امریکی ایجنڈے پر پاکستان کو نئے جال میں پھنسایا جا رہا ہے‘ حکمران آنکھیں کھلی رکھیں : علی گیلانی
لاہور (رپورٹ سلمان غنی) پاکستان نے کشمیری قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بھارت سے مذاکراتی عمل میں مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کیلئے حق خودارادیت سے پہلوتہی نہیں برتیں گے اور مسئلہ کشمیر کو کور ایشو سمجھتے ہوئے ہر سطح پر اس کیلئے آواز اٹھائی جائیگی جبکہ کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ طاقت کے نشے میں چُور بھارت مذاکراتی عمل امریکی دباﺅ پر کررہا ہے اور اگر امریکہ مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے تو وہ کھل کر سامنے آئے اور مذاکراتی عمل کو حق خودارادیت سے مشروط کرنے کیلئے تیار ہو تو یہ معاملہ آگے چل سکتا ہے اور اگر اسکے اپنے عزائم اور مفادات ہیں تو یہ مذاکراتی عمل استحکام کی بجائے مزید انتشار اور کشمکش کا باعث بنیں گے۔ سید علی گیلانی نے نوائے وقت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل کیلئے آنیوالے سیکرٹری خارجہ نے ان سے ملاقات کی اور مذاکراتی عمل کے مقاصد کشمیر پر پاکستان کے سٹینڈ اور حکمت عملی کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے باور کرایا کہ کشمیر اور دریائی پانی پر اپنے مفادات اور موقف سے انحراف نہیں کرینگے جس پر میں نے انہیں بتایا کہ بھارت سے آپ کو توقعات ہوںگی۔ بہرحال ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ طاقت کے نشے میں چُور اپنی علاقائی بالادستی کا خواہاں ہے اور اس مقصد کیلئے امریکی سگنل پر اس نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دی اور مذاکرات کی دعوت کے بعد پاکستان کو دہشت گرد اور ناکام ریاست قرار دینے کیلئے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ بھارت کا بھیانک چہرہ اور اسکے مذموم مقاصد اور عزائم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل میں پاکستان کا سٹینڈ کیا ہے‘ یہ ڈھکا چھپا نہیں رہے گا۔ ہم نے بھی پاکستان کے ذمہ داران کو کہا ہے کہ کشمیر پر جراتمندانہ طرزعمل اختیار کریں۔ یہ ہماری لئے زندگی موت کا مسئلہ نہیں بلکہ خود یہ تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا مسئلہ ہے۔ یہ محض سرحدی تنازع یا زمین کا جھگڑا ہوتا تو طے پا چکا ہوتا لیکن یہ مسئلہ سوا کروڑ کشمیری مسلمانوں کے مستقبل کا سوال ہے اور اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزادانہ مرضی سے ان کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہئے تب ہی بھارت سے دوستی کے حقوق اور باہمی تعلقات استوار کرنے کے امکانات ہوں گے۔ علی گیلانی نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر پر اختیار کی جانیوالی پسپائی نے نہ صرف پاکستان کی جگ ہنسائی کی بلکہ مسئلہ کی اہمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور موجودہ حکومت بھی وہی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان نے کشمیر پر لچک دکھائی اور بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو یہ نظریہ پاکستان کی نفی ہوگی۔ انہوں نے گزشتہ روز سرینگر کی ایک یونیورسٹی میں ہونیوالے ایک مذاکرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب 33 طلبہ و طالبات سے پوچھا گیا کہ آپ میں سے کتنے لوگ پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں؟ تو صرف 3 طلبہ نے ہاتھ کھڑے لیکن جب یہ پوچھا گیا کہ ہندوستان کے ساتھ کون رہنا چاہتا ہے تو کسی نے بھی ہاتھ کھڑا نہیں کیا‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے حق میں 30 طلبہ کی رائے نہ آنا خود پاکستان کے ذمہ داران کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے مذاکراتی عمل کی کامیابی کے حوالہ سے کہا کہ کسی بیرونی دباﺅ پر مذاکراتی عمل کو کامیاب نہیں ہوگا جب تک تنازع کے حل کی تحریک ان میں موجود نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ جس بھارت کے سر پر علاقائی بالادستی کا بھوت سوار ہو اور پاکستان سمیت چھوٹے ممالک کو اپنا باجگزار بنانا چاہتا ہو‘ اس سے پاکستانی حکومت کو تو خیر کی توقع ہوسکتی ہے ہمیں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوستی کے خالی نعرے اعتماد بنانیوالے حربے علاقائی حقائق کو نہ تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ خطرات کے مقابلے کی کوئی سبیل پیدا کرسکتے ہیں لہٰذا پاکستان کو چاہئے کہ اپنی خارجہ پالیسی کو مسئلہ کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر اپنے مفادات سے مشروط کرے اور مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور منصفانہ حل ہی خطہ کی صورتحال میں پاکستان اور پاکستان کے مفادات کی تکمیل کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ایجنڈا کے تحت پاکستان کو کسی نئے جال میں پھنسانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستانی قیادت کی آنکھیں کھلی رہیں۔
سید علی گیلانی
سید علی گیلانی