طرابلس/ نیویارک/ اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک، نمائندہ خصوصی+سہیل عبدالناصر / سٹاف رپورٹر) لیبیا میں قذافی مخالفین نے غیر ملکی افواج کی مدد سے مسلسل چھ ماہ کی لڑائی کے بعد گزشتہ روز دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرکے معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ قذافی کے دو بیٹوں سیف الاسلام اور محمد سعد کو حراست میں لے لیا گیا۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی تصدیق کی ہے جبکہ معمر قذافی منظر سے غائب ہےں خیال کیا جاتا ہے وہ کہیں بنکر مےں موجود ہےں۔ بن غازی سمیت مختلف شہروں میں شہری مخالفین فتح کا جبکہ لیبیائی باشندے امریکہ مےں جشن منا رہے ہیں۔ سرکاری ٹی وی کی نشریات بند کر دی گئی ہیں۔ معمر قذافی نے مخالفین کو مذاکرات کی پیشکش بھی کی جو مسترد ہوگئی ۔ مخالفین کا قافلہ جیسے ہی طرابلس کے سبز چوک پہنچا تو شہریوں نے استقبال کیا۔ اس کا نام بدل کر شہداءچوک رکھ دیا گیا۔ نیٹو نے قومی عبوری کونسل کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی کا اظہار بھی کیا۔ قبل ازیں لیبیائی حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے باغیوں کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی اور کہا 24گھنٹے مےں جھڑپوں میں 1300 افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ پانچ ہزار زخمی ہیں۔ کل 376افراد مارے گئے تھے۔ رائٹرز کے مطابق ایک باغی عہدیدار عبدالرحمن نے فون پر بتایا کہ وسطی طرابلس میں قذافی نے اپنی رہائشگاہ کے قریب ٹینک تعینات کردئیے ہیں جو ہمارے حملوں کی شدید مزاحمت کررہے ہیں۔ ہر طرف پوزیشن سنبھال رکھی ہیں۔ گھمسان کی لڑائی جاری ہے ان میں سے بعض انقلابی قذافی کے محل باب العزیزیہ کے بالکل قریب ہیں جہاں قذافی کی فوجیں مزاحمت کی کوشش کررہی ہیں۔ عبوری کونسل کے سربراہ محمد الجبریل نے طرابلس پر قبضہ کے دعویٰ کے بعد اپنی نشری تقریر میں کہا کہ طرابلس کے 90فیصد حصے پر قبضہ ہے۔ معمر قذافی کا 42 سالہ اقتدار ختم ہوچکا۔ قذافی کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ ادھر امرےکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ معمر قذافی جان لےں کہ اب ان کا لےبےا پر کنٹرول نہےں رہا اور اب ملک کے مستقبل کا فےصلہ عوام کے ہاتھوں مےں ہے۔ معمر قذافی کو اب اقتدار چھوڑنا ہوگا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ کرنل معمر قذافی کے مستقبل کا فیصلہ انقلابی اور لیبیا کے شہری کرینگے۔ حماس کے ترجمان نے لیبیائی عوام کی فتح قرار دیا۔ جنوبی افریقہ کے وزیر خارجہ نے کہا قذافی کی گرفتاری کی صورت مےں مخالفین کی حکومت کو تسلیم نہیں کرینگے۔ انہیں لینے طیارہ نہیں بھیجا۔ مخالفین نے ترکی مےں سفارتخانے کی عمارت سے قذافی حکومت کا جھنڈا اتار دیا۔ علاوہ ازیں خام تیل کی قیمتوں مےں 1.8فیصد کمی ہوگئی۔ مصر اور عرب لیگ نے عبوری کونسل کی ممکنہ حکومت کو تسلیم کر لیا۔ پینٹاگون کے ترجمان نے کہا امریکہ لیبیا مےں فوج اتارنے کا کوئی منصوبہ رکھتا ہے نہ قذافی کے ٹھکانے کا پتہ ہےں تاہم وہ فرار نہیں ہوئے لیبیا مےں موجود ہےں۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ طرابلس کے 90 فیصد حصے پر قذافی مخالفین کا قبضہ ہو چکا ہے، اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہےں۔ کنٹیکٹ گروپ کے سفیروں کا اجلاس پرسوں ہوگا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے رواں ہفتے لیبیا کے بارے مےں خصوصی اجلاس طلب کر لیا تاہم ایک بیان مےں انہوں نے کہا کہ قذافی کی فورسز لڑائی روک دیں تاکہ اقتدار کی منتقلی کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو سکے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ کرنل معمر قذافی اور ان کے بیٹوں اور ان کے انٹیلی جنس سربراہ کی گرفتاری سے متعلق ہیگ مےں قائم جنگی جرائم کے ٹربیونل کے فیصلوں کا احترام کریں۔ ادھر مخالفین نے معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام اور سعد محمد کےخلاف لیبیا مےں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں بین الاقوامی عدالت انصاف کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق قذافی کے مخالفین کو دو نعشیں ملی ہےں۔ خیال ہے کہ ان مےں سے ایک قذافی کے ایک بیٹے اور دوسری انٹیلی جنس چیف عبدالعلی کی ہو سکتی ہے۔ لیبیا میں قذافی مخالفین نے دارالحکومت طرابلس میں اس علاقے پر بھی قبضہ کر لیا ہے جہاں پاکستانی سفارت خانہ ہے۔ لڑائی کے باعث دو روز سے پاکستانی سفارت خانہ بند ہے۔ ایک سکیورٹی گارڈ اور دو پاکستانی ملازم عمارت میں موجود ہیں۔ پاکستانی سفیر اور نائب سفیر پہلے ہی وہاں سے تبادلے کرا چکے ہیں۔ سفارتی امور نمٹانے والے ناظم الامور خالد حسین سمیت ستائس افراد پر مشتمل تمام عملہ دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں اپنی رہائش گاہوں میں محصور ہے۔ مخالفین نے پاکستانی سفارت خانہ کے سکول کے اندر داخل ہو کر معمر قذافی کی تصاویر اور تمام باقیات ہٹا دیں لیکن ابھی وہ پاکستانی سفارتخانہ کے اندر داخل نہیں ہوئے ہیں۔ اتوار کی شب نوائے وقت کے رابطہ کرنے پر سفارت خانہ کی عمارت میں موجود پاکستانی سکیورٹی گارڈ محمد یونس نے یہ تفصیلات بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سردست یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قذافی مخالف فوجوں کا رویہ دوستانہ ہے یا معاندانہ لیکن یہ پورا علاقہ ان کے زیر قبضہ ہے۔ ہر گلی محلے‘ سڑک اور شاہراہ پر ان کا کنٹرول ہے۔ نقل و حرکت ناممکن ہو چکی ہے۔ چند روز قبل اشیا خورد و نوش کا ذخیرہ کر لیا تھا کیونکہ کئی روز پہلے سے دکانیں بند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ پاکستانی بہت بڑی تعداد میں لیبیا سے نکل چکے ہیں‘ باقی اپنی مرضی سے یہاں مقیم ہیں اور کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ سفارتخانہ کے ناظم الامور بھی دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے افریقہ کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں لیکن ہمیں سفارتخانہ یا لیبیا چھوڑنے کی کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پوری طرح سقوط طرابلس کا منتظر ہے اور طے یہ کیا گیا ہے لیبیا کے عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔ لیبیا کی صورتحال کے بارے میں نوائے وقت کے استفسار پر دفتر خارجہ کے ایک ذرائع نے یہ بات بتائی۔ دفتر خارجہ کی ترجمان میسر نہیں تھیں اور نہ دفتر خارجہ فوری طو ر پر سرکاری آرا ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے معمر قذافی کے ساتھ دیرینہ روابط کو فراموش کر کے قطع تعلق کرنا خاصا مشکل کام ہے لیکن اب آزاد ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ایک آدھ روز مں معمر قذافی کی قسمت کا تعین بھی ہو جائے گا اور پاکستان سرکاری اعلان کے لئے اسی لمحہ کا منتظر ہے۔
لیبیا
لیبیا