موجودہ حکومت کی مدت میں چند ماہ رہ گئے ہیں اور اپریل کے اواخر میں بجٹ کی آمد آمد ہے اور پھر ملک نئے الیکشن کی طرف جا رہا ہے۔ حکومت نے اپنی 2013ء کی الیکشن مہم میں قوم سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ وفا ہوتا نظر نہیں آرہا اور اگر اب مشروط لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری نہیں ہے وہاں بجلی نہیں جائیگی تو بجلی چوری روکنا کس کا کام ہے؟ آخر بجلی چوری کے خاتمے اور اس معاملے کے مستقل حل کی طرف کیا پیش رفت کی گئی؟ بجلی چوری کا معاملہ بہت اہم ہے اور اس پر مربوط اقدامات کی بہت ضرورت ہے۔
ڈالرکی قیمت میں اضافہ معیشت کے بارے میں اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں 1 روپے اضافے سے ایک طرف ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے تو دوسری طرف مہنگائی بڑھتی ہے اور عالمی ادائیگیوں میں تسلسل کیلئے حکومت مزید ٹیکس لگا کر عوام پر بوجھ بڑھاتی ہے اور وقتی اقدامات سے ڈالر کو ایک جگہ مستحکم رکھ کر کامیابی سمجھی جاتی ہے اورکچھ عرصہ بعد ایک بار پھر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایک بار پھر وقتی اقدامات سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔
ڈالر کو مستحکم رکھنا ہی مسئلہ ہے تو ڈالر کی قیمت میں کمی کا تو سوچا تک نہیں جاسکتا لیکن اس سارے مسئلے کے حل کیلئے جامع اور مربوط پالیسی بنا کر معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے تمام شعبوں میں اصلاحات‘ اقدامات اور منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے جب بھی یہاں جمہوری حکومتیں آتی ہیں تو پتہ نہیں کیوں معیشت اور قومی ادارے زبوں حالی کا شکار ہوجاتے ہیں؟ملکی معیشت میں سب سے اہم سہارا زراعت ہے اور زراعت کی ترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کسان کو کھاد‘ بیج‘ زرعی ادویات اور مشینری میں ممکن حد تک سبسڈی اور آسان ترین شرائط پر فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور زراعت کیلئے وافر سستا پانی جب تک دستیاب نہیں ہوگا اس وقت تک زراعت میں انقلابی ترقی ممکن نہیں اور اس کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈیموں کی تعمیر اور نہری نظام میں مربوط توسیع کیلئے ترجیحات کے تحت فنڈز رکھ کر کم سے کم وقت میں تعمیر نہیں کی جاتی اسی طرح چین اور دیگر ممالک سے B.O.T. کے تحت زیادہ سے زیادہ میگا پروجیکٹس بشمول ڈیم اور ہائیڈل پاور منصوبوں کی تعمیر کیلئے معاہدے کئے جائیں۔ دوسری طرف نقد آور فصلوں کے وقت کسان سے جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اس سے زراعت کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اصل منافع حکومتوں کے فرنٹ مین لے جاتے ہیں جبکہ کاشتکار کو سال بھر کی محنت کے بعد صرف بمشکل لاگت ہی ملتی ہے اسی وجہ سے زراعت سے دلبرداشتہ ہو کر لوگ شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
صنعت بھی پاکستان میں ترقی کر سکتی ہے خصوصاً ٹیکسٹائل‘ کھیلوں کا سامان‘ تیار خوراک سمیت سینکڑوں شعبوں میں پاکستان ترقی کر سکتا ہے لیکن ترقی معکوس رہنے کی سب سے بڑی وجہ مہنگی بجلی ہے اور اسکی سب سے بڑی وجہ ہائیڈل منصوبوں کو ترجیح دینے کے بجائے دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دینا ہی ہے۔ جب مہنگی بجلی خرچ کرکے مصنوعات تیار ہوتی ہیں تو انکی لاگت و قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے دیگر ممالک کو تجارت کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور خطے کے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بجلی مہنگی ہے اسی لئے یہاں کی انڈسٹری مزید تباہی کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔ انڈسٹری کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت یہاں پیداواری لاگت کم ہو تو یہاں کی مصنوعات زیادہ سے زیادہ فروخت ہو سکیں گی اور ساتھ ہی ساتھ معیار پر توجہ ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں سب مادر پدر آزاد ہیں اور معیار و مقدار کے معاملے میں وعدہ خلافی کرکے بھی بین الاقوامی طور پر پاکستان کی ساکھ خراب کی جاتی ہے اسی لئے حکومت اس سلسلے میں بھی مانیٹری ادارہ فعال کرے اور بین الاقوامی تجارت میں وعدہ کے مطابق معیار و مقدار کو یقینی بناکر بہتر ساکھ کے ساتھ معیشت و صنعت کو ترقی دی جاسکتی ہے۔
ڈالر کی قیمت میں اضافہ معیشت کی زبوں حالی کا غماز ہے اور جن لوگوں کی ذاتی ایک انڈسٹری بڑھ کر درجنوں صنعتوں تک ترقی کرجاتی ہیں ان لوگوں سے پتہ نہیں قومی ادارے کیوں نہیںچل پاتے اور انہیں قومی خزانے پر بوجھ کہہ کر مفت میں دینے تک کی بات کردی جاتی ہے۔ یہی قومی ادارے P.S.O., P.I.A.‘ ریلوے اور اسٹیل ملز مشرف دور میں یکدم سے اربوں روپے خسارے سے نکل کر اربوں روپے منافع کمانے لگے اور مشرف کی حکومت میں ان اداروں کے ملازمین بھی خوش تھے اور یہ ادارے قوم پر بوجھ نہیں رہے تھے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میرٹ پر ان اداروں کے سربراہوں کا تقرر ہوا جنہوں نے میرٹ پر فیصلے کرکے ان اداروں کو منافع بخش بنا دیا تھا لیکن بدقسمتی سے سیاسی حکومتوں کے آنے کے بعد اپنے پسندیدہ سیاسی‘ سفارشی لوگوں کو لگایا گیا جس سے یہ ادارے اپنا اربوں روپے منافع ڈبوکر یکدم سے ایک بار پھر اربوں روپے کے خسارے میں چلے گئے۔ اگر ادارے معیشت پر مستقل بوجھ ہیں تو جلد از جلد اس متعلق مناسب فیصلے کریں نہ کہ اپنے من پسند افراد کو کوڑیوں کے مول دیکر الیکشن مہم کیلئے ان سے فنڈز لیں اور ایسے گروپ کو اسٹیل مل دے دی جائے جس کا اس شعبے میں پہلے کوئی تجربہ ہی نہ ہو۔
معیشت کے استحکام کیلئے بجٹ میں ان چیزوں پر بھاری ٹیکس لگانا ضروری ہے جو اشیائے تعیش شمار ہوتی ہیں اور غیر ضروری امپورٹ کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔اگر معیشت کے استحکام کیلئے تمام شعبوں میں مربوط پالیسیوں کے تحت اقدامات نہیں کئے جاتے تو ڈالر کی قیمت بڑھتی جائے گی اور وقتی استحکام کوہی کامیابی قرار دیا جاتا رہے گا حالانکہ ڈالر کی قیمت میں کمی کرکے ہی معیشت کے استحکام کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024