ایف اے ٹی ایف کا اجلاس شروع‘ پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے یا نہ رہنے کا اعلان 25 فروری کو متوقع
ایف اے ٹی ایف کا 3 روزہ ورچوئل اجلاس گزشتہ روز 22 فروری سے پیرس میں شروع ہوگیا۔ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں برقرار رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ بھی ہو گا۔ اکتوبر 2020ء کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کی روک تھام کے 27 نکاتی ایکشن پلان کے 6 اہداف کیلئے فروری 2021ء تک گرے لسٹ میں رہے گا۔ اس پیش رفت سے واقف سرکاری ذرائع نے بتایا پاکستان بقیہ 6 سفارشات پر بھی عمل کرچکا ہے اور اسکی تفصیلات بھی ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ کو بھجوائی جاچکی ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اراکین اجلاس کے دوران پاکستان کے ردعمل کا جائزہ لیں گے، پاکستان نے قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد میں بھی خاصی پیشرفت کی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا ہے جو بڑی حد تک عالمی واچ ڈاگ کے مطالبات کے مطابق ہیں۔ نکات پر عمل درآمد کو میرٹ بنا کر فیصلہ ہوا تو پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال دیا جائیگا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے قیام کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ یعنی پیسے کی غیرقانونی ترسیل کو روکنا ہے۔ 1989ء میں تشکیل دی جانیوالی اس تنظیم کے ارکان کی تعداد 37 ہے۔ ان میں دو علاقائی تنظیمیں اور 35 ممالک شامل ہیں۔ بھارت اس تنظیم کا رکن ہے۔ پاکستان اسکی ذیلی تنظیم ایشیاء پیسفک گروپ کے ذریعے اس سے وابستہ ہے۔ بلیک لسٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو مناسب دہشت گردی کیلئے استعمال ہونیوالی منی لانڈرنگ کیخلاف قانون سازی کیلئے عالمی اداروں سے تعاون نہیں کرتے۔ ایسے ممالک کو ریاستی طور پر منی لانڈرنگ میں ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ گرے لسٹ میں ایسے ممالک کو رکھا جاتا ہے جن کی منی لانڈرنگ کیلئے قانون سازی یا قوانین پر عمل ناکافی ہو۔ پاکستان کو ایسے ہی الزامات کے جواز پر گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک کسی بھی ملک کا نام ان لسٹوں میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کر سکتے ہیں۔ ممبر ممالک میں سے تین ممالک مخالفت کریں تو قرارداد مسترد ہو جاتی ہے۔ گویا کوئی سے تین ممالک کو ویٹو کی حیثیت حاصل ہے۔ گرے یا بلیک لسٹ میں اگر کسی ملک کا نام شامل ہو جائے تو یہ نام نکلوانے کیلئے 15 ممالک کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ آج پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے 37 میں سے 15 ممالک کی حمایت درکار ہے۔ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرانا چاہتا ہے مگر آج بھارت کی یہ خواہش بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔
2008ء میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ پھر 2012ء سے 2015ء تک اسی لسٹ میں شامل رہا۔ 2018ء میں پھر اس وقت گرے لسٹ میں شامل کیا گیا جب پاکستان امریکہ تعلقات میں کشیدگی کافی زیادہ تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کو افغانستان میں براہ راست کردار ادا نہ کرنے پر صدر ٹرمپ کی طرف سے جنگ کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ پاکستان کو اس وقت تین ملک بھی قرارداد کی مخالفت کرنے والے نہ مل سکے۔ صرف ترکی نے مخالفت کی جبکہ چین اگلے سال اس تنظیم کی صدارت کا امیدوار تھا۔ اسے شاید اپنی غیرجانبداری کا اظہار مقصود تھا۔ بھارت کی پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی لابنگ کام آئی اور اسی کی قرارداد پر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ منی لانڈرنگ کی کسی طور پر حمایت نہیں کی جاسکتی۔ خصوصی طور پر دہشت گردی کے حوالے سے رقوم کی غیرقانونی ترسیل تو کسی بھی سطح پر قابل قبول نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان بطور ریاست کبھی منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں رہا مگر بھارت نے ایف اے ٹی ایف کے رکن ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرادیا۔
یہاں اس سوال کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا گرے لسٹ یا بلیک لسٹ میں واقعی اس ملک کو شامل کیا جانا چاہیے جو ایسے معاملات میں ملوث ہوتا ہے جس کے الزامات کسی بھی ملک کی طرف سے عائد کردیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کئے جانے سے اس سوال کی نفی ہو جاتی۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے دیگر عوامل بھی تھے۔ پاکستان کا نام بھارت کی طرف سے اسکے پاکستان کیخلاف بغض و عناد کی وجہ سے شامل کیا گیا۔ امریکہ کے ایماء پر اس قرارداد کی مطلوبہ تعداد میں ممالک کی مخالفت سامنے نہیں آسکی۔ اکتوبر 2020 ء میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے جو اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا پاکستان نے کماحقہ وہ پورے کر دیئے ہیں۔ پاکستانی حکام کی طرف سے یقین ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان رواں اجلاس کے دوران گرے لسٹ سے نکل آئیگا مگر یہ اتنا آسان اس لئے بھی نظر نہیں آرہا کہ عالمی سیاست پاکستان کی مواقفت میں نہیں ہے۔ آج ایف اے ٹی ایف کا اجلاس پیرس میں ہو رہا ہے۔ فرانس نے پہلے ہی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی سفارش محض اس بنیاد پر کر دی کہ ناموس رسالت کے حوالے سے فرانسیسی صدر کی خباثت پر پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔ ادھر ڈینئل پرل کے قتل کے فیصلے پرامریکہ بھی تحفظات کا اظہار کرتا آرہا ہے۔ بلاشبہ فیصلہ میرٹ پر ہوا تو پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائیگا جبکہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں جانے کی مخالفت کرنے کیلئے چین‘ ترکی اور ملائشیا نے یقین دہانی کرائی ہے۔
ادھر جائزہ لیا جائے تو بھارت گرے لسٹ میں شامل ہونے کے کرائٹیریا پر پورا اترتا ہے۔ مگر وہ محفوظ اس لئے رہے گا کہ اسکی حمایت میں کئی ممالک قرارداد مسترد کرنے کیلئے تیار ہونگے۔ حالانکہ جن بنیادوں پر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا‘ بھارت اس سے کہیں زیادہ دہشت گردوں کی سرپرستی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے جس کے ٹھوس ثبوت امریکہ سمیت کئی ممالک نے دیئے ہیں۔ چند ماہ قبل بھارت کے 44 بنک ریاستی دہشت گردی میں منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے تھے لیکن اس کیخلاف ایسی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جس سے ایف اے ٹی ایف کے دہرے معیار کا عندیہ ملتا ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024