آسما ں نے ہم کو دے مارا !
گزشتہ سے پیوستہ
ایک غیر سرکاری ادارے ’’ساحل ‘‘نے 2017میں ’’ظالمانہ اعدادو شمار ‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں روزانہ تقریباً 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں ۔رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ 2016 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ادارے کے سروے کے مطابق 2016 میں بچوں سے جنسی تشدد کے 4139 واقعات رپورٹ ہوئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ان میں اغوا کے 1455 ،ریپ کے 502 ،بچوں کے ساتھ بد فعلی کے 453 ، گینگ ریپ کے 271،اجتماعی زیادتی کے 268 ،جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس رپورٹ ہوئے جوکہ 2015 سے دس گنا زیادہ ہیںکیونکہ سال 2015 میں 3768 مجرمانہ واقعات رونما ہوئے ۔اس رپورٹ میں واضح کیاگیا کہ ان واقعات میں سب سے زیادہ سنگین جرم زیادتی کاشکار ہونے والے بچوں کا قتل ہے کہ زیادتی کے بعد قتل کے سو واقعات کی تفصیل پائی گئی ۔
بہر حال یہ قبیح فعل صرف پاکستان میں ہی عام نہیں بلکہ آج پوری دنیا اس مسئلے سے نبرد آزما ہے۔بین الاقوامی مشاہدے کے مطابق برطانیہ ، امریکہ ،جرمنی و دیگر مغربی ممالک میں جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی اکثریت اپنے ہی خاندان کے افراد یا احباب کی ہوس کا نشانہ بنی اور ایسے 85 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ان واقعات میں سے پچھتر فیصد لڑکیاں ہیں اور یہ نو سال کی عمر کے آس پاس ہوئے دنیا بھر میں جنسی استحصال کا شکار بچوں کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں رہتی ہے۔بھارت میں بچوں کا جنسی استحصال وبائی شکل اختیار کر چکا ہے کہ ہر تین گھنٹے پر کسی نہ کسی بچے یا بچی سے بد سلوکی ہوتی ہے۔
آج اس قبیح فعل کو روکنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہماری نسلیں دائو پر لگ چکی ہیں ۔حکمرانوں کے بچوں کے علاوہ کسی کے بچے محفوظ نہیں ہیں اور خطرات بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیںکہ کچرے کے ڈھیر پر جگر گوشوں کے کٹے پھٹے اور زخم زخم لاشے دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے مگر حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ان کو اتنا ہائی لائیٹ سیاست چمکانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور اگر احتجاج کے لیے آوازہ بلند کیا جائے تو سر عام سیدھے فائر کر کے ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ اس ظلم پر اگر سوال کیا جاتا ہے تو سوال کرنے والے کو غداروطن کہا جاتا ہے ۔۔اندھیر نگری چوپٹ راج کی مانند حکمران کرسی کرسی کھیل رہے ہیں۔ عوام جب انصافی گھنٹہ بجاتے ہیں تو اسی کے نیچے آکر مر جاتے ہیں ۔آج عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت ایک بڑا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ اپنے بچوں کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے ۔ اگر آپ بچوں کو اعتماد دیں گے ،ان سے چھوٹی موٹی باتیں شئیر کریں یعنی دوستانہ ماحول بنائیں گے توبچے اپنی راز کی باتیں آپ کو بتائیں گے ۔آپ بچوں کو بتائیں کہ اگر کوئی ان سے کسی بھی قسم کی بات یا چھیڑ خانی کرے ،کوئی چیز کھانے یا کھیلنے کو دے تو وہ آپ کو بتائیں اور اس پر انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا اکثر والدین شرم کے مارے اپنے بچوں سے ایسی باتیں نہیں کرتے جس کی وجہ سے جھجھک کا پردہ حائل ہو جاتا ہے کہ بچے بھی اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات والدین کو نہیں بتاتے جب تک اس پردہ داری اور ڈر کا خاتمہ نہیں ہوگا کہ ہمارے والدین نجانے کیا کہیں گے اور کیا وہ یقین کریں گے ۔۔ تب تک ایسے مسائل بڑھتے رہیں گے۔
اس مقصد کے لیے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ فحاشی و عریانی کو لگام دیکر اسلامی روایات کے مطابق اپنے ڈراموں اور پروگراموں کو ترتیب دیا جائے کہ جن میں کامیاب زندگی گزارنے کا پیغام ہو ۔مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ بھارت اپنے ڈراموں اور پروگرامز میں روایتی بھارتی لباس اور مذہب کو پروموٹ کرتاہے مگر ہم ہندو ازم ، مغربی لباس اور مغربی روایات کو پیش کرتے ہیں ۔ ہمیں اپنی روایات ،لباس اور اقدار پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے جبکہ انھی روایات و اقدار کو لیکر قائد اعظمؒ نے دنیا کے نقشے کو بدل دیا تھا اور دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں کہ ان کی اقدار،روایات ،مذہب اورثقافت سب جدا ہیں مگر۔۔وائے ناکامی:
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج لبرلز جنسی تعلیم کو تعلیمی اداروںمیں عام کرنے کا علم اٹھائے پھر رہے ہیں۔ پہلے نصابی کتابوں سے اسلامی تعلیمات کو کم کیا گیا, پھر ختم نبوت شق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور اب جنسی تعلیم کو عام کرنے کے لیے مضمون ترتیب دیا جارہا ہے کہ بچوں کے لیے SEX Awarenessوقت کی اہم ضرورت ہے حالانکہ ارباب اختیار خود راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں کہ خوف الہی اور آخرت سے بے خبر ہیں تو کیسے امن و امان اور محفوظ ریاست کا خواب دیکھا جا سکتا ہے کہ اپنے بیشتر قبیح اعمال کی وجہ سے وہ بااختیار ہو کر بے اختیار ہیں یہی وجہ ہے کہ اخلاقی جرائم بڑھ رہے ہیں۔سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہا تھا کہ : اخلاقی جرائم لازمی طور پر خدا سے بے خوفی اور آخرت سے بے فکری کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔
مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج احیائے اسلامی اور احیائے تہذیب وقت کی اہم ضرورت ہے ۔آج قرآن پاک کو نصابی مضمون کے طور پر ترجمے کے ساتھ پڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ایک صحت مند اسلامی معاشرہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔بے ہنگم میڈیا کو لگام دینے کی ضرورت ہے ۔ اسلاف کی تعلیمات ،مشاہیر کے کارناموں اور تاریخی حوالوں کو ڈراموں کے ذریعے پیش کرنے کی ضرورت ہے ایسے قبیح جرائم کرنے والوں کوسر عام بیچ چوراہوں میں لٹکا کر سنگسار کرنے اور نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے ۔