چیف جسٹس‘ چیئرمین سینٹ ملاقات‘ فوری انصاف میں رکاوٹیں دور کرنے پر اتفاق‘ ثاقب نثار کا تارکین وطن کو ووٹ کا حق دلانے کا عزم
چیئرمین سینٹ رضا ربا نی نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے سپریم کورٹ میں ملاقات کی اور عدالتی اصلاحات کا جائزہ لیا۔ ملاقات کے دوران خاص طور پر مقدمات میں تاخیر کے حوالے سے غور کیا گیا تاکہ سائلین کو جلد از جلد انصاف فراہم کیا جا سکے، ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عدالتی اصلاحات کیلئے ورکشاپس بھی منعقد کروائی جائیں تاکہ مختلف ایشوز پر تجاویز حاصل کی جا سکیں، ملاقات میں دونوں نے قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کے حوالے سے بھی گفتگو کی جبکہ ججوں کی تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے امور بھی بحث کا حصہ رہے، چیف جسٹس نے چیئرمین سینٹ کو بتایا کہ وہ بہت جلد پارلیمانی کمیٹی کے ممبران سے ملاقات بھی کرینگے۔ چیئرمین سینٹ نے گزشتہ روز ایوان کو بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیاں دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ملاقات میں کمیٹی آف دی ہول کی طرف سے بھجوائی جانے والی سفارشات پر تبادلہ خیال ہوا ۔ چیف جسٹس چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 175 اے صحیح معنوں میں فعال ہو۔ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ رکاوٹوں کو دور کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے جس پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس صاحب سے ملاقات کیلئے تیار ہے اور امید ہے کہ اس سے سسٹم میں مزید بہتری آئیگی۔ دریں اثناء سپریم کورٹ میں تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اس معاملے پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، عدالت پر بہت تنقید ہو رہی ہے لیکن ہمیں کسی کی تنقید کی کوئی پروا نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ ہر صورت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ آئندہ عام انتخابات آزادانہ، شفاف ہوں۔ عدلیہ اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ اوورسیز پاکستانی آئندہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر نادرا کو فوری اقدامات کی ہدایات بھی کیں۔
آ ئین میں اداروں کا کردار اور اختیارات کا تعین کردیا گیا ہے‘ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اداروں کو کام کرنا ہوتا ہے‘ اسکے ساتھ اداروں میں رابطہ اور تعاون بھی ضروری ہے۔ آئینی و قانونی حدود سے تجاوز پر جہاں معاملات بگڑتے ہیں‘ وہیں اداروں کے مابین غلط فہمیوں سے کشیدگی بھی درآتی ہے۔ ہمارے ہاں سپرمیسی کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے پارلیمنٹ کو سپریم قرار دے کر بالادستی کی بحث ہی ختم کردی ہے۔ بلاشبہ آئین اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آئین سازی کے بعد خود پارلیمان بھی دیگر اداروں کی طرح آئین کے ماتحت ہوجاتی ہے۔ آئین کی موجودگی میں جسکی لاٹھی اسکی بھینس کے مترادف رویے سامنے آئیں تو پھر جمہوریت تو بچتی ہی نہیں۔ ریاست کا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس کا وطن عزیز کو متعدد بار تلخ تجربہ ہوچکا ہے۔
آئین کے تحت اداروں کو تفویض کردہ اختیارات اور ذمہ داریوں کے واضح تعین کے باوجود ریاست کی چھتری تلے ادارے ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ان کو ایک دوسرے کی معاونت کرنا ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ بھی آئین میں طے کردیا گیا ہے۔ اسکے باوجود اگر کہیں سقم نظر آئے تو آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بلامقصد بھی ترامیم ہوتی رہی ہیں۔ کبھی ایک ادارے کے اختیارات سلب کرنے کیلئے اور کبھی آمروں کی طرف سے خود کو اختیارات کا محور بنانے کیلئے۔ تاہم ناگزیر ضرورت کے تحت اور بامقصد ترامیم بھی ہوتی رہی ہیں۔
مسائل اور مشکلات کسی بھی ادارے کو پیش آسکتی ہیں جس پر بعض اوقات اداروں کی اعلیٰ شخصیات کا لہجہ درشت اور تلخ بھی ہو جاتا ہے۔ چیئرمین نیب اور سپیکر کو عدلیہ کے بعض فیصلوں پر سخت لب و لہجہ اختیار کرتے دیکھا گیا ہے۔ عسکری قیادت کی طرف سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ حکومت پارلیمان کی بااختیار نمائندہ ہے۔ اسکی طرف سے بھی جواب آتا ہے۔ ایسی ترش بیان بازی محب وطن حلقوں کیلئے دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔
چند روز قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کا اعلان کیا تھا۔سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا‘ نظام عدل میں اصلاحات لانا کس کا کام ہے‘ آج تک پارلیمنٹ نے نظام عدل میں اصلاحات کیلئے کتنے قوانین بنائے۔اب ہم نظام عدل میں اصلاحات لیکر آئیں گے‘ پھر کوئی یہ نہ کہے کہ سپریم کورٹ عدالتی دائرہ اختیار سے تجاوز کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ‘ ہائیکورٹس اور لوئر کورٹس میں مقدمات کی بھرمار ہے۔ لوئر کورٹس میں جہاں مقدمات کا شمار قطار نہیں‘ وہیں رشوت اور کرپشن کی داستانیں بھی بکھری ہوئی ہیں۔ انصاف کے حصول کے انتظار میں لوگوں کی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ عدلیہ میں کرپشن‘ بدنظمی اور مقدمات کے انبار کی بات کی جاتی ہے تو ادارے کے سربراہ کا فرسٹریٹڈ ہونا ایک فطری امر ہے۔ یقیناً وہ ایسا معاملات کو نیک نیتی سے حل کرنے کا عزم و ارادہ ظاہر کرتے ہیں مگر بگاڑ اس قدر ہے کہ سوچتے ہونگے کہاں سے شروع کریں۔ مقدمات کی بھرمار سے نجات کیلئے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نظامِ عدل میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں‘ اس کیلئے مناسب فورم پارلیمنٹ ہے۔ ان سے چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی خوشگوار ملاقات ہوچکی ہے۔ پارلیمان بھی چیف جسٹس کے استقبال کیلئے تیار ہے یہ بھی خوش آئند ہے۔ میاں رضا ربانی سے ملاقات اور پارلیمنٹیرین سے ملاقات کی خواہش نظام عدل میں اصلاحات کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ سینئر اور ماہر پارلیمنٹیرین کی طرف سے پاک فوج‘ پارلمینٹ اور عدلیہ کے مابین ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی اس موقف اور تجویز کے سرخیل ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سینٹ کی ہول کمیٹی میں آکر سوال و جواب کی نشست سے اس ڈائیلاگ کی ابتداء کرچکے ہیں۔ میاں رضا ربانی کی چیف جسٹس سے ملاقات اداروں میں ڈائیلاگ کی طرف مزید پیشرفت ہے۔ مستقبل میں اداروں کے سربراہوں کے مل بیٹھنے کے امکانات ہیں۔ معروضی حالات بھی اداروں کے مابین ڈائیلاگ کے متقاضی ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عزم ظاہر کیا ہے کہ عدلیہ ہرصورت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ عام انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں۔ بعض حلقے اس پر بڑے احترام کے ساتھ سوال اٹھا رہے ہیں کہ عدلیہ کے پاس ایسا کرنے کا کیا میکانزم ہے؟ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا کام ہے‘ شفاف انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہو تو حکومت نے دور کرنی ہے۔ قانون سازی کی ضرورت ہو تو پارلیمنٹ نے کرنی ہے‘ اگر اسے حکومت اور پارلیمنٹ سے مطلوبہ تعاون نہیں ملتا تو الیکشن کمیشن عدلیہ سے رجوع کر سکتا ہے جس پر عدلیہ نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے احکامات دینے ہیں۔ اگر انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے چیف جسٹس کا اشارہ بھی اسی طرف ہے تو درست ہے۔
فاضل چیف جسٹس کی جانب سے تارکین وطن کو ووٹ کا حق دلانے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کا ارادہ حوصلہ افزا۔ اس سے تارکین وطن کو اگلے انتخابات میں ووٹ کا حق ملنے کے روشن امکانات ہیں۔ وہ یقین ظاہرکرتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی آئندہ انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔ اس کیلئے نادرا کو فوری اقدامات کرنے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو کام کرنا ہے اور پارلیمنٹ نے قانون سازی کرنی ہے۔ عدالت کی طرف سے احکامات جاری کئے جاتے ہیں ان پر کبھی کبھی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی نیک نیتی کے فقدان اور کبھی جائز مسائل کی وجہ سے عمل نہیں ہوپاتا۔ سپریم کورٹ کے بے لچک رویے کے باعث بلدیاتی الیکشن اور مردم شماری ہو سکی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان شفاف انتخابات اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کیلئے متعلقہ اداروں کے ساتھ کوآرڈی نیشن اور رابطے میں رہتے ہیں تو اسکے بہتر اور ثمرآور نتائج سامنے آسکتے ہیں۔