اب مناسب ہے ترا فیض عام ہو اے ساقی
اب دوست‘ دشمن سب کو یقین ہو چلا ہے کہ حکومت کوکوئی خطرہ نہیں۔ وہ پانچ سال پورے کریگی۔ دل کے بہلاوے کو اے پی سی ہو گئی ہے اور شاید آئندہ پھر ہو۔ ایسی نشستوں سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ اے پی سی کا دوسرا نام مشترکہ مفادات کی کونسل ہے۔ مفادات میں ٹکرائو سے فاصلہ اور اشتراک سے قربت جنم لیتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ میں اینٹ کتے کا بیر رہا اور اب ایک دوسرے کی ہم خیالی کے محتاج ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی بلڈ پریشر 2023ء کے انتخابات میں ان کو جیت کے بعد ہی نارمل ہوگا۔ بے خوفی سے بات کہنے کا سلیقہ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں اپنی شکست کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور انتخابات پر روایتی دھاندلی کا ٹھپہ لگا دیا۔ 1977ء میں پی این اے نے بھی یہی ٹھپہ لگا کر تحریک چلائی اور بوٹوں کے ساتھ بھٹو کی رخصتی اور پھر اسے سولی پر چڑھانے کا اہتمام کیا۔ جاوید ہاشمی بھی اپنی دھن کے پکے ہیں۔ چھلانگیں انہوں نے بھی خوب لگائیں۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی دونوں ڈشوں کے مزے چکھے۔ مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنیوالے عناصر کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ موجودہ سیاست میں ہر کوئی مصلحت کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ حکمران چینی ماڈل کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ 1973ء کے بعد ملک میں دو مارشل لاء لگ چکے ہیں۔ گجرپورہ اور موٹروے جیسے سانحات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ جنسی جرائم پر قوانین کی بحث جاری ہے۔ جنسی جرائم کے مقدمات میں 3 فیصد سے بھی کم میں سزا سنائی جاتی ہے۔ یہ قانون پر عمل کی ناکامی ہے۔ جنسی زیادتی کے کیسوں میں متاثرہ فریق کو پولیس کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ ایک تفتیشی کی بجائے تین انسپکٹروں پر مشتمل ٹیم تفتیش کرے۔ فرسودہ خیالات معاشرے میں عام ہیں۔ قومی سوچ محدود ہے۔ پاکستان بار کونسل کے نزدیک ملک میں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر اور احتساب کا طریق کار درست نہیں۔ وکلاء کی نظر میں نظام انصاف پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ کسی ادارے کو احتساب سے استثنیٰ انصاف کے اصولوں کیخلاف ہے۔ بار کونسل کی نظر میں ججوں کی تعیناتی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہئے۔ اس کیلئے آئین کی بالادستی ضروری ہے۔ غیر ضروری مناظروں اور مباحث سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ ملک میں سمگلنگ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ اجناس اور کرنسی بیرون ملک جبکہ منشیات اور ہتھیار اندرون ملک آرہے ہیں۔ پاک افغان اور پاک ایران سرحدوں پر سمگلنگ روکنے کیلئے 18 بازار قائم کئے جائینگے۔ انسانی سمگلنگ‘ ہتھیار اور منشیات دنیا بھرکیلئے چیلنج ہے۔ دو بازار بلوچستان اور ایک خیبر پختونخوا میں قائم ہوگا۔ اچھی خبر پٹوار کلچر کے خاتمے کی ہے۔ پولیس اور وی آئی پی کلچر تو ختم نہ ہو سکا‘ شاید پٹوار خانوں سے نجات مل جائے۔ دنیا کے 180 ممالک میں کرپشن کے حوالے سے ہمارا 120 واں نمبر ہے۔ پٹوار کلچر سب سے زیادہ بدنام ہے۔ یوں تو بدنامی ہر محکمہ نہلے پر دہلا ہے‘ لیکن پٹواری جس کو چاہے ناک کی لکیریں نکلوا دے۔ تحصیل کی سطح پر 143 ڈیجیٹل دفاتر کے باوجود ریکارڈ پٹواریوں کے پاس ہے۔ 12 ارب سے ڈیجیٹل دفاتر قائم ہوئے تھے۔ وفاق اور سندھ میں لڑائی جاری ہے۔ کراچی پیکیج کی ایک ہزار تین سو ارب کی رقم سندھ حکومت استعمال کرنا چاہتی ہے۔ متحدہ والوں نے کراچی صوبے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جنوبی پنجاب کی طرح جنوبی سندھ میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ جوں جوں موسم سرد ہوتا جائیگا‘ سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جائے گا۔ منتخب ارکان کی ٹیکس ڈائریکٹری نے پتہ دیا کہ عوام کو ٹیکس دینے کی تلقین کرنیوالے خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ نیب زدہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سب سے زیادہ 24 کروڑ 13 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے 2 لاکھ 82 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک دھیلہ بھی ٹیکس کی مد میں ادا نہیں کیا۔ دھیلے کی کرپشن نہ کرنیوالے دعویدار شہبازشریف نے 97 لاکھ 30 ہزار ٹیکس ادا کیا۔ اپوزیشن کی ناتوانی کا یہ عالم ہے کہ عددی برتری کے باوجود چِت ہے۔ حکومتی عرضی کو قانون سازی اس کا ثبوت نہیں؟ وسط مدتی انتخابات کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔