خالد احمد
جدہ سے خبر آئی ہے کہ سعودی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میںدو شدت پسندوں میں سے ایک ہلاک کر دیا اور ایک زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا، یقینا سعودی سکیورٹی حکام دونوں کو زندہ پکڑنا چاہتے ہوں گے مگر اب ایک ہی سے وہ بھی معلوم کر لیں گے جو ہماری دانست میں دوسرا اپنی جان کے ساتھ لے گیا ہو گا! کیونکہ دنیا بھر میں یہی کچھ ہوتا ہے، ایک سرا ہاتھ آتے ہی پوری ”گتھی“ کھول کے رکھ دی جاتی ہے! یہ کام تو صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کے دو وزیراعظم اور ایک صدر، ہلاک کر دئیے جاتے ہیں مگر ”قاتل“ گرفتار نہیں ہو پاتے! ہمارے ملک کے سیاسی رہنما اور سیاسی کارکن قتل کر دئیے جاتے ہیں مگر کوئی ”سرا“ کسی بھی قتل کی گتھی نہیں سلجھا پاتا! کیونکہ ہم دفتری اوقات میں بھی سر کھپانے کی مشقت کے عادی نہیں، دفتر پہنچتے ہی ہماری نگاہ ”کلاک“ پر جم جاتی ہے اور ”کلاک“ کی سوئیاں شرما کر اِدھر اُدھر ہو جاتی ہیں اور ”چھٹی“ ہوتے ہی سب سے پہلے ”دفتر کا سربراہ“ گھر پہنچ جاتا ہے!
روزنامہ نیشن کی محترمہ فرزانہ شاہد کی پشاور سے ارسال کردہ رپورٹ کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ روابط کے الزام میں 170 ایف سی اہلکار برطرف کر دئیے گئے ہیں جبکہ 70 ریٹائرڈ اہلکاروں کی پنشن ضبط کر لی گئی ہے! یہ احکامات صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں!
بات شہری پولیس کی ہو یا بارڈر پولیس کی، بات ”انسدادِ رشوت ستانی“ کی ہو یا ”انسدادِ منشیات رسانی“ کی ہو، ہر محکمے میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے ”مطلوبہ افراد“ سے رابطے ہر حال میں بحال رہتے ہیں اور یہ ”رابطے“ کام میں بھی لائے جاتے رہتے ہیں تاکہ ”معاملات“ طے شدہ ”ڈگر“ پر رواں دواں رہیں! کبھی کبھی کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری بھی یہی ”مطلوبہ افراد کا گروہ“ مہیا کر دیتا ہے اور اپنے کسی ”منحرف کارکن“ ان اداروں کے ہتھے چڑھا دیتا ہے جسے عموماً فرار کی ”کوشش“ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے!
یہ سب کچھ بہت دنوں سے ہو رہا ہے کیونکہ دونوں فریق ”نظریہ¿ ضرورت“ کے تحت باہمی اتفاق پر ”جیو اور جینے دو“ کے اُصول پر صرف ”جیو“ اور ”جیتے رہو“ کے کام سے لگے ”جیو“ دیکھتے رہتے ہیں!
جہاں ”انصاف“ ہوتا ہے، وہاں ”نظریہ¿ ضرورت“ ختم ہو جاتا ہے! پاکستانی معاشرہ اِن دنوں ”ماہیت قلبی“ کے دور سے گزر رہا ہے! ”انصاف“ کی کوشش ہوتے دکھائی دے رہی ہے اور ”نظریہ¿ قناعت“ پروان چڑھتا دکھائی دے رہا ہے! شاید ہمارے بڑے بھی پا¶ں پھیلانے سے پہلے دستیاب چادر کی اوڑ چھوڑ دیکھ لینے کی عادت اپنانے پر راضی ہو جائیں! کیونکہ روزانہ ”پچاس کروڑ“ جیب میں ڈال لینے کی ”عادت“ اور پاکستان کی ”محبت“ ایک ساتھ چلنے کی نہیں! اگر پاکستان سے ہماری ”محبت کا دعویٰ“ سچا ہے تو ہمیں اپنی ”تجوری کی صحت“ کی نسبت ”پاکستانی خزانے کی صحت“ کی زیادہ فکر کرنا ہو گی!
اگر ہم پاکستانی عوام کے نام پر ذاتی مفادات کے نام پر بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں، دغابازیوں، اقربا نوازیوں، سخن سازیوں اور نوسربازیوں کے خلاف ہیں اور کچھ لوگ ہم سے متفق ہیں تو ہمارے اس طرزِفکر اور طرزِعمل کو کسی نہ کسی نام سے پکارنے لگیں گے! اس میں ”طنز“ کا پہلو بھی کارفرما ہو سکتا ہے! مثلاً ہم نے ”قراردادِ لاہور“ منظور کی تو یاروں نے اسے ”قراردادِ پاکستان“ کا نام دے دیا! ہم اسے ”قراردادِ لاہور“ کہتے رہے، کینٹ پلان منظور کیا اور بالآخر شق 19 (سی) کی توضیح پر اختلاف کیلئے ”پریوی کونسل“ سے جیت کر لوٹے مگر ”یارانِ کہن“ کے روئیے میں کوئی تبدیلی نہ پا کر ہمیں اعلان کرنا پڑا۔ ”اب ہم پاکستان سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہونگے!“
پاکستان بننے کی دیر تھی کہ پاکستان مخالف مذہبی عناصر سر پر صندوق اُٹھائے پاکستان کی طرف دوڑ پڑے! ”چلو! چلو! پاکستان چلو!“ تاکہ وہ یہاں اپنا اپنا اسلام نافذ کر سکیں!
ہر طرف ایک ”فطری انارکی“ تھی! ایسے میں ”دستانِ جمہوریت نشان“ نے ”تحریکِ کارکنانِ پاکستان“ کا علم بلند کر دیا! اور پاکستان کی تحریک میں شامل گمنام کارکنوں کی عزت افزائی کا سلسلہ انہیں گولڈ میڈل دے کر شروع کیا تو اسے کچھ ”مذہبی عناصر“ تحریکِ پاکستان کی رُوح کا احیا سمجھے اور اسے اپنے لئے ”خطرے کی گھنٹی“ سمجھ کر اس پر طرح طرح کے نام تھوپنے لگے! مگر مردِ مجید کا عزم صمیم ٹس سے مَس نہ ہوا! کام جاری رہا حتیٰ کہ تحریکِ کارکنانِ پاکستان پر ”محافظین نظریہ¿ پاکستان“ کی پھبتی کسی گئی کیونکہ وہ ”اسلامی مملکت“ میں ”فلاحی مملکت“ کے تصور سے نابلد تھے! سو یہ ”تحریکِ کارکنانِ پاکستان“ کے محافظ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے قیام کا سبب بن گئی! ”پاکستان“ کی طرح ”نظریہ¿ پاکستان“ بھی ہمارے ”یارانِ کہن“ کی دین ہے! کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ جس شخصیت پر ”طعنہ زن“ ہیں وہ ”نشانِ عزمِ عالیشان“ جناب مجیدنظامی ہیں جن کی اسراعی قوتوں اور انتظامی صلاحیتوں سے وہ سرے سے واقف نہیں تھے! آج ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ اور ”تحریکِ کارکنانِ پاکستان ٹرسٹ“ دو ٹھوس وجود ہیں اور پاکستان کے قیام کے تمام تر مقاصد کی ترجمانی اور محافظت کے لئے صف آرا ”اداروں“ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں!
پاکستان ایک ”اسلامی فلاحی جمہوری مملکت“ کے طور پر صفحہ¿ ارض کے طور پر اُبھرا اور آج خدا کے فضل و کرم سے جوہری جمہوری مملکت سے آگے کی منازل طے کر رہا ہے! قائداعظمؒ کا پاکستان مغرب اور مشرق دونوں مقامات پر سربلند اور سرفراز ہے۔ بنگلہ دیش خطے کی ایک اقتصادی قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے اور پاکستان خطے کی دفاعی قوت کے طور پر اپنی اہمیت منوا رہا ہے!
”تحریکِ تکمیلِ پاکستان“ جاری و ساری ہے! آنے والا دور دیکھے گا اور کہے گا کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا لہجہ کبھی مدھم نہیں پڑا اور قوم کے لئے ہر روز ”منزلِ مراد“ کی نشاندہی کرتا رہا، بلاشبہ قائداعظمؒ کے 135ویں یومِ پیدائش پر ہی باتیں سوجھ سکتی تھیں اور ”یارانِ کہن“ کی زبان درازی بھی اسی یومِ سعید کے استقبالیہ کے نعرے کے طور پر سامنے آ سکتی تھی! ایک اسلامی فلاحی جوہری اور جمہوری پاکستان کے تمام صحافی اپنے موجودہ رہنما کو سلام پیش کرتے ہیں! بہت عاجزانہ سلام!
جدہ سے خبر آئی ہے کہ سعودی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میںدو شدت پسندوں میں سے ایک ہلاک کر دیا اور ایک زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا، یقینا سعودی سکیورٹی حکام دونوں کو زندہ پکڑنا چاہتے ہوں گے مگر اب ایک ہی سے وہ بھی معلوم کر لیں گے جو ہماری دانست میں دوسرا اپنی جان کے ساتھ لے گیا ہو گا! کیونکہ دنیا بھر میں یہی کچھ ہوتا ہے، ایک سرا ہاتھ آتے ہی پوری ”گتھی“ کھول کے رکھ دی جاتی ہے! یہ کام تو صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کے دو وزیراعظم اور ایک صدر، ہلاک کر دئیے جاتے ہیں مگر ”قاتل“ گرفتار نہیں ہو پاتے! ہمارے ملک کے سیاسی رہنما اور سیاسی کارکن قتل کر دئیے جاتے ہیں مگر کوئی ”سرا“ کسی بھی قتل کی گتھی نہیں سلجھا پاتا! کیونکہ ہم دفتری اوقات میں بھی سر کھپانے کی مشقت کے عادی نہیں، دفتر پہنچتے ہی ہماری نگاہ ”کلاک“ پر جم جاتی ہے اور ”کلاک“ کی سوئیاں شرما کر اِدھر اُدھر ہو جاتی ہیں اور ”چھٹی“ ہوتے ہی سب سے پہلے ”دفتر کا سربراہ“ گھر پہنچ جاتا ہے!
روزنامہ نیشن کی محترمہ فرزانہ شاہد کی پشاور سے ارسال کردہ رپورٹ کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ روابط کے الزام میں 170 ایف سی اہلکار برطرف کر دئیے گئے ہیں جبکہ 70 ریٹائرڈ اہلکاروں کی پنشن ضبط کر لی گئی ہے! یہ احکامات صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں!
بات شہری پولیس کی ہو یا بارڈر پولیس کی، بات ”انسدادِ رشوت ستانی“ کی ہو یا ”انسدادِ منشیات رسانی“ کی ہو، ہر محکمے میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے ”مطلوبہ افراد“ سے رابطے ہر حال میں بحال رہتے ہیں اور یہ ”رابطے“ کام میں بھی لائے جاتے رہتے ہیں تاکہ ”معاملات“ طے شدہ ”ڈگر“ پر رواں دواں رہیں! کبھی کبھی کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری بھی یہی ”مطلوبہ افراد کا گروہ“ مہیا کر دیتا ہے اور اپنے کسی ”منحرف کارکن“ ان اداروں کے ہتھے چڑھا دیتا ہے جسے عموماً فرار کی ”کوشش“ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے!
یہ سب کچھ بہت دنوں سے ہو رہا ہے کیونکہ دونوں فریق ”نظریہ¿ ضرورت“ کے تحت باہمی اتفاق پر ”جیو اور جینے دو“ کے اُصول پر صرف ”جیو“ اور ”جیتے رہو“ کے کام سے لگے ”جیو“ دیکھتے رہتے ہیں!
جہاں ”انصاف“ ہوتا ہے، وہاں ”نظریہ¿ ضرورت“ ختم ہو جاتا ہے! پاکستانی معاشرہ اِن دنوں ”ماہیت قلبی“ کے دور سے گزر رہا ہے! ”انصاف“ کی کوشش ہوتے دکھائی دے رہی ہے اور ”نظریہ¿ قناعت“ پروان چڑھتا دکھائی دے رہا ہے! شاید ہمارے بڑے بھی پا¶ں پھیلانے سے پہلے دستیاب چادر کی اوڑ چھوڑ دیکھ لینے کی عادت اپنانے پر راضی ہو جائیں! کیونکہ روزانہ ”پچاس کروڑ“ جیب میں ڈال لینے کی ”عادت“ اور پاکستان کی ”محبت“ ایک ساتھ چلنے کی نہیں! اگر پاکستان سے ہماری ”محبت کا دعویٰ“ سچا ہے تو ہمیں اپنی ”تجوری کی صحت“ کی نسبت ”پاکستانی خزانے کی صحت“ کی زیادہ فکر کرنا ہو گی!
اگر ہم پاکستانی عوام کے نام پر ذاتی مفادات کے نام پر بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں، دغابازیوں، اقربا نوازیوں، سخن سازیوں اور نوسربازیوں کے خلاف ہیں اور کچھ لوگ ہم سے متفق ہیں تو ہمارے اس طرزِفکر اور طرزِعمل کو کسی نہ کسی نام سے پکارنے لگیں گے! اس میں ”طنز“ کا پہلو بھی کارفرما ہو سکتا ہے! مثلاً ہم نے ”قراردادِ لاہور“ منظور کی تو یاروں نے اسے ”قراردادِ پاکستان“ کا نام دے دیا! ہم اسے ”قراردادِ لاہور“ کہتے رہے، کینٹ پلان منظور کیا اور بالآخر شق 19 (سی) کی توضیح پر اختلاف کیلئے ”پریوی کونسل“ سے جیت کر لوٹے مگر ”یارانِ کہن“ کے روئیے میں کوئی تبدیلی نہ پا کر ہمیں اعلان کرنا پڑا۔ ”اب ہم پاکستان سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہونگے!“
پاکستان بننے کی دیر تھی کہ پاکستان مخالف مذہبی عناصر سر پر صندوق اُٹھائے پاکستان کی طرف دوڑ پڑے! ”چلو! چلو! پاکستان چلو!“ تاکہ وہ یہاں اپنا اپنا اسلام نافذ کر سکیں!
ہر طرف ایک ”فطری انارکی“ تھی! ایسے میں ”دستانِ جمہوریت نشان“ نے ”تحریکِ کارکنانِ پاکستان“ کا علم بلند کر دیا! اور پاکستان کی تحریک میں شامل گمنام کارکنوں کی عزت افزائی کا سلسلہ انہیں گولڈ میڈل دے کر شروع کیا تو اسے کچھ ”مذہبی عناصر“ تحریکِ پاکستان کی رُوح کا احیا سمجھے اور اسے اپنے لئے ”خطرے کی گھنٹی“ سمجھ کر اس پر طرح طرح کے نام تھوپنے لگے! مگر مردِ مجید کا عزم صمیم ٹس سے مَس نہ ہوا! کام جاری رہا حتیٰ کہ تحریکِ کارکنانِ پاکستان پر ”محافظین نظریہ¿ پاکستان“ کی پھبتی کسی گئی کیونکہ وہ ”اسلامی مملکت“ میں ”فلاحی مملکت“ کے تصور سے نابلد تھے! سو یہ ”تحریکِ کارکنانِ پاکستان“ کے محافظ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے قیام کا سبب بن گئی! ”پاکستان“ کی طرح ”نظریہ¿ پاکستان“ بھی ہمارے ”یارانِ کہن“ کی دین ہے! کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ جس شخصیت پر ”طعنہ زن“ ہیں وہ ”نشانِ عزمِ عالیشان“ جناب مجیدنظامی ہیں جن کی اسراعی قوتوں اور انتظامی صلاحیتوں سے وہ سرے سے واقف نہیں تھے! آج ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ اور ”تحریکِ کارکنانِ پاکستان ٹرسٹ“ دو ٹھوس وجود ہیں اور پاکستان کے قیام کے تمام تر مقاصد کی ترجمانی اور محافظت کے لئے صف آرا ”اداروں“ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں!
پاکستان ایک ”اسلامی فلاحی جمہوری مملکت“ کے طور پر صفحہ¿ ارض کے طور پر اُبھرا اور آج خدا کے فضل و کرم سے جوہری جمہوری مملکت سے آگے کی منازل طے کر رہا ہے! قائداعظمؒ کا پاکستان مغرب اور مشرق دونوں مقامات پر سربلند اور سرفراز ہے۔ بنگلہ دیش خطے کی ایک اقتصادی قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے اور پاکستان خطے کی دفاعی قوت کے طور پر اپنی اہمیت منوا رہا ہے!
”تحریکِ تکمیلِ پاکستان“ جاری و ساری ہے! آنے والا دور دیکھے گا اور کہے گا کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا لہجہ کبھی مدھم نہیں پڑا اور قوم کے لئے ہر روز ”منزلِ مراد“ کی نشاندہی کرتا رہا، بلاشبہ قائداعظمؒ کے 135ویں یومِ پیدائش پر ہی باتیں سوجھ سکتی تھیں اور ”یارانِ کہن“ کی زبان درازی بھی اسی یومِ سعید کے استقبالیہ کے نعرے کے طور پر سامنے آ سکتی تھی! ایک اسلامی فلاحی جوہری اور جمہوری پاکستان کے تمام صحافی اپنے موجودہ رہنما کو سلام پیش کرتے ہیں! بہت عاجزانہ سلام!