عظیم مفسر،مفکر،مدبراور مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر عاطف وحید نے میزبان افتخار سندھو صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ یہودیوں نے طے کیا تھا کہ وہ آپس میں سودکا لین دین نہیں کریںگے ۔ان کی مذہبی کتابوں میں یہی تصور موجود ہے ۔چنانچہ جب وہ غیر یہودیوں کو برابر کاانسان نہیں سمجھتے تو ان کی جان ،مال ،عزت و آبرو ویسی محترم نہیں ہے جیسی یہودیوں کی ہے ۔چنانچہ ان سے سود لینے میں کوئی مضائقہ خیا؛ل نہیں کرتے ۔انہوں نے اپنی مذہبی پیشوائیت سے ایک فتویٰ لیکر غیر یہودی کو سود کے اندر جکڑنے کا اپنی طرف سے دینی فریضہ بنا لیا ہے ۔قرآن مجید نے یہودیوں کے جو سب سے بڑے جرم بیان کئے ہیں، ان میں ایک ان کا سود میں ملوث ہونا ہے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے میرے خیال میں یہ کنفیوژن رفع ہوسکتی ہے اگر ہم ویسٹرن فلاسفی اور ہسٹری کا مطالعہ کریں اور وہاں دیکھیں کہ وہاں ربا اور انٹرسٹ کسے کہا جاتا تھا۔یوزری کسے کہا جاتا تھا اور کیا وہ یوزری صرف ضائفہ اور مضائفہ قسم کی تھی،یا وہ ایک پلین انٹرسٹ کیلئے بھی تھی ۔ پھر اسے کیسے ان چالا ک لوگوں نے جیسے کہ علامہ اقبال ؒ نے جو باتیں کیں ،انہوں نے یہودیوں پر بہت نظررکھی ہوئی تھی کہ ان کے عیارانہ ذہن کی پیداوار ہے کہ کس طرح انہوں نے پوری دنیا کے مالیاتی نظام کو اپنے کنٹرول میں کیا۔ان مغالطوں کو دور کرنے کیلئے افہام و تفہیم کا جو بھی راستہ ہے وہ تو ہمیں اختیار کرنا ہی چاہئے ۔لیکن یہ ہے کہ ہمیں پاکستانی ہونے کے اعتبار سے اس لئے اس پر کامل یقین ہوجانا چاہئے کہ یہ ہماری خرابی ، خاص طور پر معاشی اوراقتصادی بدحالی کی بہت بڑی وجہ ہے ۔آپ اس کا بھی اگرباریک بینی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں ہم نے رفتہ رفتہ اپنی معیشت میں سود کے ضمن میں جو رویے اختیار کئے ہیں، اس کی وجہ سے ہم ایک تسلسل کے ساتھ معیشت میں بدحالی کا شکار ہوتے گئے ہیںاور رسول اللہ ﷺ کی ایک پیشین گوئی ہے جوہمارے حق میں پوری ہوئی ہے کہ جس قوم میں رباکا لین دین عام ہوجاتا ہے (یہاں قوم سے مراد خاص طور پرمسلمانوں کو ذہن میں رکھ لیجئے )اللہ تعالیٰ انہیں معاشی بدحالی کے عذاب میں پکڑ لیتا ہے ۔رشوت کا لین دین عام ہوجاتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں پکڑ لیتا ہے ۔ وہ مرعوب قوم ہوتی ہے وہ ایک دم خوف زدہ ہوکر دشمن کی ایک فون کال پر سرنڈر کر جاتی ہے۔ اسی طرح جس قوم میں سود کا لین دین عام ہوجاتا ہے ۔آج آپ دیکھیں کہ آ پ کے سالانہ بجٹ میں کو ئی ایک پیسہ بھی اصل زر کی واپسی کا نہیں ہے ،صرف سود کی واپسی کا ہے اور وہ بھی اتنی زیادہ ہے کہ حکومت کو سود کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینے پڑ ے ہیں۔حکومت نے جس شرح سود پر قرضے لئے ہیں، اگر اس کو دیکھیں تو اللہ ہی ہمیں اس تباہی سے بچائے تو بچائے ۔یہ لانگ ٹرم قرضے ہیںجو 13.80فیصد پر لئے گئے ہیں۔حکومت کہتی ہے کہ ہم اس لئے بلند شرح سود پر قرضے لے رہے ہیں تاکہ انفلیشن کنٹرول ہو،انا للہ ۔پاکستان جیسی اکانومی ہو ،اس پر حکومت لانگ ٹرم قرضے لے رہی ہو اور پھر ہم کہیں کہ اس سے انفلیشن کنٹرول ہوگی، یہ خیال تو آج تک کسی اکانو مسٹ کے ذہن میں دور دور تک نہیں آسکتا۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ معیشت کی بہتری کے تمام تردعوئوں کے باوجود بجلی تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے ۔قیمتیں کنٹرول میں نہیں آرہیں اور اسی طرح روزمرہ کے استعمال کی عام چیزوں کی قیمتیں بھی کنٹرول میں نہیں آرہیں۔ اس حوالے سے میں عرض کرونگاکہ ہمیں اپنے ذہنوں کو یکسو کرلینا چاہئے کہ اگر کوئی متبادل نظام آتا ہے، جس میں سود کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے تو اس سے ہمیں قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ۔بلکہ عوامی اعتماد کو ختم کرتی ہیں کیونکہ سب کے ایک جیسے دعوے اور نعرے ہیں جس سے عام آدمی کنفیوژہوجاتا ہے کہ آیا یہ پورے طور پر اسلامی ہے بھی یا نہیں ہے ۔ان کا طریقہ کار بھی ایک جیسا ہوتا ہے ۔متوازی نظام کے خاتمہ کیلئے جدوجہد بھی ہورہی ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ حضرات اس میں جو بھی تعاون فرمائیں گے ، ان تجاویز کو بھی سامنے رکھا جائے گا۔مجھے امید ہے کہ ہم اس فیصلے کو حاصل کرلیں گے جو 1999ء کو سپریم کورٹ کے شرعی بنچ نے دیا تھا جس کے مطابق ہر طرح کے سود اور انٹرسٹ کو حرام قراردیا گیاتھااور ختم کرنے کا کہا گیا تھا،اس کے مطابق وہ تمام سودی معاہدے اور قوانین ختم ہوں اور ان کی جگہ وہ چیزیں آئیں جو شریعت کے مطابق ہوں ۔
اس یادگار سیمینارسے مولانا امیر حمزہ،اوریا مقبول جان۔ مجیب الرحمن شامی،سابق چیف اکانومسٹ پرویز طاہر ، ڈاکٹر فیاض رانجھا اور سیمینار کے میزبان جناب افتخار سندھو نے بھی خطاب کیا۔ان کی تقاریر کا خلاصہ بھی یہاں پیش کیا جائے گا۔ پی سی آئی اے کے معمول کے مطابق جناب پروفیسرسید محفوظ قطب نے میزبان کواپنی خوبصورت خطاطی کا منفرد نمونہ پیش کیا۔سرور حسین نقشبندی نے اپنے میگزین مدحت کا تازہ شمارہ ہدیہ کیا اور ڈاکٹر آصف محموجاہ نے اپنی تازہ ترین کتاب بھی پیش کی جس میں اپنے ساتھ پیش آنے والے خوفناک حادثے اور پھر اس سے بھی زیادہ پر خطر علاج کی داستان رقم کی گئی ہے۔یہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب تقریب تھی اور ہر کوئی ایک دوسرے سے کم وبیش ڈیڑھ سال بعد مل کر انتہائی مسرور دکھائی دیا تھا۔ہم نے جناب سعید آسی کو مس کیا جو قرنطینہ میں تھے۔طاہر جمیل نورانی اور سابق ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک سعید چمن بھی ہماری بحث میں شریک نہ ہوسکے۔
٭…٭…٭
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024