فلسفہ تو یہی کہتا ہے کہ یہ سارے کا سارا کاروبار حیات نقل کے زور پر چل رہا ہے، اسکے باوجود امتحان میں نقل قابل قبول نہیں تو کیوں؟ ایران توران میں اس سوال کی کوئی اہمیت ہے اور نہ لوگوں کے پاس ایسی باتوں پر سوچنے کیلئے اب وقت ہے۔ سبب یہ ہے کہ دنیا اس طرح کے بہت سے سوال بہت پہلے حل کر کے آگے بڑھ چکی۔ اگر یہ سب ہو چکا اور دنیا اس منزل سے گزر چکی ہے تو پھر اصل سوال یہ ہوا کہ سندھ ابھی تک اس الجھن میں کیوں گرفتار ہے اور کیوں اپنے دیس کے اس قرئیے میں امتحانی نقل کے تعلق سے ہیجان بپا رہتا ہے اور میٹرک انٹر کے امتحانات کے زمانے میں اس ناسور کاتذکرہ ہمیں شرمندگی کے احساس سے دوچار کردیتا ہے۔
ہومیو پیتھی طریقہ علاج کا معالج ہو یاکوئی سنجیدہ اور حقیقی ماہر سماجیات، وہ کسی تکلیف کی شکایت سن کر ظاہری علامت کے پیچھے بھاگ نہیں اٹھتا بلکہ اس مرض کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جس کا اظہار کسی تکلیف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جیسے ان دنوں نقل کے مسئلے نے ہمیں پریشانی سے دوچار کررکھا ہے۔اس وقت سندھ میں مختلف سطح کے امتحانات جاری ہیں اور ہمارے بچے اتنے زور آور ثابت ہوئے ہیں کہ انھیں نقل سے روکنا مشکل ہی نہیں، ناممکن دکھائی دینے لگا ہے۔ یہ ہمارے بچوں یا نقل کیلئے سہولت کاری فراہم کرنے والی مافیا کی زور آوری ہی ہے کہ کمشنر سکھر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ انھیں اس کام سے روکنا ہمارے بس میںنہیں، فوج ہی کچھ کرے تو کرے۔یوں ،یہ ملک بھی اپنا ہے اور فوج بھی اپنی ہے،لہٰذا اگر اس سے مدد حاصل کربھی لی جائے توبظاہر اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ریاست کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی انجام دہی میں سول اداروں کا کمشنر صاحب کی طرح ہاتھ کھڑے کردینا اور فوج سے مدد طلب کرناکیا معنی رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں۔ انتظام ریاست کی سائنس کے ماہرین بہت پہلے بتا چکے ہیں کہ یہ علامت معاشرے کے تار و پود کے بکھر جانے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
نقل اور خاص طور پر سندھ میں نقل کے معاملے پر جب غیر معقول باتیں سننے کو ملتی ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں اور اسکے حل کیلئے الٹی سیدھی تجاویز پیش کرتے ہیں، اس مسئلے کی تاریخ سے آگاہ نہیں یا اگر تاریخ سے آگاہ ہیں تو وہ اس سے جان بوجھ کر نگاہ چراتے ہیں جو لوگ تاریخ سے آگا ہ نہیں ان سے تو کوئی شکایت نہیں لیکن سندھ حکومت اس سارے معاملے سے بریت کا اظہار ہرگز نہیں کرسکتی کیوں کہ یہ معاملہ سندھ ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی تاریخ کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔
اب سے کوئی 45 پچاس برس پہلے 1973ء کا آئین تیار کیا گیا تو بھٹو صاحب نے سندھ کو شہری اور دیہی حصوں میں تقسیم کردیا اور پھر دیہی حصوں کو تعلیم اور ملازمتوں کے حصول کے سلسلے میں میرٹ کو بنیاد بنانے کے بجائے کوٹے کا نظام رائج کیا۔اس فیصلے کی توجیہ یہ پیش کی کہ شہری علاقے چونکہ ترقی یافتہ ہیں، اس لیے دیہی علاقوں کے طالب علم ان کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔اس لیے دس برس کیلئے انھیں رعایت ملنی چاہئے۔یہ دس برس پھیلتے ہوئے اب 45 ویں برس میں داخل ہوچکے ہیں لیکن دیہی علاقے ابھی تک شہری علاقوں کے برابر ہوپائے اور نہ دیہی علاقے کوٹے کے اس ناسور سے جان چھڑانے پر تیار ہیں، حالانکہ یہ کوٹہ سسٹم ہی ہے جس نے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں شدت پسند قوم پرست تنظیموں کو طاقت فراہم کی اور یہ صوبہ تین سے زائد دہائیوں تک خاک و خون میں لوٹنیاں لگاتا رہا۔
بھٹوصاحب نے جب کوٹے کے نظام کو آئینی تحفظ فراہم کیا تو کچھ عرصے کے بعد بعض سیاسی عناصرکوجن میں شدت پسند قوم پرست حلقے پیش پیش تھے، اس میں بہت آسانیاں دکھائی دیں اور انھوں نے اپنے نوجوانوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں داخلہ اور تعلیم سے فراغت کے بعد بڑی بڑی ملازمتیں دلانے کیلئے نقل کو سہارا بنایا۔ 80 کی دہائی میں شہری علاقوں میں جب مہاجر قوم پرستی کی ہوا چلی تو دیہی سندھ کے قوم پرستوں کی دیکھا دیکھی انھوں نے شہری علاقوں میں بھی نقل کو اس جواز کے ساتھ فروغ دیا کہ اگر دیہی سندھ میں یہ جرم نہیں ہے تو شہری سندھ میں یہ جرم کیسے ہوسکتا ہے؟اب صورتحال یہ بنی ہے کہ وہ نوجوان جنھوں نے گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے دوران میں نقل کو اپنی اپنی ’’قومیت‘‘ کا سہارا بنایا تھا، اب دیہی سندھ ہو یا شہری، ہر دوجگہ پر ذمہ دار مناصب پر پہنچ چکے ہیں۔ان لوگوں کااپنا ایک گروہی مائنڈ سیٹ ہے جس سے اوپر اٹھ کر کسی معاملے کا جائزہ لینے اور فیصلہ کرنے کی وہ بہت محدود صلاحیت رکھتے ہیں۔بات کہنے کی نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو امتحانی موسم میں اپنے اپنے گروہوں کی سرپرستی بھی فرماتے ہیں۔اس طرح نقل کا یہ عذاب ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے بلکہ ادارہ جاتی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس کا بظاہرکوئی حل دکھائی نہیں دیتا ۔سکھر کے کمشنر اگر اس معاملے میں شکست تسلیم کرکے فوج سے مدد طلب کرنے کی دہائی دیتے ہیں تو اس کا سبب بھی یہی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ نقل کی اس فراوانی نے سندھ کے تعلیمی ہی نہیں سرکاری ڈھانچے کی چولیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں۔فوج کی مدد سے یہ مسئلہ وقتی طور پر دب تو سکتا ہے، مستقل طور پر حل نہیں ہوسکتا۔اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ ریاست سب سے پہلے اس مسئلے کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرے اور پھر مختلف سطحوں پر اس پر سوچ بچار کی جائے۔پہلے مرحلے میں سندھ کے شہری اور دیہی دانش وراور ماہرین تعلیم اپنی جگہ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور مسئلے کے حل کیلئے کھلے دل سے تجاویز تیار کریں۔دوسرے مرحلے میں حکومت نیک نیتی سے ان تجاویز پر عمل درآمد کیلئے اقدامات کرے۔اقدامات ایسے ہوں کہ صوبائی سطح پر سرکاری ملازمین ہوں یا اعلیٰ ترین سیاسی سطح کے ذمہ داران ، انکے سامنے سب کے سب بے دست و پا ہوجائیں۔میرے خیال میں یہ واحد ذریعہ ہے جس پر عمل کرکے سندھ کو نقل کے اس عذاب سے نجات دلاکر آنیوالی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکتا ہے،گویا اس معاملے میں بھی میثاق جمہوریت کی طرح ایک میثاق تعلیم کی ضرورت ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024