حضرت بابا عبداللہ شاہ اصحابیؒ
کراچی سے ٹھٹھہ جائیں تو شہر کی حدود شروع ہونے سے قبل ہی مکلی کا تاریخی قبرستان آتا ہے جہاں ایک روایت کے مطابق ساڑھے 4 لاکھ قبریں ہیں۔ وسیع سلسلہ کوہ کے 33 مربع میل رقبے میں 33 بادشاہ‘ 17 گورنر‘ سوا لاکھ اولیائے کرام اور لاتعداد ادیب‘ شاعر‘ دانشور‘ اہلِ علم اور عام آدمی سپرد خاک ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم کو عوام جانتے ہیں البتہ یہاں مدفون حضرت عبداللہ شاہ اصحابیؒ کا شمار معروف اولیائے سندھ میں ہوتا ہے جو نہ صرف وادیٔ مہران بلکہ ایران‘ ہند اور افغانستان تک عقیدتمندوں کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔
آپ کا اسم گرامی عبداللہ حسنیؒ تھا لیکن عبداللہ شاہ اصحابیؒ کے نام سے معروف ہیں۔ سلسلہ نسب آگے چل کر 14 واسطوں سے حضور غوث پاک سرکار عبدالقادر جیلانیؒ تک جا پہنچتا ہے۔ جب آپ سندھ تشریف لائے تو ارغون خاندان حکمران تھا اور شاہ بیگ کا سکہ چلتا تھا۔ آپ صاحب شریعت و طریقت تھے اور احکامات الٰہی و اسوہ رسولﷺ کی مطابقت میں زندگی گزارتے تھے اس لئے عقیدت و ارادت مندوں کا بڑا حلقہ تھا۔ تذکرہ اولیائے سندھ میں مرقوم ہے کہ آپ کو رسول اکرمﷺ کی ظاہری آنکھوں سے زیارت ہوئی تھی اس لئے بھی صحابی مشہور ہوئے۔
ٹھٹھہ کو سندھ کی تاریخ میں کئی اعتبار سے اہمیت حاصل ہے خدا آباد‘ حیدر آباد اور کراچی کی طرح یہ بھی ماضی میں سندھ کا دارالسلطنت رہا ہے۔ ایک زمانے میں یہاں سینکڑوں درسگاہیں تھیں۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں سندھ کا دورہ کرنے والے ایک انگریز سیاح نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے ٹھٹھہ میں 400 کے لگ بھگ ایسے مدارس دیکھے جہاں دینی و دنیاوی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ تبت کے کیلاش نامی پہاڑ کی چوٹیوں سے بہہ نکلنے والا دریائے سندھ شمالی علاقہ جات اور پنجاب سے ہوتا ہوا سندھ کے میدانوں سے گزر کر اسی ضلع میں سمندر میں جا گرتا ہے۔ خوبصورت شاہجہانی مسجد‘ کینجھر اور ہالیجی کی جھیلوں اور قلفی ور بڑی کے حوالے سے مشہور ٹھٹھہ کی اصل شناخت اولیائے کرام ہی ہیں۔ یہاں حضرت جمیل شاہ داتارؒ ‘ سعدی موسانیؒ‘ حضرت عبداللہ مسنؒ‘ شاہ عنایت جھوک والےؒ‘ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھویؒ‘ اسماعیل بخاریؒ‘ حضرت مغل بھینؒ‘ شیخ ابوترابؒ‘ پیر پتھوؒ‘ شاہ مرادؒ‘ شیخ حمادؒ‘ پیر غلام جیلانیؒ‘ شاہ وجیہہؒ‘ پیر ابن شاہؒ‘ صوفی عبدالستارؒ‘ حاجی اللہ ڈنومیندھروؒ‘ مفتی طفیلؒ‘ مولانا عبدالباریؒ‘ مفتی عبداللطیف ٹھٹھویؒ‘ حضرت شیخ ابڑوؒ کے مزارات موجود ہیں۔ مکلی واقعی شہر خموشاں ہے مگر اس کی تاریخ بولتی ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ٹھٹھہ ہی وہ شہر ہے جسے سکندر اعظم نے ’’پٹالو‘‘ کہہ کر پکارا تھا۔ اس قبرستان کو یونیسکو و دیگر اداروں نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ یہاں ہزاروں سیاح آتے ہیں اور حکومت کو لاکھوں روپے کا ٹیکس ملتا ہے لیکن ترخان‘ ارغون‘ مغل اور سمہ و کلہوڑہ دور کے آثار رفتہ رفتہ مٹتے جا رہے ہیں۔ خود حضرت عبداللہ شاہ اصحابیؒ کی درگاہ محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود توجہ کی طلبگار ہے۔ یہاں آنے والے زائرین کے نذرانے‘ عطیات اور شکرانے کی رقوم لاکھوں میں ہوتی ہے۔ پھولوں اور پاپوش کے ٹھیکے نیلام ہوتے ہیں لیکن حاصل شدہ رقم میں سے بیشتر افسروں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
حضرت عبداللہ شاہ اصحابیؒ کی تاریخ ولادت مختلف تذکروں میں 928ھ بمطابق 1521ء بیان کی جاتی ہے‘ آپ بغداد سے براستہ گجرات ٹھٹھہ پہنچے۔ اس سفر میں شاہ کمالؒ اور شاہ مبین شیرازیؒ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سندھ میں ان دنوں ارغونوں کی حکمرانی تھی۔ ٹھٹھہ والوں نے آپ سے محبت کا عملی اظہار کیا اور آپ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ آپ کی سچی‘ سیدھی اور باعمل زندگی کو دیکھ کر سینکڑوں لوگ مسلمان ہوئے اور جو مسلمان تھے وہ راہ استقامت پر گامزن ہوئے۔ ایک روایت ہے کہ ٹھٹھہ کے میمنوں نے آپ ہی کے دستِ حق پر دین حق کو قبول کیا تھا۔ آپ کی شادی ٹھٹھہ ہی کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی جن سے دو صاحبزادگان تولد ہوئے۔ تاریخ ٹھٹھہ میں مصنف رسول بخش تمیمی نے تحریرکیا ہے کہ ان میں سے ایک سید حسنؒ نے پشاور میں وفات پائی جہاں سید حسن جیلانیؒ کے نام سے ان کی درگاہ ہے۔ دوسرے صاحبزادے کا نام اسی کتاب میں سید محمد فاضل شاہؒ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ شاہ اصحابیؒ کا وصال ایک روایت کے مطابق 1060ھ میں ہوا اور اپنی قیامگاہ یا رہائشگاہ ہی میں مدفون ہوئے جبکہ بعض مورخین نے اس تاریخ سے اختلاف بھی کیا ہے۔ درگاہ سے ملحقہ قدیمی مسجد پر لگے کتبے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1093ھ بمطابق 1692ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ سال بھر لاکھوں افراد ان کے مزار پر بالخصوص ہر قمری ماہ کی پہلی جمعرات کو جسے نو چندی کہا جاتا ہے حاضری دیتے ہیں اور من کی مرادیں پاتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ آپ شہزادہ غوث پاکؒ ہیں۔