اردوان مسلم اْمّہ کے رہنما کی بجائے جنگجو ترک قوم پرست رہنما بن کر ابھر ہو رہے ہیں ساری دنیا کردوں پر ان کے حملوں کی مذمت کر رہی ہے لیکن ساری ترک قوم کیا دوست کیا دشمن جشن فاتحانہ منا رہی ہے ۔ ایران کے بعد ترکی بھی عجمی مسلم قوم پرستی کو ہوا دے رہا ہے ۔ آٹھ برس سے جاری شام کی جنگ میں نیا موڑ آگیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کی شمالی شام میں کرد باغیوں کے خلاف جنگی کارروائی نے شام میں اتحادیوں اور مخالفین کی نئی صف بندی کردی ہے۔ ترک صدر ایک اہم خارجہ پالیسی ہدف کے حصول کے قریب ہیں۔ کہاجارہا ہے کہ وہ عوامی جذبات کو ابھاررہے ہیں۔ اس جنگ نے ترک عوام میں قوم پرستی کی لہر کو پہلے ہی خوب بلند کردیا ہے۔ دنیا ترکی کے خلاف متحد ہے لیکن ترک عوام اپنے صدر کے ساتھ ہے۔ البتہ عالمی سیاسی شطرنج کی چالیں بڑے ہی دلچسپ انداز سے سامنے آرہی ہیں اور کئی سبق سکھا رہی ہیں۔
ترک سرحد کے ساتھ کرد ملیشیاء کی طویل پٹی ہے۔ ترک حملہ کردوں سے زیادہ امریکہ اور کرد اتحاد پر متصور ہورہا ہے۔ طیب اردوان کردملیشیاء کو ترکی کی حغرافیائی سالمیت اور استحکام کے لئے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ ترکی کے لئے اس خطرہ کی حقیقت کی بناء پر ہی اپوزیشن کو صدر اردوان کے فیصلے اور اقدام پر تنقید کرنے کا موقع نہیں ملا بلکہ انہیں صدر کے موقف کو قبول کرنا پڑا ہے۔ ترک سرحد پر مخالف کردملیشیاء کی مضبوطی کو عالمی سازش قرار دیاجارہا ہے کیونکہ کردملیشیاء سے ترکی کو لاحق خطرات نئے نہیں۔
اردوان کے شدید ناقد مقامی بڑے اخبار کو بھی یہ سرخی جمانی پڑی کہ ’’امریکی، یورپی، چینی، عرب، سب ترکی کے خلاف متحد ہوگئے۔‘‘ رجب طیب اردوگان کی حمایت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی فٹ بال ٹیم نے صدر اردوان کی مہم چلائی اور دو بین الاقوامی میچوں میں فوجی سلوٹ پیش کیا۔ پاپ سنگرز نے سوشل میڈیا پر اپنی حمایت ظاہر کی۔ ترکی کے سب سے بڑے ادبی میلے کے سربراہ نے پوری دنیا میں ای میلز بھیج کر ترکی کے خلاف سیاہ پراپگنڈہ کی مذمت کی۔ ایک امریکی تحقیقی ادارے جرمن مارشل فنڈ کے انقرہ آفس کے سربراہ اوزگر انلوہسارسکلی نے کہاکہ مجموعی طورپر (ترک فوجی) آپریشن کامیاب رہا ہے۔
ترکی طویل عرصے سے شام میں کرد ملیشیاء کی مخالفت کرتاآیا ہے۔ کرد ملیشیاء وائی پی جی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ بنیادی طورپر ایک گوریلا جنگجو تحریک ہے۔ دہائیوں سے یہ گوریلا تحریک ترک ریاست کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ترک حکام کے لئے خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب کرد ملیشیاء نے 2012ء میں شمالی شام میں مختلف چوکیوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں جب حکومتی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں تو اس صورتحال نے ترک حکام کو سوچنے پر مجبور کردیا۔
ترک حکومت کیلئے صورتحال مزید پریشان کن تب بنی جب کرد ملیشیاء امریکی فوجی قوت کے ساتھ مزید پھیلنے لگی اور اس کی قوت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اگرچہ اس فوجی اتحاد کا نشانہ داعش جیسا قاتل گروہ تھا جو اس سرحدی پٹی میں بھی سرگرم عمل تھا۔ ترک تیوری مزید اس وقت چڑھی جب امریکہ نصف دہائی تک کردملیشیاء کی اصل شناخت چھپانے میں مصروف رہا اور غیرکرد جنگجووں کے طورپر ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ترکی اور شام کی سرحد سے امریکی فوجی دستوں کی واپسی کا حکم دیا تو عارضی طورپر قائم امن بھی رخصت ہوگیا۔ ترکی کی جانب سے فوجی کارروائی سے امریکی زمینی فوجی دستوں اور عالمی اتحادیوں کو اپنے فوجی اڈے خالی کرنے پڑے اورکردملیشیاء کو مجبورا روس اور شامی فوجی دستوں سے تحفظ دینے کی درخواست کرنا پڑی۔ روس اور شام نے مدد کرنے میں تیزی دکھائی اور ان کی کوشش ہے کہ ترکی اور کرد ملیشیاء کے درمیان ویسا ہی خالی علاقہ یا بفرزون قائم کردیا جائے جیسا کہ پہلے موجود تھا۔ ترکی کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ وائی پی جی کو اپنی سرحدوں سے دور رکھے۔ اس کا یہ مقصد بھی ہے کہ وائی پی جی شمالی شام کے سرحدی علاقے کنٹرول نہ کرسکے۔ حالیہ فوجی کارروائیوں سے ترکی وائی پی جی کے شمالی شام میں پاوں اکھاڑ چکا ہے۔
ستم ظریفی یا وقت کی چال کہاجائے لیکن ایک وقت تھا کہ صدر طیب اردوان شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے کے خواہشمند تھے لیکن آج وہ کرد ملیشیاء کے مقابلے میں انہیں ترکی کے لئے کم خطرہ دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہاکہ وہ صدر بشار الاسد کو قبول کرنے کو تیار ہیں اگر کرد شہر منبج میں شامی افواج پھر سے داخل ہوجائیں اور کرد جنگجووں کو علاقے سے دور رکھیں۔ یعنی اگر شام کی حکومت کرد ملیشیاء کو خود ہی قابو کرلے تو ترکی کو خود یہ کارروائی نہیں کرنا پڑے گی۔ صدر اردوان نے یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ اپنے ان الفاظ میں کہہ دی ہے کہ ’’منبج میں خود آنے پر ہمیں کوئی تشویش نہیں۔ ہماری تشویش ایک ہی بات سے ہے کہ یا تو روس یا پھر شامی حکومت وائی پی جی کو اس علاقہ سے دور رکھے۔‘‘ صدر اردوان نے ترک فوج سے برسرپیکار کرد باغیوں کو ہتھیار ڈالنے اور راتوں رات اس علاقے سے چلے جانے کی بھی ترغیب دی۔
بشار الاسد اور اسکے والد حافظ الاسد نے کرد باغیوں کو محفوظ ٹھکانے اور پناہ فراہم کی تھی۔ 1980 اور 1990ء میں شام میں انہیں یہ سہولیات میسر آئی تھیں۔ صدر اردوان اسی نوعیت کا خطرہ پھر سے محسوس کررہے ہیں۔ اپنے والد کے برعکس بشار الاسد نے یہ وعدہ بارہا دہرایا ہے کہ وہ شام کے ایک ایک انچ پر حکومتی عمل داری قائم کریں گے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ شامی کردوں کو موجودہ علاقوں میں دی گئی خودمختاری کی سطح برقرار رکھیں گے۔ طیب اردوان کی پالیسیوں پر پہلے بھی مغرب کی طرف سے ناک بھوں چڑھائی جاتی رہی ہے۔ بعض کے نزدیک وہ سخت گیر حکمران ہیں۔ کرد باغیوں پر حملے کے نتیجے میں گویا دل کا وہ تمام زہر باہر نکالنے کا بہانہ مل گیا۔ امریکی صدر نے ترک سٹیل پر تجارتی پابندیاں عائد کردیں۔ ایک سو ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر مذاکرات ختم کردئیے گئے۔ تین ترک وزراء پر مالی پابندیاں الگ سے عائد ہوئیں۔ یہ دھمکی اس کے سوا تھی کہ میں ترک معیشت تباہ کرنے کو تیار ہوں تاکہ ترکی کو اس کے تباہ کن راستے سے روکا جاسکے۔
اسی روز سیکریٹری دفاع مارک ٹی ایسپر نے نیٹو ارکان سے کہاکہ ترکی کے خلاف انفرادی اور اجتماعی طورپر معاشی وسفارتی اقدامات اٹھائے جائیں۔ نائب صدر مائک پینس اور سیکریٹری مائیک پومپیو انقرہ پہنچ گئے تاکہ جنگ بندی کرائی جائے۔جرمنی، نیدرلینڈز، فرانس سمیت کئی یورپی ممالک نے ترکی پر اسلحہ کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ واکس ویگن نے مغربی ترکی میں فیکٹری لگانے کا فیصلہ معطل کردیا ہے جس کے تحت چار ہزار نوکریاں فراہم ہونا تھیں۔
امریکی دل میں غصے کی آگ پھر بھی کم نہ ہوئی۔ نیویارک میں امریکی پراسیکیوٹرز نے ترک ریاست کی ملکیت میں چلنے والے بنک پر اپنا غصہ اتارا اور الزام عائد کردیا کہ اس بنک نے ایران کی مدد کی ہے۔ یعنی امریکی پابندیوں سے بچنے میں اربوں ڈالر حکومت ایران کو بھجوا کر اس بنک نے ’’جرم‘‘سرزد کیا ہے۔ اب کوشش ہورہی ہے کہ اس بنک کے اثاثے ضبط کرلئے جائیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ترک معیشت اگر چہ ڈانواڈول ہے لیکن ان پابندیوں کا فی الوقت ترک معیشت پر کوئی براہ راست برا اثر نہیں پڑے گا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں ترکی کو نیٹو سے نکالنے پر بھی غوروخوض ہوسکتاہے۔ آماندا سلوٹ اس خیال کی حامی ہیں جو محکمہ خارجہ کی ترکی کے ساتھ تعلقات کی سابق نگران رہ چکی ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواہش اپنی جگہ لیکن نیٹو رکنیت کی دستاویز میں اس ترح سے نکالنے کی کوئی شق موجود نہیں۔ یورپی یونین کے ترکی میں سابق سفیر مارک پیرینی کے مطابق امریکہ نے روس پر اسلحہ کی پابندی عائد کرنے کا امکان رد کردیا ہے جبکہ یورپ کی جانب سے اس نوع کا اعلان محض دکھاوا ہے۔ ترک فوج کو وہ کسی صورت نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ یورپی یونین کے اقدامات کااطلاق مستقبل کے اسلحے کے سودوںپر ہوگا۔ جرمنی ترکی کو کچھ ٹینک فراہم کرتا ہے۔ ترک فوج کا اسلحہ کے حوالے سے زیادہ انحصار امریکہ پر ہے۔ امریکی ساختہ ٹینک ہی ان کے زیادہ تر استعمال میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جرمنی کے بنائے ہوئے ٹینکوں میں کچھ خرابیاں پائی گئی تھیں۔ جن تین ترک وزراء پر مالی پابندیاں لگائی گئی ہیں، انکی امریکہ میں کوئی معلوم جائیداد یا اثاثہ جات نہیں۔ ایک سو ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے کے بارے میں بھی یہی کہاجارہا ہے کہ وہ سنجیدہ نوعیت کا معاملہ نہیں۔ امریکہ نے ترک سٹیل پر جو پابندیاں لگائی ہیں، ان کا بھی کوئی زیادہ اثر اس لئے نہیں ہوگا کیونکہ ترکی کی امریکہ کو برآمدات پہلے ہی کم ہیں۔ اگر کانگریس سخت پابندیاں عائد بھی کردے تب بھی امریکی انتظامیہ ترکی پر ان کے نفاذ میں سست روی کا مظاہرہ کرے گی۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024