وزیراعظم عمران خان نے جنوبی وزیرستان میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ ان کے اقتدار میں آنے کا مقصد کرپٹ لوگوں کو شکست اور ملک کو ترقی دینا ہے لہٰذا ملک لوٹنے والوں کو کوئی معافی اور این آر او نہیں ملے گا۔ بلاول ’’صاحبہ‘‘ کی طرح پرچی پر نہیں آیا، تمام کرپٹ لوگوں کا اکیلے ہی مقابلہ کروں گا۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے حکومتی معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ ایران میں دہشت گردی کے اعتراف پر عمران خان پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے۔
تحریک انصاف کے کڑے احتساب اور کرپشن کے خاتمے کے پروگرام سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کرپشن برداشت کرنے پر تیار ہیں نہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ وہ تو کابینہ میں سست روی اور غفلت تک برداشت نہیں کرتے۔ اپوزیشن وزیراعظم کے احتساب کے ایجنڈے سے نالاں ہے جو حکومت اور اپوزیشن کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود ریاستی امور کی انجام دہی میں ہر پارلیمنٹرین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے مگر اپوزیشن حکومت کو ہر صورت ٹف ٹائم دینے پر مصر ہے۔ احتساب کے ایجنڈے پر قائم رہتے ہوئے بھی حکومت کو حتی الوسع اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر وزیر اعظم کے بلاول کو صاحبہ کہنے پر اپوزیشن مشتعل ہے۔اس پر بلاول نے اپنے ردعمل میں کہا کہ سلیکٹ وزیراعظم ایک بڑے آفس میں چھوٹے آدمی ہیں، مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو سے متعلق وزیراعظم کا بیان نفرت انگیز اور معیوب ہے۔ شہباز شریف نے اس پر کہا کہ وزیر اعظم کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ وزیر اعظم سے قائد انہ کردار کی توقع ہوتی ہے۔ ان کو ایسی زبان کے استعمال سے بہرصورت گریز کرنا چاہئے۔ اپوزیشن بھی نان ایشو کو ایشو بناکراس بیان کو ضرورت سے زیادہ اچھال رہی ہے۔ سیاسی مفاہمت کے حوالے حکومت کو زیادہ حوصلہ و تحمل دکھانا ہوتا ہے جس کا آج فقدان نظر آتا ہے۔ دوسری طرف سیاسی اختلاف کو دشمنی کی حد تک لے جانے میں اپوزیشن زیادہ ہی سرگرداں نظر آتی ہے۔ خورشیدشاہ کا آرٹیکل چھ کے اطلاق کا مطالبہ سیاسی مفاہمت کے امکانات کو معدوم کرنے کے مترادف ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024