عمران خان دنیا کے بہترین کھلاڑی ہیں۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا۔ اپنوں سے محبت بھی ان کی شخصیت کا جزو لاینفک ہے۔ ماں باپ سب کے اچھے ہوتے ہیں مگر مرحومہ ماں کی یاد میں شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانا۔ ہر ایک کا نصیب نہیں۔ عمران خان کی طرح مذکورہ ہسپتال بھی عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یقیناً بڑے لوگ بڑے کام کرتے ہیں۔ عمران خان کی تیسری بڑی خوبی عوام سے محبت کرنا ہے۔ جو ان کی ساری زندگی کا خاصہ ہے۔ فی الحقیقت عمران خان کا عوام سے رشتہ اٹوٹ ہے۔ یہ عوام کیلئے جیتے ہیں اور عوام ان پر جان چھڑکتے ہیں۔ یہ بحیثیت کھلاڑی اور کپتان عوام میں مقبول تھے۔
ہسپتال کی تعمیر میں عوام نے بھرپور مالی تعاون کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کا اثاثہ ہیں اور پاکستانی انتظامیہ بھی ان کیلئے عام طور پر دامے، درمے، سخنے معاون رہی ہے۔ ہسپتال کی تعمیر و تکمیل اسی عوامی و سرکاری /پاکستانی انتظامیہ کا بین مظہر ہے۔ عمران خان ایسی خوش قسمت شخصیت ہیں جن کو عالمی عوامی اور انتظامیہ نے بھی بھرپور محبت اور پذیرائی دی اگر عمران خان کی شخصیت اور کارناموں کے حوالے کہا جائے کہ وہ عوامی قومی اور عامی اثاثہ ہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔
ورلڈ کپ ٹیم ورک کی جیت اور کپتان کی قیادت کا کمال تھا۔ کھلاڑی کی پہلی اور شاید آخری خوبی سب کو ساتھ لیکر چلنا ہے۔ عمران سب کو ساتھ لیکر چلنے کے عادی ہیں۔ کپتان کی کامیابی ہدف کی نشاندہی اور حصول کیلئے ٹیم کی تیاری اور طریق کار پر منحصر ہے۔ عمران خان عرصہ دراز سے قومی سیاست کا حصہ ہیں۔ عوامی و قومی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے عوامی ہمدردی اور قومی سلامتی کیلئے فوجی اور جمہوری حکمرانوں کا بھرپور ساتھ دیا یہ جنرل پرویز مشرف کے حامی بھی رہے اور نواز شریف و بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی کھڑے رہے ہیں۔ بالآخر سب سے مایوس ہو کر اپنی سیاسی پارٹی ” انصاف“ بنا لی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کپتان نے انصاف کے پلیٹ فارم سے عوامی جذبات خیالات اور قومی مفادات کی پرزور بات کی۔ ڈرون حملے ہوں یا نیٹو سپلائی کے خلاف جماعتی دھرنا عوامی جذبات کی بھرپور نمائندگی ہے۔ مہنگائی، غربت اور بنیادی انسانی ضروریات کی نایابی پر سرکار کے خلاف نکتہ چیں ہونا، عوامی درد کو محسوس کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کے سخت ناقد ہیں۔ القصہ اہداف کی نشاندہی درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان نے اہداف کے حصول کیلئے ٹیم ورک کر لیا ہے؟ ٹیم ورک کی روح ایثار اور اتحاد ہے۔ جس سے دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔ وگرنہ ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا، دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کا عمل ہے۔ کپتان نیک نیت ہیں اور محبت والے بھی ہدف جانتے ہیں اور دشمن کو پہچانتے ہیں۔ عوام، قوم اور مقصد سے بے لوث محبت جانثاری کا درس دیتی ہے۔ اقامت کا نہیں۔ پروانے اور دیوانے غول بنا کر اکٹھے اڑتے ہیں۔ جدا جدا نہیں ٹیم مختلف الخیال کھلاڑیوں سے بنتی ہے جو مقصد اور ہدف کے حصول کیلئے متحد اور منظم اور نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں اگر مقصد ایک ہو تو راستے علیحدہ نہیں ہوتے ہیں۔ عوام کے جذبات اور بے بسی کی نمائندگی کرنا آسان مگر دکھوں کا عملی مداوا کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کے مسائل ایک کپتان کے بس کی بات نہیں۔ یہ کئی کپتانوں کی متحدہ حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔ الیکشن زیادہ دور نہیں۔ دشمن کے اہداف میں جمہوریت میں تواتر اور محاذ آرائی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خیال پارٹیوں کا باہم اتحاد اور متحدہ حکمت عملی ہو۔ عمران خان کی خوبی ہے کہ وہ ماضی کے سیاسی حریفوں کو گلے لگا لیتے ہیں سیاسی فیصلوں کی غلطی کی معافی مانگتے ہیں اور آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ محبت ایثار کا نام اور کام ہے۔ منہ زوری اور سربراہی کا شوق فضول نہیں۔
بھٹو کے خلاف عوامی نظام مصطفیٰ تحریک متحدہ قیادت کی منہ زوری کی نذر ہو گئی تھی کیونکہ بھٹو کی معزولی کے بعد تمام قائدین الیکشن کے انعقاد سے قبل ہی اپنے آپ کو وزیر اعظم اور صدر سمجھنے لگے اور عوام میں ”نو ستارے، جیت کے ہارے“ مصرع مقبول ہو گیا--- کپتان کو موجود ہ حالات میں حقیقت پسند رہنا چاہئے۔ امریکہ و اتحادی ممالک کے خلاف وسیع تر اور مضبوط تر انتخابی اتحاد بنانا چاہئے۔ یہ اتحاد کامل ہونا چاہئے یہ نہیں کہ امریکہ و اتحادی ممالک کی مخالفت کریں اور اتحادی بھارت اور افغانستان سے تجارت کریں۔ آدھی محبت الٹی لڑائی ہے۔ محبت بھی وہی کامیاب ہوتی ہے جو کامل ہو۔ کپتان سے گزارش ہے کہ چند نشستیں جیتنے اور چند نشستیں ہارنے کی سیاست سے بالا تر ہوں اور چند نشستوں کی کامیابی کے بعد وزیراعظم یا صدر بننے کا خواب مت دیکھیں۔ یہ سیاست اور جمہوریت نہیں بلکہ جوڑ توڑ اور محاذ آرائی کا پیش خیمہ ہے۔ کپتان کی کامیابی اصول کی پاسداری اور بہترین مگر کامیاب حکمت عملی میں ہے۔ منصب اور سرکار سازی کی تگ و دو میں نہیں۔
ہسپتال کی تعمیر میں عوام نے بھرپور مالی تعاون کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کا اثاثہ ہیں اور پاکستانی انتظامیہ بھی ان کیلئے عام طور پر دامے، درمے، سخنے معاون رہی ہے۔ ہسپتال کی تعمیر و تکمیل اسی عوامی و سرکاری /پاکستانی انتظامیہ کا بین مظہر ہے۔ عمران خان ایسی خوش قسمت شخصیت ہیں جن کو عالمی عوامی اور انتظامیہ نے بھی بھرپور محبت اور پذیرائی دی اگر عمران خان کی شخصیت اور کارناموں کے حوالے کہا جائے کہ وہ عوامی قومی اور عامی اثاثہ ہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔
ورلڈ کپ ٹیم ورک کی جیت اور کپتان کی قیادت کا کمال تھا۔ کھلاڑی کی پہلی اور شاید آخری خوبی سب کو ساتھ لیکر چلنا ہے۔ عمران سب کو ساتھ لیکر چلنے کے عادی ہیں۔ کپتان کی کامیابی ہدف کی نشاندہی اور حصول کیلئے ٹیم کی تیاری اور طریق کار پر منحصر ہے۔ عمران خان عرصہ دراز سے قومی سیاست کا حصہ ہیں۔ عوامی و قومی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے عوامی ہمدردی اور قومی سلامتی کیلئے فوجی اور جمہوری حکمرانوں کا بھرپور ساتھ دیا یہ جنرل پرویز مشرف کے حامی بھی رہے اور نواز شریف و بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی کھڑے رہے ہیں۔ بالآخر سب سے مایوس ہو کر اپنی سیاسی پارٹی ” انصاف“ بنا لی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کپتان نے انصاف کے پلیٹ فارم سے عوامی جذبات خیالات اور قومی مفادات کی پرزور بات کی۔ ڈرون حملے ہوں یا نیٹو سپلائی کے خلاف جماعتی دھرنا عوامی جذبات کی بھرپور نمائندگی ہے۔ مہنگائی، غربت اور بنیادی انسانی ضروریات کی نایابی پر سرکار کے خلاف نکتہ چیں ہونا، عوامی درد کو محسوس کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کے سخت ناقد ہیں۔ القصہ اہداف کی نشاندہی درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان نے اہداف کے حصول کیلئے ٹیم ورک کر لیا ہے؟ ٹیم ورک کی روح ایثار اور اتحاد ہے۔ جس سے دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔ وگرنہ ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا، دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کا عمل ہے۔ کپتان نیک نیت ہیں اور محبت والے بھی ہدف جانتے ہیں اور دشمن کو پہچانتے ہیں۔ عوام، قوم اور مقصد سے بے لوث محبت جانثاری کا درس دیتی ہے۔ اقامت کا نہیں۔ پروانے اور دیوانے غول بنا کر اکٹھے اڑتے ہیں۔ جدا جدا نہیں ٹیم مختلف الخیال کھلاڑیوں سے بنتی ہے جو مقصد اور ہدف کے حصول کیلئے متحد اور منظم اور نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں اگر مقصد ایک ہو تو راستے علیحدہ نہیں ہوتے ہیں۔ عوام کے جذبات اور بے بسی کی نمائندگی کرنا آسان مگر دکھوں کا عملی مداوا کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کے مسائل ایک کپتان کے بس کی بات نہیں۔ یہ کئی کپتانوں کی متحدہ حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔ الیکشن زیادہ دور نہیں۔ دشمن کے اہداف میں جمہوریت میں تواتر اور محاذ آرائی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خیال پارٹیوں کا باہم اتحاد اور متحدہ حکمت عملی ہو۔ عمران خان کی خوبی ہے کہ وہ ماضی کے سیاسی حریفوں کو گلے لگا لیتے ہیں سیاسی فیصلوں کی غلطی کی معافی مانگتے ہیں اور آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ محبت ایثار کا نام اور کام ہے۔ منہ زوری اور سربراہی کا شوق فضول نہیں۔
بھٹو کے خلاف عوامی نظام مصطفیٰ تحریک متحدہ قیادت کی منہ زوری کی نذر ہو گئی تھی کیونکہ بھٹو کی معزولی کے بعد تمام قائدین الیکشن کے انعقاد سے قبل ہی اپنے آپ کو وزیر اعظم اور صدر سمجھنے لگے اور عوام میں ”نو ستارے، جیت کے ہارے“ مصرع مقبول ہو گیا--- کپتان کو موجود ہ حالات میں حقیقت پسند رہنا چاہئے۔ امریکہ و اتحادی ممالک کے خلاف وسیع تر اور مضبوط تر انتخابی اتحاد بنانا چاہئے۔ یہ اتحاد کامل ہونا چاہئے یہ نہیں کہ امریکہ و اتحادی ممالک کی مخالفت کریں اور اتحادی بھارت اور افغانستان سے تجارت کریں۔ آدھی محبت الٹی لڑائی ہے۔ محبت بھی وہی کامیاب ہوتی ہے جو کامل ہو۔ کپتان سے گزارش ہے کہ چند نشستیں جیتنے اور چند نشستیں ہارنے کی سیاست سے بالا تر ہوں اور چند نشستوں کی کامیابی کے بعد وزیراعظم یا صدر بننے کا خواب مت دیکھیں۔ یہ سیاست اور جمہوریت نہیں بلکہ جوڑ توڑ اور محاذ آرائی کا پیش خیمہ ہے۔ کپتان کی کامیابی اصول کی پاسداری اور بہترین مگر کامیاب حکمت عملی میں ہے۔ منصب اور سرکار سازی کی تگ و دو میں نہیں۔