کوئٹہ میں قائد اعظم کی صحت بہتر ہو رہی تھی۔ ان کے معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور کرنل الٰہی بخش مطمئن تھے کہ محنت رنگ لا رہی ہے۔ایک شام چیک اپ کے بعد کرنل الٰہی بخش نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی صحت اتنی اچھی ہو جائے ، جتنی آج سے 7/8 برس پہلے تھی۔ قائد اعظم مسکرائے اور فرمایا ، چند سال پہلے مری بھی یہی آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں۔ اس لیے نہیں کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی یا میں موت سے ڈرتا تھا۔ ہرگزنہیں، بلکہ میں اس لیے زندہ رہنا چاہتا تھا کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت کی جو منشا ہے ، میں اُسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ وہ کام پورا ہو چکا۔ میں اپنا فرض ادا کر چکا۔ اَب میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان بن چکا ، اب یہ قوم کا کام ہے کہ اس کی تعمیر کرے۔
قائد! یہ آپ کا حسن ظن تھا۔ کسی نے کچھ نہیں کیا ، قوم نے نہ قیادت نے۔ اور بدقسمتی یہ کہ اس قوم میں بڑے لوگ پیدا ہونا بند ہو گئے۔ بونوں کا ہجوم ہے اور ہر کوئی آسمان کو چھونے کا دعویدار۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024