بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کی برسی خاموشی سے گزر گئی۔ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم بھٹو صاحب کے خلاف چند حلقوں میں دھاندلی کے لئے تحریک چلائی تھی۔ آج بھی منتخب وزیراعظم نواز شریف کے خلاف چند حلقوں میں دھاندلی کے لئے تحریک (آزادی مارچ اور دھرنا) شروع کی گئی ہے۔ وہ تحریک بھٹو کو ہٹانے کے لئے تھی۔ یہ تحریک نواز شریف کو ہٹانے کے لئے ہے۔ گو بھٹو گو اور گو نواز گو۔ وہ تحریک بھی بیرون ملک سے چلائی جاری تھی۔ یہ تحریک بھی لندن پلان کے ساتھ جوڑی جا رہی ہے۔ تب وہ تحریک نظام مصطفی بن گئی۔ یہ تحریک انقلاب اور تبدیلی کا روپ دھار چکی ہے۔ تب تحریک اتنی کامیاب ہو گئی کہ بھٹو کو ہٹا دیا گیا۔ ہٹانے کے لئے مارشل لا آیا اور پھر جنرل ضیاالحق نے بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ فیض احمد فیض کا یہ مصرعہ اسی صورتحال کی ترجمانی کرتا ہے۔ بھٹو صاحب نے سیاست کو رومانس دیا تھا۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اب کیا ہو گا؟ عمران کا دھرنا جاری ہے اور نواز شریف بھی وزیراعظم ہیں۔ وہ کبھی عمران کے پریشر میں آ کے استعفیٰ نہیں دیں گے۔ انہوں نے جنرل مشرف کے ساتھیوں کے پریشر میں آ کے بھی استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ استعفیٰ تو نیکدل اور وفا حیا والے صدر رفیق تارڑ نے بھی جنرل مشرف کے مطالبے پر نہ دیا تھا۔ پھر جنرل مشرف صدر رفیق تارڑ کے گھر آئے مگر انہوں نے کوئی پلاٹ وغیرہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے جنرل مشرف کے ہوتے ہوئے کبھی صدر رفیق تارڑ کو سابق صدر نہ لکھا تھا۔ میں انہیں اب بھی صدر رفیق تارڑ کہتا ہوں۔ ممنون حسین نواز شریف کے صدر ہوں گے۔ میرے صدر تو رفیق تارڑ ہیں۔ اب نواز شریف کے علاوہ ممنون صدر کا بھی امتحان ہے۔
میں نے بات نواب زادہ نصراللہ کی خاموش اور تنہا برسی سے شروع کی تھی۔ میں انہیں بابائے جمہوریت نہیں سمجھتا۔ وہ ایک بہت عقلمند سیاستدان تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ برسراقتدار نہیں آئیں گے۔ تو تحریک نظام مصطفی کی ’’فوجی کامیابی‘‘ کے بعد اپنے سیکرٹری جنرل کو جنرل ضیاء کی کابینہ میں شامل کر دیا مگر ایک افسوس اور بھی ہے کہ وہ بھٹو صاحب کی قابل فخر بیٹی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے زمانے میں کشمیر کمیٹی کے سربراہ بن بیٹھے جبکہ انہوں نے بھٹو صاحب کے عدالتی قتل پر افسوس کا اظہار بھی نہ کیا تھا۔ پہلی بار بیرون ملک کا سرکاری سفر بھی کیا ان کی برسی پر میں برادرم منیر احمد خان سے افسوس کرتا ہوں کہ آخری عمر میں وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ میں نے تب ایک تجویز اپنے کالم میں لکھی تھی کہ نواب زادہ صاحب کو لاہور میں دفن کیا جائے۔ بہادر آدمی جاوید ہاشمی نے ملتان سے فون کر کے بتایا کہ تمہاری یہ تجویز میں نے ان کے بیٹوں تک پہنچا دی تھی۔ سٹیشن کے پاس بوہڑ والے چوک میں ان کے ڈیرے میں انہیں دفن کرنا چاہئے۔ تاکہ یہ جگہ ان کے مرنے کے بعد بھی سیاست کا مرکز رہتی۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے کرائے کے اس مکان کا کرایہ کئی برسوں سے ادا نہیں کیا تھا اور نہ یہ جگہ خریدی تھی۔ میری ان سے ملاقاتیں رہیں۔ ان کے گھر کے آموں سے بھی لطف اندوز ہوا۔ میں انہیں بابائے جمہوریت کی بجائے بابائے سیاست کا خطاب دیتا ہوں۔ انہوں نے نواز شریف کے خلاف تحریک نجات بھی چلائی تھی۔ مگر وہ ان کے معتقد تھے۔ آج ’’صدر‘‘ زرداری اور نواز شریف گٹھ جوڑ کا بہت تذکرہ ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ان کی قیادت میں ایک تھے۔ بہرحال وہ ایک بزرگ بہت محترم تھے اور سیاست کے رموز سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری پوزیشن اپوزیشن میں بنائی تھی۔ ان کا سنایا ہوا شعر برادرم رئوف طاہر نے اپنے کالم میں لکھا تھا۔ تب وہ نوائے وقت میں تھے۔ یہ شعر نواب زادہ صاحب کی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے اور ہماری زندگیوں کی یکسانیت کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ ہم زندگی نہیں گزار رہے گزاری ہوئی زندگی گزارتے چلے جا رہے ہیں۔
اپنی قسمت میں لکھا ہے یہ ہارا ہوا دن
چلئے اک اور گزاریں گے گزارا ہوا دن
نواب زادہ نے ایک عام سے پرانے مکان میں زندگی گزار دی۔ ان کے مقابلے میں آج کے دوسرے درجے کے بلکہ دو نمبر سیاستدانوں کے گھر دیکھیں تو آدمی حیران پریشان ہوتا ہے۔ دولت کمانا برا نہیں ہے مگر ایک حد سے زیادہ دولت دو نمبر کاموں اور کرپشن کے بغیر نہیں کمائی جا سکتی۔ یہ دولت کمائی نہیں لوٹی جاتی ہے۔ سیاسی طور پر یہ لوٹ مار ’’جائز‘‘ سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں کسی کرپٹ سیاستدان کو سزا نہیں ملی۔
اس صورتحال میں نواب زادہ نصراللہ جیسے سیاستدان فرشتہ معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال وہ سیاستدانوں کے علاوہ کوئی اور ہی مخلوق دکھائی دیتے ہیں۔ لیاقت علی خان شہید ہوئے تو ان کی بنیان کئی جگہوں سے پھٹی ہوئی تھی۔ میرا خیال ہے کہ بھٹو صاحب پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ صدر جنرل ضیاء سے اختلاف کئی دوستوں کو ہوں گے۔ مگر وہ کرپشن سے پاک آدمی تھے۔ جنرل ضیاء کا ذکر اس لئے ہوا کہ جب کوئی جرنیل صدر بنتا ہے تو وہ سیاستدان ہو جاتا ہے۔ کاش جرنیل صدر بن کے کسی سیاسی کمپلیکس میں مبتلا نہ ہوتے۔ وہ سیاسی حکمرانوں سے مختلف نہیں تھے۔ میرا ایک پرانا جملہ پھر سن لیجئے ہمارے ہاں سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی اور جرنیلوں نے سیاستدان بننے کی کوشش کی۔ دونوں ناکام ہو گئے اور بدنام ہو گئے۔
موجودہ صورتحال میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کئی کالم نگار‘ دوستوں کے بقول نواب زادہ نصراللہ بننے کی کوشش کر رکھی ہے مگر ابھی تک یہ بات نہیں بنی۔ میں نے کہا تھا کہ وہ سید مودودی بننے کی کوشش کریں اور نہ خواہش ہی کریں‘ میرے لئے سراج صاحب محترم ہیں مگر وہ صوبائی سطح کے سیاستدان ہیں وہ پہلے بھی ایم پی اے اور صوبہ سرحد کے وزیر شذیر تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے وزیراعلیٰ اکرم درانی تھے۔ اب عمران خان کے پرویز خٹک صاحب وزیراعلیٰ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان کا خٹک ڈانس اچھا ہے۔ اب ’’اٹک ڈانس‘‘ کریں۔ ان کے مقابلے میں برادرم لیاقت بلوچ کئی بار ایم این اے رہے ہیں اور ایم ایم اے (سابق ) کی سیاست میں جماعت اسلامی کی نمائندگی محبی و محبوبی قاضی حسین احمد کے ساتھ کی۔ مجھے تعریف کرنا ہے جماعت اسلامی کے معاملات کی جو پاکستان کی کسی بھی شاہی پارٹی سے افضل ہیں۔ مجھے ان کے طرز انتخاب پر بھی اعتراض نہیں ہے مولوی اور سیاستدان کا امتزاج اس لیڈر شپ میں ہونا چاہئے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمٰن ہونے سے بچا جائے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024