جمہوری بادشاہت کے سوا سال بعد بجلی کا شارٹ فال ’’22‘‘ گھنٹے پر پہنچ گیا۔ دُورا فتادہ شہروں اور دیہاتوں میں ہر آدھے گھنٹے بعد مسلسل 3-3 گھنٹے بجلی بند رہنے لگی۔ کچھ دن پہلے ’’وزارت پانی و بجلی ‘‘ حکومت کو ایک رپورٹ میں آگاہ کر چُکی تھی کہ آنے والے دنوں میں لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہوگا۔اس قبیل کے فیصلوں کی منفرد بات۔ واحد فیصلے جو مقررہ حد سے بھی آگے کاسفر شروع کر چُکے ہیں ۔یعنی ’’22 گھنٹے برقی رو منقطع‘‘۔ بہتر ہے کہ جہاں اور بہت سارے اداروں ۔آفس وغیرہ کے نام تبدیل ہوئے تھے ۔ لگے ہاتھوں اِس کا نام بھی بدل کر ’’وزارت ِ شارٹ فال‘‘ رکھ دیں۔ یوں بہت ساری شکایات از خود ختم ہو جائیں گی۔ گرمی سے لوگ پہلے بھی مرتے تھے ۔آکسیجن کی کمی سے مرتے لوگوں کو بھی دیکھا مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بجلی کی کمی سے مرنے والو ں کی تعدا د بڑھتی جارہی ہو۔ یہ ہے ہماری جمہوریت کا خاص تحفہ۔دہشت گردی سے نمٹنے کا حل۔ ڈبل سواری پر پابندی۔موبائل لوڈ شیڈنگ۔بجلی۔گیس نہیں۔لوڈ شیڈنگ ۔بحران بے قابو ہوا تو اب مرمت کی آڑ میں ’’فیڈرز‘‘ بند ۔ مزید ستم۔شارٹ فال بڑھنے پر وولٹیج میں مزید کمی کر دی جاتی ہے۔ دوسری طرف فیصل آباد کے تاجروں نے ’’28 جولائی‘‘ سے ایک لاکھ’’ آٹو لوم‘‘ بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایک لاکھ’’ آٹو لوم‘‘ بند کرنے کا مطلب ’’ 4لاکھ ‘‘ مزدوروں کا معاشی قتل ۔ اِسی پر اکتفا نہیں کریں گے بجلی بحال نہ ہو ئی تو مزید ڈیڑھ لاکھ لومز بند کنے کا فیصلہ۔ اِس پر بھی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی تو پھر فیکٹری مالکان اپنے ورکرز کے ساتھ لانگ مارچ کرینگے۔ ’’بچپن ‘‘ میں حقیقتاً ترسیلی لا ئنوں کی مرمت واسطے جب بجلی بند ہوتی اور اطلاع کردہ وقت طوالت کھنچنے لگتا تو معمول تھا کہ ’’واپڈا آفس‘‘ فون کر کے فراہمی کی تا کید کیجاتی۔ معمول سے زیادہ تعطل کی صورت میں آفس والے رسیور کریڈل سے ہٹا کر پرے رکھ دیتے۔شاید یہ بھی دید۔مروت کا معاملہ تھا۔ لوگوں میں شرم۔ لحاظ تھا۔ اپنی ذِمہ داری بابت کسی نہ کسی حد تک مخلص تھے۔ممکن ہے وضاحتیں دینے یا لوگوں کے مشتعل جذبات سے بچنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہو۔پھر وقت گزرتا گیا اور ہر آنے والا دن مسائل کی تعداد کو جہاں بڑھاتا رہا وہاں دستیاب بجلی کی مقدار بھی گھٹاتا گیا۔ لمحہ موجود میں برقی بحران کے شدت پکڑنے پر حکومت نے ہر شہر میں شکایات سنٹر ز بنا کر وہاں تعینات اہلکاروں کے نام اخبارات میں مشتہر کر دئیے ۔ کون کہتا ہے کہ حکومت سنجیدہ نہیں۔ کیا یہ لازم ہے کہ کوئی فوری حل برآمد ہو۔ بجلی نہیں دے سکتے۔ شکایات سننے کے لیے لوگ تو بیٹھا دئیے ہیں ناں۔ آپ کے گھر میں چاہے پنکھا نہ چلے۔۔ آپکے کارخانے بیشک بند ہو جائیں ۔ کیا فرق پڑتا ہے۔سینکڑوں لوگوں کا روزگار تو
بندھ گیا۔ ہاں سارے عمل میں ایک قیامت رہ گئی۔۔ گھنٹوں گرمی میں جھلسنے کے بعد جب ’’شکایات مراکز‘‘ میں فون کرنا پڑجائے تو اول تو کوئی اُٹھاتا ہی نہیں۔ شو مئی قسمت ۔لائن لگ جائے تو ’’Please . Hold on‘‘ کی گردن اتنا وقت لے ڈالتی ہے کہ اتنے میں بجلی آجاتی ہے۔عجب زمانہ کی بے ڈھنگی چال ہے۔ کسی کا م میں بھی ترتیب نظر نہیں آرہی۔ جدید مواصلاتی ٹیکینالوجی کا استعمال سمع خراش کا باعث تو بن سکتا ہے ۔ریلیف دینے کے قابل نہیں۔ یہ ایک ’’محکمہ ‘‘ کی بات نہیں۔ لگتا ہے پُورا ملک ہی ’’Hold on‘‘ پر چل رہا ہے۔شاید حکومت مسئلہ کی سنگینی کو درست طور پر بھانپ نہیں رہی ۔یہ بحران لوگوں کے ’’شکم‘‘ سے جڑا ہوا ہے۔ مہنگائی پہلے ہی عروج پر ہے۔
مزید ہزاروں کارخانے بند ہونے سے بے روز گاری کی لپیٹ میں آنیوالے لاکھوں مزدور۔ ورکرز بیک وقت سڑکوں پر آنکلے تو پھر شاید ’’سونامی ۔آزادی مارج کی نو بت بھی نہ آئے۔بروقت۔ صحیح فیصلوں کی راہ میں جمودطاری ہے بے حسی۔لا پرواہی کے اِس دور میں فی الوقت نِت نئے سیاسی انکشافات حالات کی گرد آلود کیفیت کو مزیدگہراا کر رہے ہیں۔سمجھ نہیں آرہی ۔درست تجزیہ نہیں ہو پایا کہ سب کچھ سوچی سمجھی گیم کا نتیجہ ۔یا واقعی صورتحال خراب تر منظر کی تصویرکشی کر رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ ارادی طور پر مخلص ہوں مگر فرائض کی انجام دہی میں مخلص نہیں تو اِن حالات میں سوائے۔ ’’دعا‘‘ کے چارہ نہیں ۔ نہیں اندازہ کہ کِن وجوہات باعث ’’قیادت‘‘ مسئلہ کے درست حل کی طرف مُڑنے کا ارادہ باندھنے سے قاصر ہے۔نہ مسئلہ حل کر رہی ہے نہ اِس بابت اُٹھنے والی شکایات۔ رجسٹر کرنے پر آمادہ۔یعنی وہی بات ’’Hold on‘‘ نہ فون اٹھانا ہے نہ سنناہے ۔بس ریکارڈ شدہ کیسٹ لگا کر جان چھڑوالی۔ بے قابو بحران کو حل کرنے کا واحد راستہ اب یہی ہے کہ جو علاقے ۔ادارے لوگ نا دہندہ ہیں۔ اُن کی بجلی کاٹ دیں۔
پس تحریر۔ دنیا کا سب سے کم عمر کمرشل پائلیٹ پاکستان کا فخر’’ حارث سلیمان‘‘ اور’’ کیپٹن بابر‘‘۔ سمندری حادثہ میں شہید ہو گئے۔۔کچھ ہی دن پہلے انٹرویو دیکھ رہی تھی۔۔ پوری دنیا کا سفر کرکے پیسے اکٹھے کر کے پاکستان میں فروغ تعلیم کی مد میں خرچ کرنے کی معصوم خواہش کا اظہار کر دیا تجا۔۔بہت بڑا نقصان ہے ۔۔خلا پُر نہیں ہو سکتا۔۔ اِ س تناظر میں کہ ہمارے نوجوان سپوت ’’دھرتی ماں‘‘ کے لیے کتنے پُر خلوص ہیں مگر ہماری بد نصیبی کہ خوش قسمتی کا دروازہ کُھلنے کی بجائے بدقسمتی کا در کھل گیا۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024