نعرے بازی شروع کردی ۔ بعد ازاں سپیکر ڈائس کا گھیرائو کر کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں لہرا دیں ،ارکان کی جانب سے چور چور اور ڈاکو ڈاکو کے نعرے لگانا شروع کر دیئے گئے جس پر حکومتی ارکان نے بھی نعرے بازی شروع کر دی ۔ شور شرابے کے دوران ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ایجنڈا مکمل کئے بغیر اجلاس آج ( بدھ ) صبح 10بجے تک ملتوی کردیا ۔بعد ازاں اپوزیشن ارکان اسمبلی سے باہر آگئے اور احاطہ میں بھی احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کی ۔