اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) ایف آئی اے حکام نے ”ڈی ایچ اے کے گارڈ راجہ فیاض قتل کیس“ میں ملزمان کی تلاش میں اپنی ناکامی کا اعترف کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو بتا دیا ہے وقوعہ کے ساڑھے چار سال بعد قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے عدالت اس کیس کو حتمی انجام تک پہنچائے گی یہ ایک ایسا کیس ہے جس میں درخواست گزار شو کت علی پہلے دو تین لوگوں کو قتل کے مقدمے میں ملوث کرتا تھا اور جب ان لوگوں کی زمین بحریہ ٹاﺅن کے نام ٹرانسفر ہو جاتی تو ان کے ناموں کو نکال دیا جاتا اور چند دوسرے لوگوں کے نام مقدمے میں ڈال دیئے جاتے اور پولیس والے کہتے ہیں یہ بڑا باکردار شخص ہے۔ فاضل بنچ نے سپر یم کورٹ آفس کو ہدایت کی اس مقدمہ کے حوالے سے عدالت کے احکامات اور ایف آئی اے کی رپورٹ کا اردو میں ترجمہ کرایا جائے تاکہ سائلین کے لیے پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو ملک ریاض کی جانب سے زاہد بخاری اور بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے علی ظفر پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور بتایا کہ سیکورٹی گارڈ کے قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ عدالت کے روبرو ڈی جی ایف آئی اے پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو تحقیقات کے حوالے سے بتایا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ کیس چلے گا اور آگے بڑھے گاہم نے اس کیس کی تہہ تک پہنچناہے۔ ملک ریاض کے وکیل نے کہا جناب آپ گڑے مردے کیوں اکھاڑ رہے ہیں۔ آپ اب گارڈ کے قتل کیس کی کیوں سماعت کر رہے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ گڑا مردہ نہیں، ملک ریاض کے وکیل نے کہا جناب آپ تفتیشی ایجنسی کو تفیش کے بارے میں کوئی ہدایات نہ دیں اور نہ ہی کوئی آبزرویشن دیں تاکہ کیس کی تفتیش متاثر نہ ہو،کوئی بھی ڈی ایچ اے کا نام نہیں لیتا اور میرے ہی موکل ملک ریاض کو فوکس کیا ہوا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا اس میں انصاف کے تمام تر تقاضے پورے ہوں گے اور انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ انصاف کی فراہمی ہمارا فریضہ ہے اور یہ لوگوں کا حق ہے جبکہ ایف آئی کے ڈائریکٹر لیگل محمد اعظم نے کہا قاتلوں کا ساڑھے چار سال بعد سراغ لگانا مشکل ہے۔ فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر تے ہوئے کہا کہ آئندہ تاریخ سے اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے گی۔ نوائے وقت نیوز کے مطابق دوران سماعت جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دئیے ارسلان افتخار کیس حکومت کو دیا تاکہ پوری قوت سے تفتیش کرے۔ زاہد بخاری ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا یہ واحد کیس ہے جس میں صلح نامہ اور بریت کے بعد تفتیش کی جا رہی ہے۔ گارڈ کی بیوہ نے لکھ کر دے دیا ہے اسے ادائیگی ہو گئی۔ ملک میں روزانہ قتل ہوتے ہیں کسی کیس میں اس طرح سے کارروائی نہیں ہوتی۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا یہ صرف قتل کا مقدمہ نہیں بلکہ انصاف کے عمل میں رکاوٹ کا مقدمہ ہے۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہم نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں آئین و قانون سے تجاوز نہیں کر سکتے اور جج جب تک فیصلے پر دستخط نہیں کرتا اس کا کوئی ذہن نہیں ہوتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ڈی جی سے مخاطب ہو کر کہا سیشن جج مظہر منہاس کی رپورٹ کو بھی غور سے پڑھیں۔ اس پر زاہد بخاری نے احتجاج کرتے ہوئے کہا سیشن جج اسلام آباد مظہر منہاس کی رپورٹ کو آپ بنیاد نہ بنائیں وہ غیر جانبدار رپورٹ نہیں ہم نے اس رپورٹ کیخلاف بھی درخواست دی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم کسی کو اپنی مرضی کی تفتیش کا نہیں کہہ رہے جبکہ ٹرائل ہم نہیں کر رہے ارسلان افتخار کیس بھی ہم نے حکومت کو دے دیا ہے کیونکہ ہمارا کام ٹرائل نہیں ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے مزید کہا کہ خود ملک ریاض ارسلان یکس میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے چونتیس کروڑ روپے ان مقدمات کے خاتمے کے لئے دئیے تاکہ ان سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ زاہد بخاری نے کہا کہ روزانہ سینکڑوں حادثے ہوتے ہیں ملک ریاض کے بیان کے ساتھ مختلف حادثوں کی رپورٹس بھی جمع کرائی گئی تھیں کئی لوگ حادثوں میں مر جاتے ہیں لیکن عدالت نے کبھی ازخود نوٹس نہیں لیا۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024