آج قائداعظم کا یوم پیدائش ہے اور پاکستان کے اس خالق کے ساتھ ہماری محبت اور عقیدت اب بس اتنی ہی رہ گئی ہے کہ ہم ان کے یوم پیدائش یا یوم وفات پر کچھ تقریبات کچھ سیمینارز کچھ مذاکروں‘ مباحثوں کا اہتمام کرکے دنیا کو تاثر دیں کہ ہم اپنے ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے ابھی مجید نظامی اور ان جیسے کچھ اور اکابرین مارے درمیان موجود ہیں جو پاکستان اور خالق پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں اور اس محبت کو عام کرنے کیلئے سرعام جتن بھی کرتے رہتے ہیں ورنہ ہم تو خوفزدہ ہیں اس وقت سے جب اپنے اپنے پاپی پیٹوں کی فکر میں مبتلا حکمرانوں اور ان جیسی ”قوم“ کے پاس خالق پاکستان کو یاد کرنے کےلئے وقت ہی نہ بچے کس قدر المیہ ہے ”قائد عوام“ وغیرہ کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری سطح پر شاندار تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر قائداعظمؒ کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکار کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مرکزی حکمران تو خیر ویسے ہی ملک کو ”منڈی“ بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں پنجاب کے حکمرانوں یا خادموں کو بھی توفیق نہیں ہوتی اپنے ملک اور جماعت کے خالق کے یوم پیدائش کو سرکاری سطح پر دھوم دھام اور جوش و خروش سے منانے کا کچھ اہتمام کر لیں.... اور ویلنٹائن ڈے کو قومی ڈے کے طور پر منانے والے عوام کی حالت بھی حکمرانوں سے مختلف نہیں کہ کچھ عرصہ قبل لاہور کی ایک ماڈرن سوسائٹی یعنی ”ممی ڈیڈی کالونی“ کے ایک رہائشی نوجوان کو اس کی فیملی کے ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ قائداعظمؒ بہت بڑے لیڈر تھے۔ نوجوان نے حیرانی سے پوچھا شاہ رخ خان سے بھی بڑے لیڈر تھے؟؟؟ نوجوان کی بات سن کر ”بابا جی“ شرمندہ ہو گئے۔ اصل میں قصور نوجوانوں کا نہیں ان کے بڑوں کا ہے جن کے پاس اب اتنا وقت نہیں بچوں کو بتا سکیں کہ جس پاکستان میں وہ آج آزادی اور عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا قیام کوئی سہل نہیں تھا۔ کتنی قربانیاں کتنی جانیں دے کر اور کتنی عزتیں لٹا کر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اور وہ کون تھا برصغیر کے مسلمانوں پر جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا اور ایسا کارنامہ کردکھایا جسے دنیا ناممکن سمجھتی تھی اور آج ہماری بدقسمتی ہے جن سے ہم الگ ہوئے ان کا ایک دانشور ہم پر پھبتی کستا ہے کہ 1947ءمیں برصغیر کے مسلمان ایک قوم کی طرح تھے جنہیں ایک ملک کی ضرورت تھی پھر اسی قوم میں سے قائداعظم جیسا عظیم ترین لیڈر پیدا ہوا جس کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں ایک ملک بنا.... پاکستان۔ آج پاکستان ایک ملک ہے جسے ایک قوم کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارا کوئی دانشور ہندوستانیوں کے بارے میں ایسی ہی کوئی بات اتنے وثوق سے کہہ سکتا ہے؟؟؟ پاکستان 64 برس کا ہونے والا ہے۔ قائداعظم نے آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ برصغیر کے مسلمان اپنی سوچ و فکر اپنی تہذیب اپنی ثقافت اور مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ تخلیق کار ایسے معاشرے کے قیام کا خواہشمند تھا جس میں آئین قانون اور جمہوریت کی بالادستی ہو اسلام کا بول بالا ہو۔ زندگی ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر گزارنے کا جذبہ ہو جس کا اسلام درس بھی دیتا ہے۔ شاید اسی لئے اس کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ رکھا گیا تھا۔ تو کوئی بتائے آج ملک میں اسلام کہاں ہے اور جمہوریت کہاں ہے اور ”پورا پاکستان“ کہاں ہے؟؟؟ فوجی اور سیاسی آمریتوں نے اس ملک کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جمہوریت ایسے دب کر بلکہ دفن ہو کر رہ گئی کہ اب کسی کو یقین ہی نہیں کبھی دوبارہ زندہ ہو گی۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ چونسٹھ برسوں میں جنہوں نے آئین کو بار بار قتل ہوتے ہوئے دیکھا، وہ باہر سے آئے تھے؟ جن کی وجہ سے ملک ٹوٹا، جنہوں نے ملک لوٹا، وہ پاکستانی نہیں تھے؟ سرے محل، سٹیل ملز اور شوگر سکینڈلز کن کے ہیں؟ کیا ہمیں کبھی توفیق ہو گی اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور سوچیں یہاں محرم کو مجرم اور مجرم کو محرم بنانے والے کون تھے؟ بھیڑوں اور بھیڑیوں کو بار بار تخت پر کِس نے بٹھایا؟ کیا یہ سب غیر ملکی تھے؟ جی نہیں ہم خود تھے۔ قائداعظمؒ کے پاکستان کو جتنی میلی نظروں سے ہم نے دیکھا شاید ہی کسی اور نے دیکھا ہو گا۔ اِس کے باوجود ہم یہ ”نعرہ مستانہ“ فخر سے لگاتے ہیں کہ ”ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ ہمارے ملک کو میلی نظروں سے دیکھے“۔ (کیونکہ اِس کام کے لئے ہم خود ہی کافی ہیں)!
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024