ایک خوف ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ جی ایچ کیو پر حملے کے بعد کون خود کو محفوظ سمجھے؟ گھر سے باہر نکلنے والوں کو یقین ہی نہیں ہوتا بخیروعافیت گھر واپس پہنچ جائیں گے۔ کوئی ہوٹل میں بیٹھا ہے تو وہاں خوفزدہ ہے۔ کسی جگہ ٹریفک جام ہوگئی گاڑیوں‘ ویگنوں‘ بسوں‘ موٹر سائیکلوں اور رکشوں میں سوار لوگوں کو یوں محسوس ہوتا ہے ابھی کوئی دھماکہ ہوگا اور ان کا جسم خاک کا ڈھیر بن جائیگا۔ بچے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں تو مائیں اس وقت تک دعائیں کرتی رہتی ہیں جب تک واپس نہیں آجاتے۔ لوگ ’’نفسیاتی مریض‘‘ بنتے جاتے ہیں۔ کل ایک مشہور ماہر نفسیات تشریف لائے۔ فرمایا 1988ء میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد شعبہ سائیکاٹری میں سپیشلائزیشن کیلئے برطانیہ جانے لگا تو دوستوں اور عزیزوں نے سمجھایا ایسے مرض میں سپیشلائزیشن کرو جس کی کوئی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ ہو۔ ان کا خیال تھا مجھے جگر‘ معدہ‘ دل‘ گردے یا ہڈیوں وغیرہ کے امراض میں سپیشلائزیشن کرنا چاہئے کہ ہمارے ہاں ان امراض میں لوگ زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ میں نے کسی کی بات پر دھیان نہ دیا اور وہی کیا جو سوچا تھا۔ دو سال کی سپیشلائزیشن کے بعد وطن واپس آیا تو شام پانچ بجے سے لیکر رات دس بجے تک میرے کلینک میں سوائے ’’مکھیوں‘‘ کے کوئی نہیں آتا تھا۔ تب مجھے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی بات یاد آتی تھی اور میں سوچتا تھا وہ درست فرماتے تھے۔ مجھے واقعی کسی ایسے مرض میں سپیشلائزیشن کرنا چاہئے تھی جس کی کوئی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ ہوتی… آج حالت یہ ہے کہ شام پانچ بجے کلینک کھلتا ہے اور ڈپریشن‘ اینگزایٹی و دیگر نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ رات تین بجے تک سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ دورانِ تشخیص پتہ چلتا ہے زیادہ تر مریض ملکی حالات کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہیں۔ حالات تبدیل نہ ہوئے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے۔ آج اگر ہر ساتواں شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو کل ہر دوسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہوگا۔
ماہر نفسیات سے میں نے پوچھا کبھی کوئی حکمران‘ کوئی وزیر شذیر بھی ڈپریشن کا شکار ہو کر آپکی خدمت میں حاضر ہوا؟ ایک قہقہہ ان کے ہونٹوں پر پھیل گیا جس نے سوگوار دل کو مزید سوگوار کردیا۔ مجھے اپنی ’’بیوقوفی‘‘ پر رونا آیا کہ ماہر نفسیات سے ایسا سوال میں نے کیوں پوچھا؟ اوّل تو حکمران وغیرہ بیماریوں میں کم ہی مبتلا ہوتے ہیں کہ ہزاروں نعمتیں‘ سہولتیں اور مراعات ان کی صحت پر ایسے ’’خوشگوار اثرات‘‘ مرتب کرتی رہتی ہیں‘ ان کا بیمار شیمار ہونا مشکل ہی ہوتا ہے۔ دوسرے انہیں تو کوئی چھینک بھی آجائے تو علاج کی غرض سے برطانیہ اور امریکہ روانہ ہوجاتے ہیں‘ ڈپریشن جیسی ’’بڑی اور خطرناک بیماری‘‘ کیلئے کسی پاکستانی ڈاکٹر کا انتخاب کیوں کریں گے؟ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈپریشن فکرمند لوگوں کو ہوتا ہے‘ وہ جو حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں‘ حکمرانوں کا فکر سے کیا تعلق؟ انہیں تو صرف اپنے اقتدار کی فکر ہوتی ہے اور وہ بھی اتنی اس لئے نہیں ہوتی کہ اقتدار میں نہ بھی ہوں تو جو نعمتیں‘ سہولتیں اور دولت کی فراوانی ان کے پاس ہوتی ہے‘ انہیں عدم اقتدار کا احساس ہی نہیں ہونے دیتیں۔ کوئی فکر انہیں ملک کی نہ قوم کی‘ پھر انہیں ڈپریشن کیوں ہوگا؟ وہ تو موج میلہ لوٹنے آتے ہیں اور لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ کوئی دو تو کوئی نو برسوں بعد۔
کس قدر المیہ ہے عوام کا خوف دور کرنے کیلئے ’’منتخب حکمرانوں‘‘ کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ دکھائی دے بھی تو اس راستے پر وہ کیوں چلیں گے‘ جن کی منزل صرف اقتدار ہو۔ ایسے راستوں کا انتخاب نہیں کرتے جس میں کسی دکھ‘ تکلیف یا اذیت کا کوئی اندیشہ ہو۔ سارے دکھ‘ ساری تکلیفیں اور اذیتیں صرف عوام کیلئے ہیں۔ اُن عوام کیلئے جنہیں فوجی و غیرفوجی حکمرانوں نے اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرکے تنہا چھوڑ دیا۔ ’’وہ کہتا تھا تجھے اپنا بنا کے چھوڑوں گا‘‘ پھر اس نے مجھے اپنا بنا کے چھوڑ دیا… تو جناب گر عوام حکمرانوں سے کوئی توقع‘ کوئی امید کوئی آس لگائے بیٹھے ہیں تو بیٹھے ہی رہیں گے جبکہ یہ کھڑے ہونے‘ باہر نکلنے‘ اکٹھے ہونے کا وقت ہے اور وقت گزر جائے تو کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ دہشت گرد اس ملک کو کمزور کرنے کی سازش میں اندرونی و بیرونی قوتوں کی مدد سے کامیاب ہوئے جاتے ہیں۔ انہیں ناکام بنانا حکمرانوں کا کام نہیں کہ ان کا کام صرف لوٹ مار کرکے فرار ہوجانا ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کو ناکام بنانا‘ ملک بچانا ہے تو عوام کو خود کو باہر نکلنا پڑیگا جیسے عدلیہ کی بحالی اور زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے نکلے تھے۔ گر وہی جذبہ سامنے نہ آیا تو یقین فرمائیے ہمارے سامنے جو ’’گڑھا‘‘ ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس میں گرنے سے نہیں بچا سکتی؎
سورج کے ڈوبنے کا نہ اتنا ملال کر
آنکھیں طلوع کرکے اُجالا بحال کر
ماہر نفسیات سے میں نے پوچھا کبھی کوئی حکمران‘ کوئی وزیر شذیر بھی ڈپریشن کا شکار ہو کر آپکی خدمت میں حاضر ہوا؟ ایک قہقہہ ان کے ہونٹوں پر پھیل گیا جس نے سوگوار دل کو مزید سوگوار کردیا۔ مجھے اپنی ’’بیوقوفی‘‘ پر رونا آیا کہ ماہر نفسیات سے ایسا سوال میں نے کیوں پوچھا؟ اوّل تو حکمران وغیرہ بیماریوں میں کم ہی مبتلا ہوتے ہیں کہ ہزاروں نعمتیں‘ سہولتیں اور مراعات ان کی صحت پر ایسے ’’خوشگوار اثرات‘‘ مرتب کرتی رہتی ہیں‘ ان کا بیمار شیمار ہونا مشکل ہی ہوتا ہے۔ دوسرے انہیں تو کوئی چھینک بھی آجائے تو علاج کی غرض سے برطانیہ اور امریکہ روانہ ہوجاتے ہیں‘ ڈپریشن جیسی ’’بڑی اور خطرناک بیماری‘‘ کیلئے کسی پاکستانی ڈاکٹر کا انتخاب کیوں کریں گے؟ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈپریشن فکرمند لوگوں کو ہوتا ہے‘ وہ جو حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں‘ حکمرانوں کا فکر سے کیا تعلق؟ انہیں تو صرف اپنے اقتدار کی فکر ہوتی ہے اور وہ بھی اتنی اس لئے نہیں ہوتی کہ اقتدار میں نہ بھی ہوں تو جو نعمتیں‘ سہولتیں اور دولت کی فراوانی ان کے پاس ہوتی ہے‘ انہیں عدم اقتدار کا احساس ہی نہیں ہونے دیتیں۔ کوئی فکر انہیں ملک کی نہ قوم کی‘ پھر انہیں ڈپریشن کیوں ہوگا؟ وہ تو موج میلہ لوٹنے آتے ہیں اور لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ کوئی دو تو کوئی نو برسوں بعد۔
کس قدر المیہ ہے عوام کا خوف دور کرنے کیلئے ’’منتخب حکمرانوں‘‘ کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ دکھائی دے بھی تو اس راستے پر وہ کیوں چلیں گے‘ جن کی منزل صرف اقتدار ہو۔ ایسے راستوں کا انتخاب نہیں کرتے جس میں کسی دکھ‘ تکلیف یا اذیت کا کوئی اندیشہ ہو۔ سارے دکھ‘ ساری تکلیفیں اور اذیتیں صرف عوام کیلئے ہیں۔ اُن عوام کیلئے جنہیں فوجی و غیرفوجی حکمرانوں نے اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرکے تنہا چھوڑ دیا۔ ’’وہ کہتا تھا تجھے اپنا بنا کے چھوڑوں گا‘‘ پھر اس نے مجھے اپنا بنا کے چھوڑ دیا… تو جناب گر عوام حکمرانوں سے کوئی توقع‘ کوئی امید کوئی آس لگائے بیٹھے ہیں تو بیٹھے ہی رہیں گے جبکہ یہ کھڑے ہونے‘ باہر نکلنے‘ اکٹھے ہونے کا وقت ہے اور وقت گزر جائے تو کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ دہشت گرد اس ملک کو کمزور کرنے کی سازش میں اندرونی و بیرونی قوتوں کی مدد سے کامیاب ہوئے جاتے ہیں۔ انہیں ناکام بنانا حکمرانوں کا کام نہیں کہ ان کا کام صرف لوٹ مار کرکے فرار ہوجانا ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کو ناکام بنانا‘ ملک بچانا ہے تو عوام کو خود کو باہر نکلنا پڑیگا جیسے عدلیہ کی بحالی اور زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے نکلے تھے۔ گر وہی جذبہ سامنے نہ آیا تو یقین فرمائیے ہمارے سامنے جو ’’گڑھا‘‘ ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس میں گرنے سے نہیں بچا سکتی؎
سورج کے ڈوبنے کا نہ اتنا ملال کر
آنکھیں طلوع کرکے اُجالا بحال کر