دونوں کا نعرہ ، ’مجھے کیوں نکالا؟‘
رائٹ آنریبل، دونوں شکایت کنندگان کی شکایت کی وضاحت الگ الگ ہونی چاہئے تاکہ فرق معلوم ہو سکے۔ پہلے شکایت کنندہ کی شکایت یہ ہے کہ جب وہ اپنے لنگوٹیے یاروں کے ساتھ کسی گھر میں نقب لگا رہا تھا اور گھر والوں کی آنکھ کھل جانے کی وجہ سے ذرا شور شرابا ہو رہا تھا تو یہ دوسرا شکایت کنندہ گھر والوں کی مدد کیلئے کیوں آ دھمکا ۔ اب دوسرا شکایت کنندہ کہتا ہے میں مدینہ والے کا پیرو کار ہوں جو کہتا ہے مظلوم کی مدد کرو میں اُس کی بات نہ ماننے کی گستاخی اور بے ادبی کیسے کر سکتا ہوں بلکہ اگر مجھے موقع مل گیا تو میں مدینے والے کی تمام باتیں گھر گھر پہنچائوں گا۔ اب یہ دونوں شکایت کنندگان اس طرح آپس میںگتھم گتھا ہیں کہ دوسرا شکایت کنندہ کہتا ہے اگر میں ان سے اس لڑائی میں اس کے لنگوٹیوں کی لنگوٹیاں ہی اُتارنے میں کامیاب ہو گیا تو میری مشقت کا کچھ صِلہ تو ہو گا۔ ’’جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘۔ اب المیہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے سجائے گئے اس نوٹنگی ناٹک میں تماشبین اس طرح سڑکوں اور بازاروں میں آ گئے ہیں کہ سارا کاروبار حیات رُک گیا ہے۔ قانون کی کتابوں کے صفحات کئی پتنگوں کی طرح ہوائوں میں اُڑ رہے ہیں اتنی تباہی اور بیکاری تو کرونا نے بھی نہیں مچائی تھی جتنی تباہی یہ زندہ انسان لا رہے ہیں۔ ظلم زدہ اور فاقہ زدہ تماشبین تماشا دیکھنے کے شوق میں موسم کی سختی میں بھی جمے کھڑے ہیں۔ میں آجکل اپنی ایک خاندانی مجبوری کی وجہ سے اپنے ملک سے باہر ہوں یہاں جب بھی اپنے ملک کا ٹی وی کھولتی ہوں تو وہاں کے حالات کا گرد و غبار مجھے مٹی مٹی کر دیتا ہے ٹی وی کا بکس شعلے برساتے ایک سورج کی طرح میرے سامنے سوا نیزے پر آ جاتا ہے کبھی آنسوئوں سے اپنے چہرے کو اس تپش سے ٹھنڈا کرتی ہوں اور کبھی آنکھیں کبوتر کی طرح بند کر لیتی ہوں کہ بلی مجھ پر نہیں جھپٹے گی۔ صبح ہی صبح سارے اینکرز تیل سُرمہ کر کے اور سیاستدان اپنے اپنے سینوں پر اپنی اپنی پارٹی کا تمغہ سجا کر ٹی وی کے کارزار میں اُتر آتے ہیں سب کے پہلو میں زہر ہیں بجھے تیروں کے ترکش بندھے ہوتے ہیں اور پھر بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے اس نوراکُشتی کے بعد جب سارے جرنیل اپنے اپنے ٹھکانے پر واپس جاتے ہیں تو اینکرز گھر والوں سے داد وصول کرتے ہیں اور سیاستدان اپنے لیڈروں سے اشرفیوں کی تھیلیاں وصول کرتے ہیں کہ درباری ہونے کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔
آج میں اپنے قارئین کو سیاستدانوں کی کہانی اپنی زبانی سنائوں گی ۔ یہ سب جس قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں اُن کا علاج تو شاید حکیم لقمان کے پاس بھی نہ ہوتا حالانکہ وہ علاج معالجے میں حرفِ آخر تھے کہا جاتا ہے کہ جب وہ دوائی بنانے کے لیے جنگلوں میں جڑی بوٹیاں تلاش کرنے جاتے تھے تو بعض بوٹیاں خود بول کر اُنہیں بتا دیتی تھیں کہ میں فلاں بیماری کا علاج ہوں۔ سیاستدان حکومت کی چاہت اور خود نمائی کی ایسی مہلک بیماریوں کا شکار ہیں کہ ان کی انہی بیماریوں نے بنی نوع انسان کو ہر قسم کے عذابوں میں لپیٹ لیا ہے۔ سیاستدان کسی بھی ملک یا مذہب کا ہو وہ ضرور اس بیماری کا مریض ہوتا ہے اپنے اس احساسِ تسکین جو اُنہیں خودنمائی میں ملتی ہے کی خاطر اس کا دل و دماغ سارا دن منصوبہ بندیوں میں مبتلا رہتا ہے پھر وہ یہ منصوبے حکومتی ایوانوں میں پیش کرتے ہیں اور حکومتی افراد ان کو سائنسدانوں کے سپرد کر دیتے ہیں اور اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد ایسے ایسے ہتھیار بناتے ہیں جو لاکھوں انسانوں کو منٹوں میں خاک نشین کر دیتے ہیں اور کچھ بچ جانے والے معذور کیڑوں کی طرح زمین پر رینگتے ہیں۔ یہ سیاستدان اتنے خود پسند اور خود غرض ہوتے ہیں کہ اپنوں کا بھی خون کر دیتے ہیں۔ غیرت نام کا لفظ تو ان کی ڈکشنری میں لکھا ہی نہیں ۔ سب نے دیکھ لیا کہ زرداری صاحب (جن کا نام میں زردار رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ زر کو سونے کی مورتی کی طرح پوجتے ہیں) اور ہذہائی نیس بلاول صاحب اُن لوگوں سے حکومت کی بھیک مانگنے جا پہنچے جن شرفا نے اُن کی والدہ محترمہ کے ساتھ انتہائی غیر شریفانہ سلوک کیا تھا۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اپنا اشرف المخلوقاتی اعزاز استعمال کرتے ہوئے قادرِ مطلق سے سوال (نعوذ باللہ) کروں کہ انسان کے اجزائے ترکیبی میں بدی اور بُرائی کا عنصر کیوں شامل کیا کہ کچھ لوگوں کی بدی اور بُرائی سے بہت سے انسانوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے تقریباً سارے سیاستدان زمیندار ہیں اور زمیندار وہ طبقہ ہے جو اپنی جائیداد بچانے (کیونکہ اس جائیداد سے اُنہوں نے سیاست کرنی ہوتی ہے اور سیاست انہیں خودنمائی کا موقعہ فراہم کرتی ہے) کی خاطر اپنی اولادوں کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں اور بہت سی خوفناک معاشرتی بُرائیاں اِنہی کی وراثت ہے میں آجکل اس طبقے پر ریسرچ کر رہی ہوں شاید کوئی علاج معالجہ نکل آئے۔ میرے لغاری نام کی وجہ سے لوگ مجھے بھی زمیندار طبقے کا فرد سمجھتے ہیں خدا کا شکر ہے میں اس گناہگار طبقے میں شامل نہیں میرے باپ دادا ملازمت پیشہ تھے جو اپنی محنت سے فوج اور سول کے اعلیٰ عہدوں پر رہے میرے والد ایک آئی سی ایس آفیسر تھے وہ ہمیں بتاتے تھے کہ ہم بچے تو آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں اُنہوں نے غلامی کے کیسے کیسے عذاب جھیلے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری ملازمت کے دوران جب اُنہوں نے تحریکِ پاکستان کے لیے خفیہ کام کئے تو اُنہیں ملازمت سے ہٹا دیا گیا اور وہ ایک ایسے معاشی عذاب سے دوچار کر دئیے گئے کہ گوشہ نشین ہو گئے اور اِس طرح وقت کے خاکروب نے اُن کی زندگی کے تاریخی ورق کو کوڑے میں اُٹھا دیا۔ حیرانی کی بات ہے کہ مجید نظامی صاحب جو واقعی ایک سچے عاشقِ پاکستان تھے پتہ نہیں کیسے تاریخ کے اس گمشدہ ورق کو جھاڑ پونچھ کر کوڑے دان سے ڈھونڈ لیا۔ نظامی صاحب نے اپنے اخبار ’نوائے وقت ‘کے سنڈ ے ایڈیشن( 21 دسمبر 1997ئ) میں ا ُن کی خدمات پر ایک مفصل فیچر شائع کیا اور میری بہن مسرت لغاری کو اُن کے گھر راولپنڈی میں خود اپنے ہاتھ سے دیا۔ خدا کا شکر ہے ہم نے اس اخبار کو تمغہِ حسنِ کارکردگی کے طور پر اپنے وجودوں پر نہیں سجایا اور نہ اِسے بیچ کر کوئی رتبہ یا سیاستدانی کمائی گوشہ نشینی اب بھی ہماری وراثت ہے۔ بہرحال اتنا ضرور ہوا کہ اس ورق کو پڑھنے کے بعد ہمارے اندر پاکستان سے محبت ان حدود تک جا پہنچی کہ میں نے اپنے قلم کو تلوار بنا کر پاکستان پر ہونے والی کسی بھی ظلم و زیادتی کو ہاتھ میں ننگا اٹھائے رکھا۔ خدا ہمیں سیاستدانوں کے شر سے بچائے۔