پشاور کے چرچ پر دو خود کش حملوںکی خبر کے بعد میں نے فوری طور پر خلیل طاہر سندھو کو فون کیا تاکہ اس کے ساتھ اس سانحہ پر اظہار ہمددردی کر سکوں،خلیل طاہر سندھو پنجاب کابینہ کے چند متحرک وزراءمیں سے ایک ہیں جبکہ کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر ہیں جو اقلیتی امور کے علاوہ صحت اور انسانی حقوق کی وزارت کو بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ خلیل سندھو اس واقعہ پر غمزدہ تھا مگر مجھے اس کے حوصلے پر بڑا فخر محسوس ہوا، مجھے وہ ایک سچا اور کھرا پاکستانی لگا۔میں پشاور میں ہونے والے واقعہ کے بعد اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پا رہا تھا مگر اس کا حوصلہ محسوس کر کے اس کے گھر چلا گیا۔ایکسپریس کے چیف رپورٹر خالد قیوم مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے۔خلیل سندھو کو میں نے گلے لگایا تو بولا بھائی جان میں کرسچن ضرور ہوں مگر پاکستانی بھی ہوں ۔اس وطن کے لئے سب نے خون دیا ہے ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ دہشت گرد ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے ،اس دوران اسے وزیر اعلیٰ پنجاب اور بعض دوسرے حکومتی زعماءکے فون بھی آ رہے تھے جن کا وہ نہ صرف حوصلے سے جواب دے رہا تھا بلکہ خود بھی پشاور اور دوسرے علاقوں کے بشپ اور مسیحی راہنماوں سے رابطے کر کے انہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے نیک اور امدادی جذبات پہنچا رہا تھا ۔وزیر صحت ہونے کے ناطے ڈاکٹروں کی ٹیم اور ادویات پہنچانے کی بات شائد اس نے خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت سے کی اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر اور دوسری سہولیات کے لئے بھی وہ اپنے محکمے کو ہدایات دیتا رہا۔وہ بار بار اس بات پر پریشان ہو رہا تھا کہ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب وزیر اعظم میاں نواز شریف امریکہ کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں اور دہشت گرد ایسی کاروائیوں سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔خلیل سندھو نے ہماری موجودگی میں پوپ کے کسی نمائندے سے بھی بات کی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی طرف سے اس واقعے پر کئے جانے والے اقدامات سے انہیں آگاہ کیا۔
میں اس کے گھر سے واپسی پر سوچ میں پڑ گیا کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟کرسچن کمیونٹی نے اس ملک میں تعلیم کو عام اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔میں نے خود اپنی تعلیم کا آغاز ایک چرچ سکول سے کیا تھا ،میری بہن ، میری بیوی ،بیٹی اور بے شمار رشتہ دار کسی نہ کسی چرچ سکول سے پڑھے ہیں۔
پاکستان میں اس سے پہلے بھی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اس پر آواز احتجاج بھی بلند ہوتی رہی ہے ۔اسلام کسی بھی دوسرے مذہب اور خصوصاً بے گناہوں کے خلاف اس طرح کے کسی بھی غیرانسانی فعل کے سخت خلاف ہے ۔مسیحی برادری پاکستان کی پسماندہ لیکن انتہائی انسان دوست کمیونٹی ہے اور اس نے ملک کی ترقی کے لیے بیش قیمت قربانیاں دی ہیں اور جس طرح دہشت گردوں نے پشاور کے اس قدیم ترین گرجا گھر کو عین اتوار کے روز نشانہ بنایا ہے تاکہ نقصان زیادہ سے زیادہ ہوسکے یہ کسی بڑی سازش کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ حال ہی میں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ملک میں دوحلقے بن گئے ہیں ایک جو کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیںاور دوسرے جو ان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف ہیں اب انہی دونوں حلقوں کے طرف سے مختلف آراءسامنے آرہی ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی حلقے اس دہشت گردی کی واردات کے تانے بانے کسی بین الاقوامی سازش کے ساتھ ملانے پر مصر ہیں جسکا مقصد طالبان کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژکرنا ہے جبکہ دوسری طرف جو حلقے طالبان کیساتھ مذاکرات کے خلاف ہیں وہ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کروانے والے وہ ملک وقوم کے خیر اندیش اب کہاں ہیں۔یہ دہشت گردی کا ناسور صرف اقلیتوں کے لیے ہی باعث تکلیف نہیں ہے یہ دہشت گرد غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بھی فرقہ واریت کا زہر پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔بات صر ف اقلیتوں کی ہی نہیں پاکستان میں کون ہے جو اس دہشت گردی کے شر سے محفوظ رہا ہے یہاں مسجدوں ،امام بارگاہوں، مزارات اور خانقاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہاں تو قانون نافذکرنے والے اداروں چاہے وہ پولیس کے ملازم ہوں یا فوج سمیت دیگر حساس اداروں سے تعلق رکھتے ہوں انہیں بھی دہشت گردوں کی طرف سے اسی خطرے کا سامنا ہے۔پشاور میں کیا جانے والا یہ حملہ مسیحیوں پر نہیں پاکستانیت پر حملہ ہے ، مسیحی برادری نے دکھ اور تکلیف سے مجبور ہوکر ملک کے تمام بڑے شہروں میں احتجاج کیا ہے ہم اس احتجاج میں ان کے ساتھ ہیں۔ہمارے باقی مذاہب کے لوگوں کو بھی اس احتجاج میں شامل ہونا چاہئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر حکمت عملی بنائی جائے اگردیکھا جائے تو موجودہ حکومت تاحال گزشتہ حکومت کے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے اور اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کر پارہی ۔ دہشت گردی کے خلاف کوئی پالیسی تیار کی جاسکی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے تاحال کوئی موثر حکمت عملی نظر آرہی ہے ۔ پتہ نہیں سیاسی حکومت اس حوالے سے کب تک گومگوکا شکار رہتی ہے لیکن ایک حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ دہشت گرد اپنی حکمت عملی اور موثر پالیسی پر گامزن ہیں اور وہ نہ صرف مملکت بلکہ اس کی اساس کو نقصان در نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ آخر کب تک ہم لوگ کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کر کے انتظار کرتے رہیں کے کہ دہشت گرد خود ہی تھک جائیں ۔
پشاور میں جانیں دینے وا لے کرسچن ہونے کے ناطے صرف خلیل سندھو کے بھائی بہن اور بزرگ نہیں تھے،وہ میرے اور آپ کے بھی بہن بھائی اور بزرگ تھے۔ہم سب ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024