کوالیفائیڈ ہومیوپیتھ اور حکماء زیر عتاب کیوں؟
ایک مرتبہ ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک ٹی وی رپورٹر ہر نمائندہ اسمبلی سے ایک سوال پوچھ رہا تھا کہ آج جو قانون اسمبلی سے پاس ہوا ہے وہ کیا ہے؟ یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ کوئی بھی نمائندہ اسمبلی صحیح طور پریہ جواب نہیں دے سکا کہ انہوں نے جو قانون منظور کیا ہے وہ ہے کیا۔۔! ایک خاتون نے تو جواب دیاابھی دیکھیں گے قانون کو ٹی وی رپورٹر نے حیرت سے کہا اب دیکھیں گی پاس ہونے کے بعد؟ جہاں نمائندگان ایوان کی جہالت کا یہ عالم ہو جو محض ربر اسٹیمپ ہوں وہاں الیکشن کے کیا معنی؟ کروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کرکے غیر ذمہ دار لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ جنہیں یہ علم نہ ہو کہ انہیں عوام نے اس لئے منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجا ہے کہ ان کی بھلائی اور بہتری کیلئے قانون سازی کرنی ہے۔ یہ لوگ پارٹی کے دفاع میں خوب بول لیتے ہیں لیکن کسی اور موضوع کی مخالفت اور موافقت میں ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے۔ کسی قانون کی خوبی یا خاصی پر بحث کرنے کی ان سے امید کرنا عبث ہے۔ میں نے آج تک ایوان میں کسی نمائندے کو کسی قانون کی مخالفت بحث کرتے نہیں سنا۔ کبھی ہولڈنگ ٹیکس لا کر بھی سیلز ٹیکس لگا کر کبھی بجلی کبھی پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کرعوام کا معاشی استحصال کیاجارہا ہے۔ سفید پوش آدمی کیلئے زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ تیزی سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہولڈنگ ٹیکس نے بہت سے لوگوں کو جو ایزی پیسہ یا اومنی وغیرہ کے کاروبار سے منسلک تھے بے روزگار ہوگئے ہیلتھ کیئر کا قانون بنا کر ہومیو پیتھک اور اطباء حضرات کے کلینک سیل کئے جارہے ہیں۔ کسی نے ایوان میں آواز نہ اٹھائی کہ اس سے قانون بہت سارے لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ لوگ حکومت اور ایوان نمائندگان کو بددعائیں دیں گے۔ بہت سے بے چارے مستند ہومیو پیتھک اور اطبا ء حضرات ایسے ہیں جن کی کوئی خاص پریکٹس نہ ہے بمشکل روٹی کماپاتے ہیں ان کی اتنی حیثیت نہیں کہ پانچ ہزار روپے بھر کر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے رجسٹریشن حاصل کرسکیں۔ یقینا بے روزگاری ان کا مقدر ہوگی۔ دوسری طرف وہ غریب لوگ جو ایلوپیتھک ڈاکٹرز کی فیس دینے کی طاقت نہیں رکھتے جنہیں سستا علاج ان کی گلی یا محلے میں دستیاب تھا متاثر ہونگے۔ جس ملک میں بیس ہزار کی آبادی کیلئے بھی ایک ڈاکٹر میسر نہ ہو جہاں ڈاکٹر کی کم از کم فیس دو سو روپے ہو کیا ہومیو پیتھ اور اطباء حضرات اس خلا کو پورا نہیں کررہے تھے؟ جوسب کے سب حکومت کی نظر میں عطائی ہیں۔ ایلوپیتھک حلقہ احباب کا ان سے متعصب ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن حکومت کا ان کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک ہومیو پیتھک یا حکیم چار سال اسٹڈی کرتا ہے لیکن اس کو معاشرے میں وہ عزت یا مقام حاصل نہیں جو ایلو پیتھک ڈاکٹر کو ہے۔ اس کی واضح وجہ ڈاکٹرز اور حکومت میڈیا کا ان کے خلاف عطایت کا واویلا ہے۔ حالانکہ جو لوگ حکیموں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتے ہیں خود ان کے آباو اجداد اسی طریقہ علاج سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ایلوپیتھک کے ساتھ ساتھ دیگر طریقہ علاج کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی انہیں بھی جدید طبی سہولت سے استفادہ کرنے کا موقع دیاجاتا ترقی کے دھارے میں شامل کیاجاتا۔ اس طرح ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کی کمی کس قدر پوری کی جاسکتی تھی۔ بجائے اس کے اُن پر عطایت کا لیبل لگا کر انہیں پیچھے دھکیلاجارہا ہے ۔ طبی فارما کو پیا1965 سے منجمد ہے جو اپنے اندر تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اس میں ایلوپیتھ ادویات شامل کی جائیں خاص طور پر ہربل میٹریل سے حاصل شدہ ، حکیم کو ایلوپیتھک میڈیا میڈیکل پڑھائی جاتی ہے اسے فاضل طب وجراحت کی سند تو دی جاتی ہے لیکن وہ ٹیکہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا یعنی وہ اپنے مریض کو سن کئے بغیر ٹانکے لگائے جبکہ ایلوپیتھک اپنے مریض کو سن کرکے ٹانکے لگائے۔ کس قدر ظلم ہے کہ چار سال اسٹڈی کرنے والا حکیم یا ہومیو پیتھ ایلوپیتھک میڈیسن استعمال نہیں کرسکتا جبکہ ایک سالہ ڈسپنسر کورس کرنے والا بنیادی مرکز صحت میں انچارج لگ سکتا ہے جس طرح ایلوپیتھک ڈاکٹرز پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اطباء حضرات این سی ایف ٹی اور ہومیوپیتھ این سی ایف ایچ میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں پھر پنجاب میں ایک نیا ادارہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن بنانے اور اس میں رجسٹریشن کرانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی اس کا مقصد سوائے پانچ پانچ ہزار فی کس اکٹھا کرنے کے اور کچھ نہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبی عوام پر ٹیکس در ٹیکس لگانا ہے۔ ہر قسم کا چھوٹا موٹا کام کرکے روزی روٹی کمانے والے کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا ہے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور سفید پوش طبقہ تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے آرہا ہے۔ غریب کے منہ سے نوالہ بھی چھینا جارہا ہے۔ کسی کسی نمائندہ اسمبلی کو توفیق نہیں ہوئی کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری ٹیکسز کی بھرمار کے خلاف ایوان میں صدائے احتجاج بلند کرے۔