آج کے دن ایک مرتبہ پھر سیاست دانوں کو عوام کی ضرورت آپڑی ہے ، بسیں بھر کر گھروں سے لانے ، معذوروں کو کاندھے پر بٹھا کر لانے، ٹھیلوں پر بیماروں کو لٹا کر لانے ، مردہ لوگوںکے بھی ووٹ ڈالے جانے کی خبریں اخبار ات اور میڈیا کی زینت بنیں گی ۔ اسطرح گزشتہ 71 سالہ پاکستان کی تاریخ میں 11ویں مرتبہ عوام کو ووٹ ڈالکر اپنے نمائیندے منتخب کرنے کیلئے پاکستان کے آئین نے اجازت دی ہے ۔ مگر ان تمام انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی کسی حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی کام نہیں کیا ، نہ پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ بہتر ہوا، نہ ہی معیشت درست ہوسکی ، نہ ہی روزگار مل سکا ، آبادی میں اضافہ بہت ہوچکا ہے اس تناسب کے حوالے سے آمدن کے کے ذرائع بہت کم ہیں ، ہر آنے والے نے یہ ہی کہا کہ خزانہ خالی ہوچکا ہے ( پھر بھی ملکی محبت کہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں ) آج تک یہ ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ مراعات یافتہ انتخابات میں کروڑو ں روپیہ خرچ کرکے اسکے بدلے اربوںروپیہ بنا کر گھر چلا جاتا ہے ۔آج کے انتخابات میں مجموعی طور قومی و صوبائی اسمبلیوںکی 8945 نشستوں پر 11, 855 امیدوار حصہ لے رہے ہیں اسکا مطلب ہے 10, 961 افراد اپنے دروازے پر یہ تختی لگانے میں کامیاب ہونگے ’’ سابق امیدوار برائے قومی یا صوبائی اسمبلی ۔ موجودہ انتخابات کی شفافیت کا جواب نہیں کہ بہت سارے معاملات ایسے ہوئے جس میںدودھ میں مینگنیاں ڈال دی گئیں۔ اگر قانون کہتا ہے کہ حکومت کا انتخاب عوام کی ذمہ داری ہے تو انہیں پانچ سال میں یہ موقع دے دینا چاہئے ۔ اس بات سے قطع نظرمسلم لیگ نے کتنی بدعنوانی کی ہے ( عدالتوں اور عمران خان کے مطابق ) قانون تو بہت پہلے سے موجود ہے بد عنوانی کے متعلق پھر انتخابات کے قریب کارروائیاں شک پیدا کرتی ہیں ۔ بہر حال لوگ کہتے ہیں بدعنوانی ایک وجہ مگر اصل سزا میاںصاحب کو اپنے بیانئے کی ملی ہے ۔ نواز شریف نے صحیح یا غلط اپنے مخالفین کو برا بھلا کہا مگر خیر سے عمران خان نے تو عوام کو گالیوں سے نوازا ، جیسے اسمبلیوںپر لعنت بھیجنا ، کسی لیڈر کے استقبال کرنے والوںکو گدھا کہنا وغیرہ وغیرہ یہ نا زیبا زبان مسلم لیگ کے لیڈران بھی کرتے رہے ہیں اس طرح دونوں طرف کی قیادت آنے والی نسل کی منفی تربیت میں مصروف ہے ۔ آج کے انتخابات میں شائد کوئی انہونی باتیں ہونے والی ہیں چونکہ انتخابات سے قبل ہی انہونی ہورہی ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کو بیرون ملک بڑی حیرانی سے سنا گیا ہے ۔ہمارے رہنمائوں نے اس انتخابات میں ملک کے تمام اداروںکو سڑک اور ہوٹلوںکی زینت بنا دیا ، عوام کو توقع اور خوشی تھی کہ ہم جمہوریت کی طرف جارہے ہیں پانچ سال انتقال اقتدار با وقار طریقے سے ہوا تھا جبکہ اس دفعہ 2018 میں دو سو سے زائد معصوم جانوں کے خون لیکر ہوگا، نیز عوام کو کچھ لوگوں نے یہ باور کرادیاکہ ملک کے کچھ ادارے انتخابات نہیں بلکہ سیلکشن میں مصروف ہیں اسکے قصور وار بھی رہنما ہیں میں نے یہاں ایک ہندوستانی سے اس کے ملک کے فوجی سربراہ کا نام پوچھا تو اسے پتہ نہیں تھا جبکہ ہمارے ہاں نہ صرف فوجی سربراہ بلکہ اور کئی اعلی افسران کے نام ہم پاکستانیوںکو نہ صرف ازبر ہیں بلکہ انہیں اپنی سوچ کے مطابق منفی اور مثبت سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث لاتے ہیں یہ ہمارا معمول بن چکا ہے جو افسوس ناک ہے۔ ہمارے ہاںجو روش سیاست دانوں اور متعلقہ لوگوںنے جاری رکھی تو انتخابات کے بعد بھی انتقال اقتدار پر امن اور سکون سے نظر نہیں آرہا ۔ چوہدری نثار کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی نشست پر حصہ لینے والے قمر الاسلام کی گرفتاری اور یہ سب کچھ انتخابات سے قبل ۔ جس جماعت کو ان ا قدامات سے نقصان پہنچ رہا ہے وہ پھر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ، مگر توہین عدالت کے خوف سے سب دبکے بیٹھے ہیں ، توہین عدالت سے بیرون ملک میں ہمارا پہلے سے موجود منفی تاثر مزید منفی ہوا ہے ۔ قانون موجود ہیں جب طویل عرصے سے استعمال نہیں کئے گئے تو ایک ماہ کی تاخیر بھی ممکن تھی تاکہ ایسا کوئی شور نہ ہوتا کہ لاڈلا فلاں ہے اور ہمارے خلاف تادیبی کاروائیا ں ہورہی ہیں ۔الیکشن کمیشن اور انتخابات کی نگرانی کرنے والوں نے سندھ میں مراد علیشاہ اور دیگر نشستوںپر چار روز قبل ہی ڈاک سے آئے ہوئے ووٹس میں رد بدل کرتے ہوئے شکایات پر رنگے ہاتھوںپکڑا ایک اچھا اقدام ہے مگر عملے کی گرفتاری کیا معنی ؟؟ جس امیداوا ر کیلئے وہ ایسا کررہے تھے اسے نااہل کرنے کی ضرورت ہے اور تھی ۔ ایک بات حق ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت یا لیڈر شور مچائے فیصلہ عوام کا ہی ہوگا ۔
ہمارے ملک میںموجود صورتحال میں نتائج surprise دیتے ہیں چونکہ عوام کی رائے مقدم ہے ۔ آج کاہونے والا ’’ منصفانہ ‘‘انتخاب پہلا انتخاب ہے جس کے انعقاد سے قبل ہی ہر جماعت دھاندلی کی آوازیں نکال رہی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ عمران خان کس بیرونی اسٹبلشمنٹ کی بات کررہے ہیں ؟؟ جنہیں پاکستانی تارکین وطن بہت افسوس اور سنجیدگی سے دیکھتے ہیں ۔ عوام ووٹ دیں اپنے دین اور ایمان، ذہن کے مطابق ملک کی بہتری کیلئے فیصلہ کریں ان لیڈران کی باتوں پر آنکھ بند کرکے عمل نہ کریں ، بڑے بڑے انتخابی جلسے پاکستان کی تاریخ میں کبھی کامیابی کے ضامن نہیں رہے ۔ اپنے بچوں کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں یاد رکھیں آخری رائے صرف عوام کی ہوتی ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024