شیخوپورہ میں وکلاء کی طرف سے ایڈ یشنل سیشن جج کے ساتھ بدتمیزی اور عدالت کو تالا لگانے کے واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منظور احمد ملک تمام عدالتی مصروفیات ترک کرکے شیخوپورہ پہنچ گئے اور ایڈیشنل سیشن جج شیخوپورہ خضر حیات گوندل کو عدالت میں بٹھایا۔
وکلا کی طرف سے پولیس، کلائنٹس اور ججوں پر تشدد کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ کسی جج کی عدالت کو شیخوپورہ میں پہلی بار تالا نہیں لگایا گیا ایسے واقعات کا پہلے بھی اعادہ ہوتا رہا ہے۔ اگر وکلاء کی رائے میں کوئی جج انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو اس کا مطلب جج پر تشدد نہیں اور عدالتیں بند کرنا نہیں ہے۔ ججوں کے احتساب کا ایک طریقہ کار موجود ہے اس پر عمل ہوتا ہے۔ کچھ وکلا خود کو عقل کل سمجھتے اور اپنے کہے کو حرف آخر قرار دیکر دوسری رائے پر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو دھونس سے اپنے حق میں فیصلے کرانا چاہتے ہیں۔ پڑھے لکھے افراد کے ایسے رویئے نہیں ہوتے، یہ جہالت کی نشانی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا فوری طور پر شیخوپورہ جانا اور جج کو انکی کرسی پر بٹھانا اچھا اقدام ہے۔متعلقہ بار نے اب مذکورہ وکلاء کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا دی ہے، اس نے چیف جسٹس کی آمد سے قبل ہی حالات کو معمول پر لانے کی کیوں کوشش نہیں کی؟ قانون کو کوئی بھی شخص ہاتھ میں لے وہ قابل معافی نہیں ہے۔ وکلا گردی پر سخت ایکشن کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ سینئر وکلا بھی اپنے سرپھرے جونیئرز کو صبر ‘برداشت اور قانون کے احترام کا سبق دیں۔ یہ نہ ہو کہ حکومت ایسے واقعات کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت لانے پر مجبور ہو جائے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024