سیاست اور شاعری کے درمیان ایک بات
رانا آفتاب ایک بڑے آدمی ہیں۔ پرانے زمانے کے لوگوں جیسے دیہاتی پن کا بانکپن ان کی شخصیت میں مچلتا ہے۔ وہ ایک خالص پنجابی کی طرح بولتے ہیں اور پاکستان سے بھی غیر مشروط محبت کرنے میں بھی دبنگ آدمی ہیں۔
پیپلز پارٹی میں ان کی عمر گزری ہے۔ کئی بار رکن اسمبلی رہے۔ وزیراعلیٰ بھی رہے۔ مگر ان کے معاملات، معمولات، مشاغل، مصروفیات ایک خوددار اور غیور سیاستدان کی طرح رہے۔
اس کی ایک گواہی یہ کہ عظیم لیڈر بے نظیر بھٹو ایک دفعہ خود ان کے گھر تشریف لے گئیں۔ رانا صاحب کی والدہ سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ بی بی نے ہمیشہ رانا آفتاب احمد خان کی بہت عزت کی۔
اب نہ وہ وزیر ہیں اور نہ رکن اسمبلی ہیں مگر لگتے ویسے کے ویسے ہیں۔ جب وہ وزیر تھے رکن اسمبلی تھے تو بھی ایسے ہی تھے۔ ان سے گفتگو کر کے بھی آدمی بیدار اور بہادر ہو جاتا ہے۔ ان کا قبیلہ رانا صاحب کا قبیلہ ہے۔ وہاں ہر شخص قبیلے کا سربراہ رانا آفتاب ہے۔
انہوں نے پچھلے دنوں پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور یہ میرے لیے ایک انوکھا واقعہ تھا۔ ایک اور دانشور اور دلیر سیاستدان ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی پیپلز پارٹی چھوڑ دی۔ ان دونوں بہادر سچے بے غرض اور جینوئن لیڈروں نے پہلے پیپلز پارٹی سے استعفیٰ دیا۔ ہمارے ہاں جس طرح کے سیاستدان ہیں۔ وہ ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ جس طرح عظیم بھٹو کے ساتھ ملنے والے الیکشن کے وقت بھی ”لوٹے“ نہیں کہلاتے تھے تو عمران کا ساتھ دینے والے کو ”لوٹا“ نہیں کہا جاتا۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور رانا آفتاب ان لوگوں میں سے ہیں جن کی سیاسی حیثیت محترم اور مسلم ہے کہ ان کی عزت اور مقام کہیں بھی محفوظ اور محترم ہے۔
لگتا ہے کہ رانا آفتاب اور ڈاکٹر بابر اعوان کسی اچھے سفر سے لوٹ کر آئے ہیں۔ اس لیے انہیں منزل پر پہنچنے والے مسافر کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ویسے دوسرے لوگوں کو ”لوٹا“ کہا جاتا ہے۔ نجانے وہ لوٹ کر آئے ہوتے ہیں یا پیچھے مڑ کر آتے ہیں۔
ان کے فیصلے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یہ ان کے بہت بڑے اعتراف میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ رانا آفتاب اور ڈاکٹر بابر اعوان دونوں پہلے پیپلز پارٹی میں تھے تو پارٹی کی طاقت تھے۔ اب وہ تحریک انصاف میں آئے ہیں تو یہاں بھی انصاف کی سیاسی فضا میں انصاف کی خوشبو پھیل جائے گی۔
اب فیصل آباد سے ایک ہی نام فضاﺅں میں گونجتا ہے اور وہ رانا ثنااللہ خان کا ہے۔ مگر جتنے لوگ انہیں پسند کرتے ہیں اتنے ہی لوگ انہیں ناپسند کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک آدمی کی شخصیت میں جتنی خوبیاں ہوتی ہیں اتنی ہی خامیاں ہوتی ہیں۔ ان میں توازن قائم رکھنا ہی اصل کام ہے۔ اس حوالے سے دو زندہ و بیدار آدمیوں کے نام ڈاکٹر بابر اعوان اور رانا آفتاب ہیں۔
میں نے دونوں کو زبردست آدمی پایا ہے۔ میں ان کے لیے الگ الگ لکھتا تو بھی یہی لکھتا مگر دونوں اپنی اپنی شخصیت میں کچھ مختلف اور بہت ممتاز ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان زیادہ ایکٹو ہیں مگر رانا آفتاب بھی بہت سرگرم ہیں۔ خبروں کے معاملے میں بھی دونوں ایک جیسے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان خبر دیتے ہیں اور رانا صاحب خبر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اداروں کی طرح ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان اور رانا آفتاب ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔
شاعرہ ادیبہ دانشور اور پروفیسر ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی ایک تحریر نے مجھے چونکا دیا۔ مضمون کا عنوان ”اداروں کو مضبوط بنائیں“ ادارے ہوں گے تو کچھ نہ کچھ کرنے کے ارادے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوں گے۔ ہر شخص کا ایک ادارہ ہے۔ اگر عمرانہ کا یہ مضمون اچھی طرح پڑھا جائے تو کوئی نہ کوئی تعمیری خیال پڑھنے والے کے دل میں پیدا ہو گا۔
انگلستان سے پاکستان آئی ہوئی معروف شاعرہ ادیبہ اور سماجی کارکن ممتاز خاتون صبا نصرت اپنی عزیزہ غزل کے ساتھ میرے پاس تشریف لائیں۔ وہ جب بھی پاکستان آتی ہیں میرے پاس ضرور آتی ہیں۔ وہ انگلستان میں ایک اچھی زندگی گزار رہی ہیں۔ ملازمت کرتی ہیں۔ سوشل امور میں دلچسپی لیتی ہیں۔ ادبی محافل میں شرکت کرتی ہیں۔ پڑھاتی بھی ہیں۔ پاکستان بھی ہر سال اپنی والدہ سے ملنے تشریف لاتی ہیں۔ شاعری اپنے ذوق و شوق کے لیے کرتی ہیں اور یہ مشغلہ آج کل ہمارے ہاں ایک نعمت سے کم نہیں۔ ورنہ کئی خواتین ایک غزل ہاتھ میں لے کے پورے پاکستان بلکہ پورے جہان میں پھرتی ہیں۔ جو بھی کام بے غرضی سے کیا جائے اس میں برکت پڑ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ان کی عزیزہ غزل بھی تھیں۔ اس کی موجودگی نے کمرے میں آسودگی پھیلا دی۔ وہ بہت آسودہ خیال اور پاک نگاہ بچی تھی۔
انگلستان سے عورتیں آتی ہیں اور جو شاعرہ نہیں ہوتیں وہ بھی شاعرہ بن جاتی ہیں مگر صبا نصرت شاعرہ کے طور پر معروف ہونے سے بچی رہتی ہیں جبکہ وہ بہت اچھی شاعرہ ہیں۔ انہوں نے مجھے بھی کبھی اپنے اشعار نہیں سنائے۔ اپنے قارئین کے لیے ایک شعر میں نے ان سے لکھوا لیا ہے۔
کی ارض و سماوات کی حد سے پرے ہجرت
اب لاکھ فلک ٹوٹے تو مجھ پر نہیں گرتا
٭٭٭٭٭