عامرہ احسان ( سابق ایم این اے)
پورا یورپ ’’برقعہ بخار‘‘ میں پھُنک رہا ہے۔ افغانستان میں ناقابلِ یقین ہزیمت کے مظاہر ’’اثرات مابعد‘‘ بہت سے ہیں۔ کھسیانی بلی بہت سے کھمبے نوچ رہی ہے۔ توہینِ قرآن، توہینِ رسالت، مساجد، مدارس پر گرتا نزلہ اور اب ’’برقعہ‘‘، ’’نقاب‘‘، ’’حجاب‘‘ ! دُکھی انسانیت کیلئے سب سے بڑا غم، سب سے بڑا خطرہ یہ چارگرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں نقاب ہونا لکھا ہے !
طاقتور جمہوریہ فرانس، سائنس ٹیکنالوجی، تمامتر عسکری قوت، 6.4 کروڑ آبادی رکھنے والا مغربی یورپ کا سب سے بڑا ملک دو ہزار عورتوں کے نقاب کے خوف سے لرز رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں دنیا کے اس اہم ترین مسئلے پر بحث کیلئے کتنا وقت، کتنا پیسہ، کتنی صلاحیت صرف کی گئی۔ 577 ممبروں کے ایوان میں 335 نے نقاب پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا۔ باقی ماندہ سوشلسٹ کمیونسٹ ممبروں نے Abstain کرنا بہتر جانا۔ یعنی خاموشی والی نیم رضامندی ظاہر کر دی۔
577 کے ایوان میں صرف ایک شیر بہادر وہ تھا جو نقاب کیخلاف (Niqabo-Phobia) میں مبتلا ہونے سے بچا اور اس نے پابندی کی مخالفت میں ووٹ دیا! اس قانون کے تحت پبلک مقامات (یعنی ہر جگہ) چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت ہو گی۔ خلاف ورزی پر 150 یورو کا جرمانہ دینا پڑیگا۔ مرد اگر اپنے گھر کی خواتین پر نقاب لاگو کر لے تو اسے 30,000 یورو جرمانہ اور ایک سال قید بھگتنی پڑیگی۔ حیا سستی تو کبھی نہ تھی۔ لیکن یہ اعزاز فرانس کو حاصل ہوا کہ اس نے حیا کو تول کر پیمانہ مقرر کر دیا۔ چارگرہ حیا کی قیمت تیس ہزار یورو۔ شاباش فرانس! بے شعوری ہی میں سہی۔ لیکن پوری پارلیمنٹ نے غوروخوض کے بعد واقعی حیا کو بیش قیمت ثابت کر دکھایا۔ بیلجیئم، سپین اور اٹلی کی میونسپلٹیز بھی اسی نوعت کے قوانین کیلئے بیٹھی ہیں۔ دیکھئے وہاں قیمت کیا لگتی ہے۔ اس قانون پر جسٹس منسٹر ایلیٹ میری نے اس اطمینان کا اظہار کیا کہ یہ بل فرانسیسی ’’اقدار و روایات‘‘ کو تحفظ فراہم کریگا!
ہمارے ہاں اقدار و روایات کے الفاظ بولے جائیں تو معافی میں ’’عزت‘‘، ’’بزرگی‘‘ اور ’’توقیر کا تسلسل جانا جائیگا۔ انگریزی میں ویلیوز (Values) بھی قیمتی لفظ ہی ہے جو اقدار کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن نجانے فرانسیسی برہنگی میں کون سی توقیر پوشیدہ ہے کہ بے لباس اقدار کے تحفظ کی خاطر بھاری جرمانے عائد کئے جارہے ہیں؟ دیوانگی، جنون، مالیخولیا، خفقان کے سوا اس ذہنی کیفیت کو کیا نام دیا جائے؟ جہاں نہتی بے گناہ اقوام کے بوڑھے، عورتیں، بچے مار ڈالنے اور دنیا کے ایک بڑے حصے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے اور بے رحمانہ خونریزی پر تو ایک یورو کا جرمانہ بھی نہ ہوا اور صنفِ نازک میں کروڑوں، لاکھوں نیم برہنہ کے درمیان اکا دُکا نظر آنیوالی حیادار اوڑھنی لپٹی خاتون مجرم ٹھہرے!
ٹائم میگزین نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے طاقتور جمہوریہ فرانس کو صرف دو ہزار برقعہ پوش خواتین سے خوفزدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بل کے حامیوں نے نقاب کو خواتین کیخلاف جبر قرار دیا ہے۔ انہوں نے برقعہ پوش خواتین سے یہ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ آیا وہ بھی اسے جبر کی علامت سمجھتی ہیں؟ یہ سوال یقینا جواب طلب بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔ تاہم اس سے پہلے یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ آئے دن مغرب سے ہمارے بالباس معاشرے میں کم لباسی کا شکار مغربی سرکاری اہلکار، سفارتکار خواتین چلی آرہی ہوتی ہیں۔
ہماری اقدار و روایات کیلئے ان کا حلیہ خطرہ 440 وولٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ جس حلیے میں ہماری خاتون اپنے محرم دائرے میں بھی آنے کا سوچ نہیں سکتی‘ یہ خواتین سمندر پار کا سفر کرتی دن دہاڑے ہمارے دفاتر میں آموجود ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں تہذیب، اقدار روایات حقیقتاً موجود ہیں جن کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ پابندی عائد کرنا، جرمانہ کرنا ہمارا حق ہے یا اُنکا؟ عجب طُرفہ تماشا ہے ڈھانپے ہوئے سے خطرہ ہے۔ بے لباسی میں کوئی خطرہ نہیں! اوڑھنے پر جرمانہ ہے اتارنے پر نہیں؟ ہماری پارلیمنٹ بھی ذرا سر جوڑ کر بیٹھے۔ ایک بل ہم بھی متفقہ طور پر پاس کر لیں تو آئے روز کے وفود کی مہمان نوازی کے اخراجات تو جرمانے کی رقوم سے نکل ہی آئینگے۔
یہ بھی توجہ طلب امر ہے کہ یہ محض ممبرانِ پارلیمنٹ کا چھوڑا ہوا شوشہ نہیں ہے۔ ہمیں رواداری اور برداشت (Tolerance) سکھانے والے مغرب میں، 80 فیصد فرانسیسی، 67 فیصد برطانوی، 71 فیصد جرمن اور 59 فیصد اسپینی نقاب پر پابندی کے حق میں رائے دے چکے ہیں۔ جرمنی میں خصوصیت سے یہ شور و غوغا جو نقاب پر پابندی اور مساجد کے میناروں کو یورپی شہروں سے ہٹانے کے ضمن میں ہے اُن کی مسلم مخالف پارٹیوں کی جانب سے ہے۔ ایک طرف یہ نظریاتی جبر، گھٹن، تنگ نظری، مذہبی تعصب، جنون دیکھئے۔
دوسری جانب ہمارے شہروں میں فخر سے سر اٹھائے، سینہ تانے کھڑے گرجے دیکھئے جنہیں میلی آنکھ سے کسی نے دیکھنا بھی نہ چاہا۔ کشادگی، اعلیٰ نظری کے حامل تو ہم ہیں۔ تہذیب، شائستگی، صبر کے ساتھ مغرب کے اجڈ، گنوار توہین آمیز رویوں کو کون گوارا کر رہا ہے؟ ہمارے تمام مذہبی شعائر سے تم کھلے ہم نے تمہارے مقابلے میں کبھی اپنے دیوانے خوابوں میں بھی تمہاری مذہبی کتابوں، عبادت گاہوں، پادریوں، راجائوں کے حجاب پر زبانِ طعن تک دراز کرنے کا تصور نہیں کیا۔ انبیاء کا تو تذکرہ بھی ہم ہن کو مشک و گلاب سے دھو کر کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری تربیت کوثر و تسنیم سے دُھلی، سات آسمانوں سے نازل کردہ پاکیزہ تہذیب کی گود میں ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں کتے بلی اور (انسانی) بچے ایک گھاٹ پر کھا پی کر نہیں پلتے۔
اس گئے گزرے دور میں بھی خاندانی نظام کے طفیل بچہ پورے خاندان کے بڑوں کی محبت، شفقت اور تربیت میں پلتا بڑھتا ہے جبکہ آج کی مغربی قیادتیں دراصل اجڑے بکھرے خاندانی نظام کے ہاتھوں تیار ہونیوالی وہ نسل ہے جو عورت کو گھر سے نکال باہر کرنے کے نتیجے میں جیتے جی مامتا سے محروم ہو کر تیار ہوئی ہے۔ غیرمنقسم محبت سے محروم، توجہ، شفقت سے ناآشنا خودرو پودے کی طرح اُگنے والی کٹی پھٹی شخصیتیں پورے گلوب میں زہریلے کانٹے بو رہی ہیں۔
عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت
چشمِ او بے نم دل او سنگ و خشت
دانشِ افرنگیاں تیغے بدوش
در ہلاکِ نوعِ انساں سخت کوش
’’یورپ کی عقل نیکی بدی کی پہچان سے عاری ہے۔ وہ محبت کی نرمی سے محروم اور سنگ دل ہے۔ یہ دانش بنی نوعِ انسان کی دشمن ہے تلوار ہاتھ میں لئے انسان کی ہلاکت کے درپے ہے اور یہ بھی کہ۔ فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری۔ آج دنیا اسی شیطانی خرد اور تیرہ دل کی سیاہیوں سے نمٹ رہی ہے۔ ’’عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزیٔ افرنگ‘‘ سے یہ دنیا آج دوچار ہے۔ عسکری میدانوں میں موت بو کر اب اپنی اخلاق باختہ تہذیب کا زہر انسانیت کی رگوں میں اتارنے کے خواہاں ہیں اور اخلاق باختگی کا یہ زہر کیسا ہے؟
من درونِ شیشہ ہائے عصرَ حاضر دیدہ ام
آنچناں زہر لے کہ از ولے مار ہادر پیچ وتاب
’’میں نے عہدِ حاضر کے شیشہ و پیمانہ میں وہ زہر بھرا دیکھا ہے جس کے اثر سے سانپ بھی تڑپنے لگتے ہیں۔
عورت کے باب میں مغرب نے جو ٹھوکر کھائی ہے آج اسکے زوال کے اسباب میں سب سے بڑا حصہ انسانی نسلوں کو ’’ماں‘‘ اور ’’مامتا‘‘ کے شہد بھرے ذائقہ سے محروم کر دینے کا ہے۔
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ امر موت
ہے حضرتِ انساں کے لئے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
عورت، ترقی، مساوات، Empowerment کے فلسفوں کی آڑ میں مغرب کے سفلی جذبات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جو معاشرے عورت کے تقدس کی حفاظت نہ کر سکیں وہ خود بھی بہت جلد شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ترقی کے نام پر عورت کو نکال کر آج مغربی معاشرہ گھر سے محروم ہو کر بے شمار قسم کے گھر ایجاد کر چکا ہے۔ اولڈ ہومز، گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کے گھر، ٹوٹے ہوئے گھر (Broken Homes)، سنگل پیرنٹ ہوم، Foster Parent Homes (اصل والدین کی جگہ مانگے تانگے والدین کے گھر) … وغیرہ وغیرہ۔ گھر تو ’’ماں‘‘ سے تشکیل پاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا دیکھ لیجئے۔ ہر گھر میں دروازے سے اندر داخل ہونے والا ہر بچہ سب سے پہلے پوچھتا ہے۔ ’’امی کہاں ہے۔‘‘ ! حتٰی کہ بچوں کے باپ کا بھی پہلا سوال یہی ہوتا ہے۔ … ’’بیٹا امی کہاں ہے! ’’تمہارے لئے گھروں کو جائے سکون بنایا‘‘۔ یہ گھر کے یونٹ سے ہمارا قرآنی تعارف ہے۔ گھر کو جائے سکون ایک عورت بناتی ہے جسے ’’ماں‘‘ کہتے ہیں۔ اس ماں کو اللہ نے اپنے پرتو پر تخلیق کیا ہے اس لئے وہ مقدس ہے، مکّرم ہے، باوقار ہے، باحجاب ہے! وہ رب حقیقی ہے اور حجاب میں ہے۔ یہ رب مجازی ہے۔ تخلیق اور ربوبیت کے عظیم الشان کام کیلئے حجاب لازم ہے ! اسکی تخلیق ’’انسان‘‘ ہے۔ آج عورت کو دربدر کر دینے کے نتیجے میں وہ قحط الرجال برپا ہوا ہے کہ انسانیت الطعش، العطش پکار رہی ہے … انسانم آرزو ست ! آج دنیا میں پہلو میں داشتہ لئے نقاب کے پیچھے دیوانہ وار دن رات ایک کر دینے والا سرکوزی تو ہے۔ انسانیت کَش، بش، آرمٹج، ہالبروک، پیٹریاس تو ہیں لیکن دور دور کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا! … (جاری ہے)
یہ جو ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ برقعہ کو جبر قرار دینے، پابندی عائد کرنے والوں نے کیا برقعہ پوش عورت سے بھی پوچھا ہے کہ ’’آیا وہ خود بھی اسے جبَر سمجھتی ہے یا نہیں؟ یہ بہت ہی مبنی برانصاف اور برمحل سوال ہے۔ اس کا بہتر جواب ایک ایسی عورت یقینا دے سکتی ہے جس کی تعلیم و تربیت میں برقعہ شامل نہ تھا۔ اپنے دور کی بہترین یونیورسٹی سے سائنس میں اٹھارہ جماعتیں پاس کر کے، مغربی دنیا کو سر کی آنکھوں سے دیکھ پرکھ کر، جب وہ خود اپنی خواہش اور شعور کی روشنی میں پردہ کرتی ہے تو اسکی کوئی وجہ تو ہوگی۔ جس کے حلقۂ دوستی میں مغرب کی تشنہ پیاسی روحیں لپک لپک کر قرآن کے چشمۂ فیض سے سیراب ہونے والی امریکی یورپی خواتین بھی رہیں۔ اسلام قبول کرتے ہی انہوں نے کسی ’’جبر واکراہ‘‘ کے بغیر سر تاپا تا خود کو ڈھانپا۔ سکارف تو سب ہی نے اوڑھے۔ کچھ نے نقاب بھی اختیار کیا۔ وہ تو مغربی تہذیب کی پروردہ تھیں لیکن اُن میں سے ایک بھی ایسی نہ تھی کہ کلمہ پڑھتے ہی ایک آفاقی خاندان کی رُکن بنتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے اپنا لباس مکمل نہ کیا ہو! انہوں نے اپنے معاشرے کے مسلط کردہ جنسی جبر کی علامت برہنگی کے مظہر لباسوں سے کنارہ کشی اختیار کی۔ وہ لباس جو یا تو لباس کے نام پر تہمت تھے، عیاں تھے اور یا وہ نسوانیت سے عاری مردانہ شباہت دینے والے لباس تھے۔ اُن کی اپنی کوئی شناخت نہ تھی۔ لباس مکمل کر لینے کے بعد وہ اس قابل ہوئیں کہ یکسوئی سے اپنی پہچان پا کر، اپنا مقام پاسکیں۔ برہنگی اور مرد/ معاشرے کے ہاتھوں کھلونا بنے رہنے سے نجات پانے کیلئے آج مغرب میں اسلام کی طرف لپکنے والے طبقے میں بہت بڑی تعداد عورت کی ہے۔ یہی اعدادوشمار سرکوزیوں کے ہوش اڑائے دے رہے ہیں اور وہ جبراً یہ راستہ مسدود کرنے پر تل گئے ہیں!
ٹائم میگزین اگر اپنے سوال میں سچا ہے تو اسے آج کی دنیا میں بے شمار خواتین خود یہ گواہی دینے کو مل جائیں گی کہ نقاب جبری ہے یا خوداختیار۔ بحمدللہ ۔ آج ہم جس دنیا میں ہیں اس میں کم و بیش 80-85 فیصد باپردہ عورت پورے شعور اور اپنے ارادے و عزم کی بنیاد پر باحجاب ہے۔ بلکہ وہ بسا اوقات اسکی بھاری قیمت بھی چکاتی ہے۔ پردہ ایک مکمل نظامِ حیات کا جُزو اور مظہر ہے۔ اسے الگ سے سمجھنا دشوار ہے۔ ایک وہ نظامِ حیات‘ تصورِ زندگی جو صرف 80-90 سالہ انسانی زندگی کی بات کرتا ہے اس کی منصوبہ بندی کرتا اور ایجنڈے انسان کے ہاتھ میں تھماتا ہے۔ انسانوں کو چھوٹے چھوٹے قومی، نسلی، لسانی گروہوں میں منقسم کر کے محدود مفادات اور تعصبات اسکے اندر اتارتا ہے۔ یہ تصورِ زندگی ایک خوش پوش دو ٹنگے حیوانِ ناطق کی بات کرتا ہے۔ دوسرا تصورِ حیات، نظامِ زندگی وہ ہے جو ایک بہت بڑا کینوس رکتا ہے۔ جس میں انسانی زندگی سو پچاس سالوں میں محدود و مقید نہیں ہے۔ وہ حیوانِ ناظم نہیں اشرف المخلوقات، خلیفۃ فی الارض اور مسجودِ ملائک ہونے سے کہانی کا آغاز کرتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ ایک بہت بڑے خانوادے کا رُکن رکین ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا ظہور ہوا۔ یہ تصورِ حیات مادے کے بنے اس ڈبے (Container) جسم میں موجود ’’روح‘‘ کی بات کرتا ہے۔ حواس اور عقل سے ماورأ‘ علم حقیقی کی بنیاد پر زندگی، اس کے اصول و ضوابط، اسکا طرزِ حیات طے کرتا ہے۔ اس لئے کہ ؎
علم کی حد سے پرے بندۂ مومن کے لئے
لذتِ شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے
مغرب نے عقائد کا شیشہ پاش پاش کر کے صرف محسوس پر علومِ جدید کی بنیاد رکھی۔ اقبالؒ نے تہذیبِ مغرب بارے جو کچھ لکھا ہے آج وہ حرف حرف پورا ہو رہا ہے۔
فکر بے نور ترا جذبِ عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن و شبِ تارِ حیات !
المیہ یہی ہے کہ وہ اپنی فکر ظلمتیں پوری دنیا پر مسلط کرنے کو مُصر ہیں۔ وہ کنویں کے مینڈک کی سی محدود دنیاوی زندگی کی قید سے آزاد ہو کر ہماری اس فضائے بسیط کو دیکھنے سمجھنے، اسکی تازہ ہوائوں میں گہری سانس بھرنے کو تیار ہوں تو دنیا سے تاریکیاں چھٹ جائیں!
یہ نظامِ حیات انسان کو ایک کامل، اکمل رول ماڈلؐ دیتا ہے جو اس زمین پر زندگی کے ہر دائرے میں اپنی قوتیں صلاحیت لگا برت کر دکھا دیتا ہے اور جس سمے کفر توہین پر اُترا ہوتا ہے اس لمحے بھی اسکے گردوپیش وہ گواہیاں سراسر رہی ہوتی ہیں جس میں دنیا کے سو مئوثرترین شخصیات کے انتخاب میں سرِفہرست نامِ نامی محمدﷺ ہی کا ہوتا ہے۔ اس تصورِ زندگی میں عورت کو جو مقام دیا گیا وہ آزادی اور ترقی کا بلند ترین مقام ہے۔ وہ اس کائنات میں صرف ایک ہستی کے تابع اور اس کی غلام ہے۔ عورت کا الٰہ… مرد نہیں ہے۔ معاشرہ بھی نہیں۔ ریاست بھی نہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی نہیں۔ اور فیشن بھی تو نہیں! اس کا الٰہ ۔ جسکی وہ غلام ہے صرف ’ اللہ ‘ ہے۔ جسکی وہ بندی ہے اور جس کی طرح اس نے پلٹ کر جانا ہے اور جوابدہی جس کے آگے ہے۔ اس غلامی میں آزادی کی جو سند ہے وہ دنیا کا کوئی معاشرہ اُسے نہیں دے سکتا۔ وہ آزادترین (Liberated) عورت ہے۔ اس کا استحصال کوئی نہیں کر سکتا۔ مرد سے اسکا رشتہ، مدِمقابل، حریف، متخاصم کا نہیں ہے۔ مرد سے اللہ تعالیٰ نے اسے نہایت خوبصوت رشتوں میں پرو دیا ہے۔ وہ اس کا باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہے! ہر رشتہ محبت، احترام، عزت، وقار، شراغت، نجابت اور رفاقت کاہے۔ وہ نہایت پُرسکون ہے اُسے مرد بن کر نہیں دکھانا۔ اسکی نسوانیت کا جوہر آبدار، اسکی عفت و عصمت وہ بیش قیمت، بے بہا آبگینہ جس کی حفاظت پر پورا نظام مامور ہے۔ اسکی قدروقیمت یہ ہے کہ اس پر کیچڑ اچھالنے والا۔ جھوٹا بہتان لگانے والا حدِقذف کا سزاوار ہے۔ اسکی عصمت پر زبانِ بہتان دراز کرنے والا یا چار گواہ لائے یا اسّی کوڑے کھائے۔ یہ نزاکت ہے اسکے مقام کی۔ عورت کو نگاہ بھر کر دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ نگاہ بھی اس کے آبگینے کیلئے بال پڑ جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ جو نظامِ عفت و عصمت، زبان، دل اور نگاہ کا بھی تحفظ کرے، تصورات، خیالات کی پاکیزگی کی بھی تعلیم و تربیت دے اُسے سمجھنا دیدۂ بے باک سوز سے خالی دل، سینۂ بے نور کے بس کی بات کہاں! عورت کے زبردست تحفظ میں ایک حصہ اسلام میں نسبت کی اہمیت کا ہے۔ نسب کی پاکیزگی اور عورت کی حیا، پردے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مغربی عورت کو دربدر کر کے اس احساس سے محروم کر دیا گیا ہے کہ اسے اپنی حفاظت کرنی ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں اپنے گھر کا دروازہ کھول دیتی ہے اور باقی زندگی فقیر کی جھونپڑی کی سی بے سروسامانی میں گزار دیتی ہے۔ رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔ آج مغرب میں گیارہ سال کی بچی حرام بچہ پیدا کر سکتی ہے اور کر رہی ہے۔ حلال کے سارے دروازے بند ہیں! شادی کی اجازت نہیں ہے بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ مغرب کی عورت وہ جھونپڑی ہے کہ نہ کواڑ، نہ تالا نہ پردہ، نہ آڑ۔! صلائے عام ہے … جبکہ مسلمان عورت عالی شان محل کی طرح تہ در تہ سکیورٹی کے پہروں میں آبگینے کی حفاظت کرتی ہے۔ پورا مسلم معاشرہ اسکی عزت کے تحفظ پر مامور ہے۔ آج اُسے درپردہ لاکھ یہ پیغام دیجئے کمرشلزم کی آڑ میں … ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔ وہ یہ جانتی ہے کہ داغدار دامن اسکی زندگی اجیرن کر دے گا۔ یہاں بھی۔ وہاں بھی۔! ’’بات کرو ساری رات بلا روک دوٹوک‘ … کس سے؟ ابا، اماں۔؟ یہ ذومعنی پیغامات اور فحش اشتہارات مغرب کا ایجنڈہ ہیں کہ وہ ہماری عورت کو تحفظ کے دائروں سے نکال کر حرص و ہوس کی توپوں کے دہانے پر اُسی طرح رکھ لیں جیسے اُن کے ہاں کی عورت ہے! اِس زہر کو حلق سے اتارنے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں جس میں ضمیر و حیا کا گلا گھونٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ فطرت سے طویل جنگ کی جاتی ہے۔ جس کے بعد عورت اپنا آپ کھو کر گراوٹ کے اس مقام پر آبیٹھتی ہے۔ اس راستے میں پہلے پہل عورت کی آزادی گھنائونے جرائم کی خوفناک وادیوں سے ہو کر گزرتی ہے جس کے مظاہر یہ بھی ہیں کہ گندے نالے میں پڑی روندی ہوئی لاش کی صورت پڑی ملتی ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پر بچہ سسکتا ہوا ملتا ہے۔ مغربی معاشرہ آج اخلاقی ذلت کے جن گڑھوں میں پڑا ہے کہ بچہ ہی ماں ہی کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ باپ کا نام پوچھا ہی نہیں جائے۔ حرام بچوں کی پرورش کیلئے ادارے قائم کر دیئے جائیں۔ نکاح کا تصور مٹ جائے۔ کتے بلیوں کی سی زندگی نارمل جانی جائے۔ سطحی نمائشی قوانین عورت کے تحفظ کیلئے بنائے جائیں لیکن حال سمندر والا ہو کہ چہار جانب پانی ہے اور پیاس بُجھانے کو قطرہ نہیں۔ آج دنیا کی مظلوم ترین ہستی مغرب میں عورت ہے۔ لہٰذا مسلمان عورت کا نقاب نوچ کر آپ اپنی عورت کی تسکین و راحت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے۔ اسے بھی عزت، وقار، تکریم و تقدیس کا حق حاصل ہے۔ اُسے کپڑے پہننے کی اجازت دیجئے۔ اسے اسکی نسوانیت لوٹا دیجئے۔ اسے مامتا کے عمیق خوبصورت جذبوں سے محروم کر کے مزدور نہ بنائیے۔ اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ معاشروں کی سلامتی اور گھروں کی سکنیت! حجاب‘ نقاب مسلمان عورت کا وہ شاندار قلعہ ہے جس کے تحفظ میں وہ معاشرے کے اسفل عنصر کی ہولناکیوں سے محفوظ و مامون پاکیزہ زندگی پُرسکون زندگی گزارتی ہے۔ ایسی ہی گود سے بقول اقبالؒ شبیرؓ ڈھل کر نکلتے ہیں۔ (کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری!) مروہ شر بینی سے پوچھیئے حجاب کی قدروقیمت! سرکوزیوں کا اندیشہ درست ہے کہ نقاب مغرب کی عورت کو حسرتوں میں مبتلا کر رہا ہے مسلمان عورت کی پُرسکون، باحیا، باوقار زندگی اسے مغربی مرد ک یغلامی کے چُنگل سے نجات حاصل کرنے پر مائل بہ اسلام کر رہی ہے۔ واقعی نقاب کے آگے ان کا پورا نظام لرز رہا ہے! کیونکہ … جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا!
پورا یورپ ’’برقعہ بخار‘‘ میں پھُنک رہا ہے۔ افغانستان میں ناقابلِ یقین ہزیمت کے مظاہر ’’اثرات مابعد‘‘ بہت سے ہیں۔ کھسیانی بلی بہت سے کھمبے نوچ رہی ہے۔ توہینِ قرآن، توہینِ رسالت، مساجد، مدارس پر گرتا نزلہ اور اب ’’برقعہ‘‘، ’’نقاب‘‘، ’’حجاب‘‘ ! دُکھی انسانیت کیلئے سب سے بڑا غم، سب سے بڑا خطرہ یہ چارگرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں نقاب ہونا لکھا ہے !
طاقتور جمہوریہ فرانس، سائنس ٹیکنالوجی، تمامتر عسکری قوت، 6.4 کروڑ آبادی رکھنے والا مغربی یورپ کا سب سے بڑا ملک دو ہزار عورتوں کے نقاب کے خوف سے لرز رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں دنیا کے اس اہم ترین مسئلے پر بحث کیلئے کتنا وقت، کتنا پیسہ، کتنی صلاحیت صرف کی گئی۔ 577 ممبروں کے ایوان میں 335 نے نقاب پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا۔ باقی ماندہ سوشلسٹ کمیونسٹ ممبروں نے Abstain کرنا بہتر جانا۔ یعنی خاموشی والی نیم رضامندی ظاہر کر دی۔
577 کے ایوان میں صرف ایک شیر بہادر وہ تھا جو نقاب کیخلاف (Niqabo-Phobia) میں مبتلا ہونے سے بچا اور اس نے پابندی کی مخالفت میں ووٹ دیا! اس قانون کے تحت پبلک مقامات (یعنی ہر جگہ) چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت ہو گی۔ خلاف ورزی پر 150 یورو کا جرمانہ دینا پڑیگا۔ مرد اگر اپنے گھر کی خواتین پر نقاب لاگو کر لے تو اسے 30,000 یورو جرمانہ اور ایک سال قید بھگتنی پڑیگی۔ حیا سستی تو کبھی نہ تھی۔ لیکن یہ اعزاز فرانس کو حاصل ہوا کہ اس نے حیا کو تول کر پیمانہ مقرر کر دیا۔ چارگرہ حیا کی قیمت تیس ہزار یورو۔ شاباش فرانس! بے شعوری ہی میں سہی۔ لیکن پوری پارلیمنٹ نے غوروخوض کے بعد واقعی حیا کو بیش قیمت ثابت کر دکھایا۔ بیلجیئم، سپین اور اٹلی کی میونسپلٹیز بھی اسی نوعت کے قوانین کیلئے بیٹھی ہیں۔ دیکھئے وہاں قیمت کیا لگتی ہے۔ اس قانون پر جسٹس منسٹر ایلیٹ میری نے اس اطمینان کا اظہار کیا کہ یہ بل فرانسیسی ’’اقدار و روایات‘‘ کو تحفظ فراہم کریگا!
ہمارے ہاں اقدار و روایات کے الفاظ بولے جائیں تو معافی میں ’’عزت‘‘، ’’بزرگی‘‘ اور ’’توقیر کا تسلسل جانا جائیگا۔ انگریزی میں ویلیوز (Values) بھی قیمتی لفظ ہی ہے جو اقدار کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن نجانے فرانسیسی برہنگی میں کون سی توقیر پوشیدہ ہے کہ بے لباس اقدار کے تحفظ کی خاطر بھاری جرمانے عائد کئے جارہے ہیں؟ دیوانگی، جنون، مالیخولیا، خفقان کے سوا اس ذہنی کیفیت کو کیا نام دیا جائے؟ جہاں نہتی بے گناہ اقوام کے بوڑھے، عورتیں، بچے مار ڈالنے اور دنیا کے ایک بڑے حصے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے اور بے رحمانہ خونریزی پر تو ایک یورو کا جرمانہ بھی نہ ہوا اور صنفِ نازک میں کروڑوں، لاکھوں نیم برہنہ کے درمیان اکا دُکا نظر آنیوالی حیادار اوڑھنی لپٹی خاتون مجرم ٹھہرے!
ٹائم میگزین نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے طاقتور جمہوریہ فرانس کو صرف دو ہزار برقعہ پوش خواتین سے خوفزدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بل کے حامیوں نے نقاب کو خواتین کیخلاف جبر قرار دیا ہے۔ انہوں نے برقعہ پوش خواتین سے یہ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ آیا وہ بھی اسے جبر کی علامت سمجھتی ہیں؟ یہ سوال یقینا جواب طلب بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔ تاہم اس سے پہلے یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ آئے دن مغرب سے ہمارے بالباس معاشرے میں کم لباسی کا شکار مغربی سرکاری اہلکار، سفارتکار خواتین چلی آرہی ہوتی ہیں۔
ہماری اقدار و روایات کیلئے ان کا حلیہ خطرہ 440 وولٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ جس حلیے میں ہماری خاتون اپنے محرم دائرے میں بھی آنے کا سوچ نہیں سکتی‘ یہ خواتین سمندر پار کا سفر کرتی دن دہاڑے ہمارے دفاتر میں آموجود ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں تہذیب، اقدار روایات حقیقتاً موجود ہیں جن کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ پابندی عائد کرنا، جرمانہ کرنا ہمارا حق ہے یا اُنکا؟ عجب طُرفہ تماشا ہے ڈھانپے ہوئے سے خطرہ ہے۔ بے لباسی میں کوئی خطرہ نہیں! اوڑھنے پر جرمانہ ہے اتارنے پر نہیں؟ ہماری پارلیمنٹ بھی ذرا سر جوڑ کر بیٹھے۔ ایک بل ہم بھی متفقہ طور پر پاس کر لیں تو آئے روز کے وفود کی مہمان نوازی کے اخراجات تو جرمانے کی رقوم سے نکل ہی آئینگے۔
یہ بھی توجہ طلب امر ہے کہ یہ محض ممبرانِ پارلیمنٹ کا چھوڑا ہوا شوشہ نہیں ہے۔ ہمیں رواداری اور برداشت (Tolerance) سکھانے والے مغرب میں، 80 فیصد فرانسیسی، 67 فیصد برطانوی، 71 فیصد جرمن اور 59 فیصد اسپینی نقاب پر پابندی کے حق میں رائے دے چکے ہیں۔ جرمنی میں خصوصیت سے یہ شور و غوغا جو نقاب پر پابندی اور مساجد کے میناروں کو یورپی شہروں سے ہٹانے کے ضمن میں ہے اُن کی مسلم مخالف پارٹیوں کی جانب سے ہے۔ ایک طرف یہ نظریاتی جبر، گھٹن، تنگ نظری، مذہبی تعصب، جنون دیکھئے۔
دوسری جانب ہمارے شہروں میں فخر سے سر اٹھائے، سینہ تانے کھڑے گرجے دیکھئے جنہیں میلی آنکھ سے کسی نے دیکھنا بھی نہ چاہا۔ کشادگی، اعلیٰ نظری کے حامل تو ہم ہیں۔ تہذیب، شائستگی، صبر کے ساتھ مغرب کے اجڈ، گنوار توہین آمیز رویوں کو کون گوارا کر رہا ہے؟ ہمارے تمام مذہبی شعائر سے تم کھلے ہم نے تمہارے مقابلے میں کبھی اپنے دیوانے خوابوں میں بھی تمہاری مذہبی کتابوں، عبادت گاہوں، پادریوں، راجائوں کے حجاب پر زبانِ طعن تک دراز کرنے کا تصور نہیں کیا۔ انبیاء کا تو تذکرہ بھی ہم ہن کو مشک و گلاب سے دھو کر کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری تربیت کوثر و تسنیم سے دُھلی، سات آسمانوں سے نازل کردہ پاکیزہ تہذیب کی گود میں ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں کتے بلی اور (انسانی) بچے ایک گھاٹ پر کھا پی کر نہیں پلتے۔
اس گئے گزرے دور میں بھی خاندانی نظام کے طفیل بچہ پورے خاندان کے بڑوں کی محبت، شفقت اور تربیت میں پلتا بڑھتا ہے جبکہ آج کی مغربی قیادتیں دراصل اجڑے بکھرے خاندانی نظام کے ہاتھوں تیار ہونیوالی وہ نسل ہے جو عورت کو گھر سے نکال باہر کرنے کے نتیجے میں جیتے جی مامتا سے محروم ہو کر تیار ہوئی ہے۔ غیرمنقسم محبت سے محروم، توجہ، شفقت سے ناآشنا خودرو پودے کی طرح اُگنے والی کٹی پھٹی شخصیتیں پورے گلوب میں زہریلے کانٹے بو رہی ہیں۔
عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت
چشمِ او بے نم دل او سنگ و خشت
دانشِ افرنگیاں تیغے بدوش
در ہلاکِ نوعِ انساں سخت کوش
’’یورپ کی عقل نیکی بدی کی پہچان سے عاری ہے۔ وہ محبت کی نرمی سے محروم اور سنگ دل ہے۔ یہ دانش بنی نوعِ انسان کی دشمن ہے تلوار ہاتھ میں لئے انسان کی ہلاکت کے درپے ہے اور یہ بھی کہ۔ فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری۔ آج دنیا اسی شیطانی خرد اور تیرہ دل کی سیاہیوں سے نمٹ رہی ہے۔ ’’عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزیٔ افرنگ‘‘ سے یہ دنیا آج دوچار ہے۔ عسکری میدانوں میں موت بو کر اب اپنی اخلاق باختہ تہذیب کا زہر انسانیت کی رگوں میں اتارنے کے خواہاں ہیں اور اخلاق باختگی کا یہ زہر کیسا ہے؟
من درونِ شیشہ ہائے عصرَ حاضر دیدہ ام
آنچناں زہر لے کہ از ولے مار ہادر پیچ وتاب
’’میں نے عہدِ حاضر کے شیشہ و پیمانہ میں وہ زہر بھرا دیکھا ہے جس کے اثر سے سانپ بھی تڑپنے لگتے ہیں۔
عورت کے باب میں مغرب نے جو ٹھوکر کھائی ہے آج اسکے زوال کے اسباب میں سب سے بڑا حصہ انسانی نسلوں کو ’’ماں‘‘ اور ’’مامتا‘‘ کے شہد بھرے ذائقہ سے محروم کر دینے کا ہے۔
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ امر موت
ہے حضرتِ انساں کے لئے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
عورت، ترقی، مساوات، Empowerment کے فلسفوں کی آڑ میں مغرب کے سفلی جذبات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جو معاشرے عورت کے تقدس کی حفاظت نہ کر سکیں وہ خود بھی بہت جلد شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ترقی کے نام پر عورت کو نکال کر آج مغربی معاشرہ گھر سے محروم ہو کر بے شمار قسم کے گھر ایجاد کر چکا ہے۔ اولڈ ہومز، گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کے گھر، ٹوٹے ہوئے گھر (Broken Homes)، سنگل پیرنٹ ہوم، Foster Parent Homes (اصل والدین کی جگہ مانگے تانگے والدین کے گھر) … وغیرہ وغیرہ۔ گھر تو ’’ماں‘‘ سے تشکیل پاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا دیکھ لیجئے۔ ہر گھر میں دروازے سے اندر داخل ہونے والا ہر بچہ سب سے پہلے پوچھتا ہے۔ ’’امی کہاں ہے۔‘‘ ! حتٰی کہ بچوں کے باپ کا بھی پہلا سوال یہی ہوتا ہے۔ … ’’بیٹا امی کہاں ہے! ’’تمہارے لئے گھروں کو جائے سکون بنایا‘‘۔ یہ گھر کے یونٹ سے ہمارا قرآنی تعارف ہے۔ گھر کو جائے سکون ایک عورت بناتی ہے جسے ’’ماں‘‘ کہتے ہیں۔ اس ماں کو اللہ نے اپنے پرتو پر تخلیق کیا ہے اس لئے وہ مقدس ہے، مکّرم ہے، باوقار ہے، باحجاب ہے! وہ رب حقیقی ہے اور حجاب میں ہے۔ یہ رب مجازی ہے۔ تخلیق اور ربوبیت کے عظیم الشان کام کیلئے حجاب لازم ہے ! اسکی تخلیق ’’انسان‘‘ ہے۔ آج عورت کو دربدر کر دینے کے نتیجے میں وہ قحط الرجال برپا ہوا ہے کہ انسانیت الطعش، العطش پکار رہی ہے … انسانم آرزو ست ! آج دنیا میں پہلو میں داشتہ لئے نقاب کے پیچھے دیوانہ وار دن رات ایک کر دینے والا سرکوزی تو ہے۔ انسانیت کَش، بش، آرمٹج، ہالبروک، پیٹریاس تو ہیں لیکن دور دور کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا! … (جاری ہے)
یہ جو ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ برقعہ کو جبر قرار دینے، پابندی عائد کرنے والوں نے کیا برقعہ پوش عورت سے بھی پوچھا ہے کہ ’’آیا وہ خود بھی اسے جبَر سمجھتی ہے یا نہیں؟ یہ بہت ہی مبنی برانصاف اور برمحل سوال ہے۔ اس کا بہتر جواب ایک ایسی عورت یقینا دے سکتی ہے جس کی تعلیم و تربیت میں برقعہ شامل نہ تھا۔ اپنے دور کی بہترین یونیورسٹی سے سائنس میں اٹھارہ جماعتیں پاس کر کے، مغربی دنیا کو سر کی آنکھوں سے دیکھ پرکھ کر، جب وہ خود اپنی خواہش اور شعور کی روشنی میں پردہ کرتی ہے تو اسکی کوئی وجہ تو ہوگی۔ جس کے حلقۂ دوستی میں مغرب کی تشنہ پیاسی روحیں لپک لپک کر قرآن کے چشمۂ فیض سے سیراب ہونے والی امریکی یورپی خواتین بھی رہیں۔ اسلام قبول کرتے ہی انہوں نے کسی ’’جبر واکراہ‘‘ کے بغیر سر تاپا تا خود کو ڈھانپا۔ سکارف تو سب ہی نے اوڑھے۔ کچھ نے نقاب بھی اختیار کیا۔ وہ تو مغربی تہذیب کی پروردہ تھیں لیکن اُن میں سے ایک بھی ایسی نہ تھی کہ کلمہ پڑھتے ہی ایک آفاقی خاندان کی رُکن بنتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے اپنا لباس مکمل نہ کیا ہو! انہوں نے اپنے معاشرے کے مسلط کردہ جنسی جبر کی علامت برہنگی کے مظہر لباسوں سے کنارہ کشی اختیار کی۔ وہ لباس جو یا تو لباس کے نام پر تہمت تھے، عیاں تھے اور یا وہ نسوانیت سے عاری مردانہ شباہت دینے والے لباس تھے۔ اُن کی اپنی کوئی شناخت نہ تھی۔ لباس مکمل کر لینے کے بعد وہ اس قابل ہوئیں کہ یکسوئی سے اپنی پہچان پا کر، اپنا مقام پاسکیں۔ برہنگی اور مرد/ معاشرے کے ہاتھوں کھلونا بنے رہنے سے نجات پانے کیلئے آج مغرب میں اسلام کی طرف لپکنے والے طبقے میں بہت بڑی تعداد عورت کی ہے۔ یہی اعدادوشمار سرکوزیوں کے ہوش اڑائے دے رہے ہیں اور وہ جبراً یہ راستہ مسدود کرنے پر تل گئے ہیں!
ٹائم میگزین اگر اپنے سوال میں سچا ہے تو اسے آج کی دنیا میں بے شمار خواتین خود یہ گواہی دینے کو مل جائیں گی کہ نقاب جبری ہے یا خوداختیار۔ بحمدللہ ۔ آج ہم جس دنیا میں ہیں اس میں کم و بیش 80-85 فیصد باپردہ عورت پورے شعور اور اپنے ارادے و عزم کی بنیاد پر باحجاب ہے۔ بلکہ وہ بسا اوقات اسکی بھاری قیمت بھی چکاتی ہے۔ پردہ ایک مکمل نظامِ حیات کا جُزو اور مظہر ہے۔ اسے الگ سے سمجھنا دشوار ہے۔ ایک وہ نظامِ حیات‘ تصورِ زندگی جو صرف 80-90 سالہ انسانی زندگی کی بات کرتا ہے اس کی منصوبہ بندی کرتا اور ایجنڈے انسان کے ہاتھ میں تھماتا ہے۔ انسانوں کو چھوٹے چھوٹے قومی، نسلی، لسانی گروہوں میں منقسم کر کے محدود مفادات اور تعصبات اسکے اندر اتارتا ہے۔ یہ تصورِ زندگی ایک خوش پوش دو ٹنگے حیوانِ ناطق کی بات کرتا ہے۔ دوسرا تصورِ حیات، نظامِ زندگی وہ ہے جو ایک بہت بڑا کینوس رکتا ہے۔ جس میں انسانی زندگی سو پچاس سالوں میں محدود و مقید نہیں ہے۔ وہ حیوانِ ناظم نہیں اشرف المخلوقات، خلیفۃ فی الارض اور مسجودِ ملائک ہونے سے کہانی کا آغاز کرتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ ایک بہت بڑے خانوادے کا رُکن رکین ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا ظہور ہوا۔ یہ تصورِ حیات مادے کے بنے اس ڈبے (Container) جسم میں موجود ’’روح‘‘ کی بات کرتا ہے۔ حواس اور عقل سے ماورأ‘ علم حقیقی کی بنیاد پر زندگی، اس کے اصول و ضوابط، اسکا طرزِ حیات طے کرتا ہے۔ اس لئے کہ ؎
علم کی حد سے پرے بندۂ مومن کے لئے
لذتِ شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے
مغرب نے عقائد کا شیشہ پاش پاش کر کے صرف محسوس پر علومِ جدید کی بنیاد رکھی۔ اقبالؒ نے تہذیبِ مغرب بارے جو کچھ لکھا ہے آج وہ حرف حرف پورا ہو رہا ہے۔
فکر بے نور ترا جذبِ عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن و شبِ تارِ حیات !
المیہ یہی ہے کہ وہ اپنی فکر ظلمتیں پوری دنیا پر مسلط کرنے کو مُصر ہیں۔ وہ کنویں کے مینڈک کی سی محدود دنیاوی زندگی کی قید سے آزاد ہو کر ہماری اس فضائے بسیط کو دیکھنے سمجھنے، اسکی تازہ ہوائوں میں گہری سانس بھرنے کو تیار ہوں تو دنیا سے تاریکیاں چھٹ جائیں!
یہ نظامِ حیات انسان کو ایک کامل، اکمل رول ماڈلؐ دیتا ہے جو اس زمین پر زندگی کے ہر دائرے میں اپنی قوتیں صلاحیت لگا برت کر دکھا دیتا ہے اور جس سمے کفر توہین پر اُترا ہوتا ہے اس لمحے بھی اسکے گردوپیش وہ گواہیاں سراسر رہی ہوتی ہیں جس میں دنیا کے سو مئوثرترین شخصیات کے انتخاب میں سرِفہرست نامِ نامی محمدﷺ ہی کا ہوتا ہے۔ اس تصورِ زندگی میں عورت کو جو مقام دیا گیا وہ آزادی اور ترقی کا بلند ترین مقام ہے۔ وہ اس کائنات میں صرف ایک ہستی کے تابع اور اس کی غلام ہے۔ عورت کا الٰہ… مرد نہیں ہے۔ معاشرہ بھی نہیں۔ ریاست بھی نہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی نہیں۔ اور فیشن بھی تو نہیں! اس کا الٰہ ۔ جسکی وہ غلام ہے صرف ’ اللہ ‘ ہے۔ جسکی وہ بندی ہے اور جس کی طرح اس نے پلٹ کر جانا ہے اور جوابدہی جس کے آگے ہے۔ اس غلامی میں آزادی کی جو سند ہے وہ دنیا کا کوئی معاشرہ اُسے نہیں دے سکتا۔ وہ آزادترین (Liberated) عورت ہے۔ اس کا استحصال کوئی نہیں کر سکتا۔ مرد سے اسکا رشتہ، مدِمقابل، حریف، متخاصم کا نہیں ہے۔ مرد سے اللہ تعالیٰ نے اسے نہایت خوبصوت رشتوں میں پرو دیا ہے۔ وہ اس کا باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہے! ہر رشتہ محبت، احترام، عزت، وقار، شراغت، نجابت اور رفاقت کاہے۔ وہ نہایت پُرسکون ہے اُسے مرد بن کر نہیں دکھانا۔ اسکی نسوانیت کا جوہر آبدار، اسکی عفت و عصمت وہ بیش قیمت، بے بہا آبگینہ جس کی حفاظت پر پورا نظام مامور ہے۔ اسکی قدروقیمت یہ ہے کہ اس پر کیچڑ اچھالنے والا۔ جھوٹا بہتان لگانے والا حدِقذف کا سزاوار ہے۔ اسکی عصمت پر زبانِ بہتان دراز کرنے والا یا چار گواہ لائے یا اسّی کوڑے کھائے۔ یہ نزاکت ہے اسکے مقام کی۔ عورت کو نگاہ بھر کر دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ نگاہ بھی اس کے آبگینے کیلئے بال پڑ جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ جو نظامِ عفت و عصمت، زبان، دل اور نگاہ کا بھی تحفظ کرے، تصورات، خیالات کی پاکیزگی کی بھی تعلیم و تربیت دے اُسے سمجھنا دیدۂ بے باک سوز سے خالی دل، سینۂ بے نور کے بس کی بات کہاں! عورت کے زبردست تحفظ میں ایک حصہ اسلام میں نسبت کی اہمیت کا ہے۔ نسب کی پاکیزگی اور عورت کی حیا، پردے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مغربی عورت کو دربدر کر کے اس احساس سے محروم کر دیا گیا ہے کہ اسے اپنی حفاظت کرنی ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں اپنے گھر کا دروازہ کھول دیتی ہے اور باقی زندگی فقیر کی جھونپڑی کی سی بے سروسامانی میں گزار دیتی ہے۔ رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔ آج مغرب میں گیارہ سال کی بچی حرام بچہ پیدا کر سکتی ہے اور کر رہی ہے۔ حلال کے سارے دروازے بند ہیں! شادی کی اجازت نہیں ہے بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ مغرب کی عورت وہ جھونپڑی ہے کہ نہ کواڑ، نہ تالا نہ پردہ، نہ آڑ۔! صلائے عام ہے … جبکہ مسلمان عورت عالی شان محل کی طرح تہ در تہ سکیورٹی کے پہروں میں آبگینے کی حفاظت کرتی ہے۔ پورا مسلم معاشرہ اسکی عزت کے تحفظ پر مامور ہے۔ آج اُسے درپردہ لاکھ یہ پیغام دیجئے کمرشلزم کی آڑ میں … ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔ وہ یہ جانتی ہے کہ داغدار دامن اسکی زندگی اجیرن کر دے گا۔ یہاں بھی۔ وہاں بھی۔! ’’بات کرو ساری رات بلا روک دوٹوک‘ … کس سے؟ ابا، اماں۔؟ یہ ذومعنی پیغامات اور فحش اشتہارات مغرب کا ایجنڈہ ہیں کہ وہ ہماری عورت کو تحفظ کے دائروں سے نکال کر حرص و ہوس کی توپوں کے دہانے پر اُسی طرح رکھ لیں جیسے اُن کے ہاں کی عورت ہے! اِس زہر کو حلق سے اتارنے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں جس میں ضمیر و حیا کا گلا گھونٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ فطرت سے طویل جنگ کی جاتی ہے۔ جس کے بعد عورت اپنا آپ کھو کر گراوٹ کے اس مقام پر آبیٹھتی ہے۔ اس راستے میں پہلے پہل عورت کی آزادی گھنائونے جرائم کی خوفناک وادیوں سے ہو کر گزرتی ہے جس کے مظاہر یہ بھی ہیں کہ گندے نالے میں پڑی روندی ہوئی لاش کی صورت پڑی ملتی ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پر بچہ سسکتا ہوا ملتا ہے۔ مغربی معاشرہ آج اخلاقی ذلت کے جن گڑھوں میں پڑا ہے کہ بچہ ہی ماں ہی کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ باپ کا نام پوچھا ہی نہیں جائے۔ حرام بچوں کی پرورش کیلئے ادارے قائم کر دیئے جائیں۔ نکاح کا تصور مٹ جائے۔ کتے بلیوں کی سی زندگی نارمل جانی جائے۔ سطحی نمائشی قوانین عورت کے تحفظ کیلئے بنائے جائیں لیکن حال سمندر والا ہو کہ چہار جانب پانی ہے اور پیاس بُجھانے کو قطرہ نہیں۔ آج دنیا کی مظلوم ترین ہستی مغرب میں عورت ہے۔ لہٰذا مسلمان عورت کا نقاب نوچ کر آپ اپنی عورت کی تسکین و راحت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے۔ اسے بھی عزت، وقار، تکریم و تقدیس کا حق حاصل ہے۔ اُسے کپڑے پہننے کی اجازت دیجئے۔ اسے اسکی نسوانیت لوٹا دیجئے۔ اسے مامتا کے عمیق خوبصورت جذبوں سے محروم کر کے مزدور نہ بنائیے۔ اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ معاشروں کی سلامتی اور گھروں کی سکنیت! حجاب‘ نقاب مسلمان عورت کا وہ شاندار قلعہ ہے جس کے تحفظ میں وہ معاشرے کے اسفل عنصر کی ہولناکیوں سے محفوظ و مامون پاکیزہ زندگی پُرسکون زندگی گزارتی ہے۔ ایسی ہی گود سے بقول اقبالؒ شبیرؓ ڈھل کر نکلتے ہیں۔ (کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری!) مروہ شر بینی سے پوچھیئے حجاب کی قدروقیمت! سرکوزیوں کا اندیشہ درست ہے کہ نقاب مغرب کی عورت کو حسرتوں میں مبتلا کر رہا ہے مسلمان عورت کی پُرسکون، باحیا، باوقار زندگی اسے مغربی مرد ک یغلامی کے چُنگل سے نجات حاصل کرنے پر مائل بہ اسلام کر رہی ہے۔ واقعی نقاب کے آگے ان کا پورا نظام لرز رہا ہے! کیونکہ … جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا!