نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
لاہور میں ہونے والے بم دھماکے نے جہاں عوام کو ایک بار پھر ہراساں کر دیا ہے وہیں امن وامان بحال رکھنے اور سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ لاہور میں ہونے والا دھماکہ موجودہ حالات میں دہشت گردی کی دوسری واردات ہے۔ چندروز قبل اسلام آباد میں جب ایک اہلکار کو نشانہ بنایا گیا تو وزیر داخلہ نے انکشاف کیا تھا کہ یہ دہشت گردی ہے۔ شیخ رشید نے ایک الرٹ بھی جاری کیا تھا کہ پانچ شہروں میں دہشت گردی ہو سکتی ہے۔ لاہور میں ہونے والا بم دھماکہ بقول وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید دہشت گردی کے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ شیخ رشید نے یہ بھی بتایا کہ ٹی ٹی پی سے سیزفائر ختم ہو چکا ہے اور ہم ان کے خلاف کارروائی بھی کر رہے لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیرداخلہ اور ان کے ادارے جنہیں یہ علم ہے کہ پانچ شہروں میں دہشت گردی ہوگی تو انہوں نے ان وارداتوں کو روکنے کے لیے کیا کیا؟ اس سوال کا جواب ہمیں آئیں بائیں شائیں میں ملتا ہے جبکہ پنجاب پولیس کے آئی جی رائو سردار اور پنجاب کے چیف سیکرٹری سمیت کسی نے بھی شاید اس الرٹ کو سنجیدگی سے نہ لیا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اورامن و امان نافذ کرنیوالے ادارے عوام کو انکے حال پر چھوڑ دیا ہے اگر انکی قسمت اچھی ہوگی تو وہ بچیں رہیں گے ورنہ کوئی بھی کہیں بھی اس طرح کے کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کی یہ وارداتیں ہماری ایک اور کمزوری کی نشاندہی بھی کر رہی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کیوں ختم ہوئی؟ وہ طالبان حکومت جن کے اقتدار میں آنے پر ہم نے شادیانے بجائے اور ابھی تک ہم فلاح و بہبود اور دنیا میں ان کی قبولیت کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ وہ ٹی ٹی پی کو ان وارداتوں سے کیوں نہیں روک رہے؟ پاکستان نے افغانستان سے ہمیشہ ایک ہی مطالبہ کیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان میں ہی پناہ لے رکھی ہے اور وہیں سے ساری کارروائیاں کر رہی ہے تو پھر طالبان ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے کیوں نہیں روکتے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی آتی جا رہی ہے جس کی واضح مثال ایک تو ٹی ٹی پی کے معاملے میں ثالثی سے ہاتھ کھینچ لینا پھرڈیورنڈ لائن پر طالبان حکومت بدلتا ہوا موقف اور سرحد پار سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی دراندازی شامل ہیں یہاں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کچھ کمزوریاں موجود ہیں۔ ہم دنیا کے سامنے اپنا موقف واضح انداز میں پیش نہیں کر پا رہے۔
ویسے تو کہا جاتا ہے کہ کمزور معیشت، کمزور خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر عاقبت نااندیشی بھی مل جائے تو پھر کچھ بھی سیدھا نہیں رہتا پاکستانی عوام غربت بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی ستائے ہوئے تھے کہ کورونا کی پانچویں لہر نے انہیں پھر سے خوفزدہ کر دیا جبکہ دہشت گردی کی وارداتیں انکے رہے سہے اوسان بھی خطا کر رہی ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کو تو خارجہ پالیسی کی کوتاہیوں یا دائوپیچ کا اندازہ نہیں ہوگا مگر حکمرانوں کو اس حوالے سے اپنی صفیں درست کرنا ہوں گی۔ پچھلے بیس سال کے دوران پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کو واردات کے تانے بانے بذریعہ افغانستان بھارت سے ملتے رہے مگر اب تو بقول ہماری حکومت کے افغانستان سے بھارت کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر ہم طالبان حکومت کو قائل کرنے میں کیوں ناکام ہیں کہ پاکستان افغانستان اور ا فغان عوام کے معاشی اور سفارتی استحکام کے لیے کوشاں ہے؟ امریکہ نے افغانستان میں بیس سال جنگ لڑی اس سے پہلے پاکستان نے افغانستان میں بیس سال امریکہ کی جنگ لڑی۔ یہ دونوں جنگیں پاکستان کے اوپر مسلط کی گئیں۔ ان دونوں جنگوں کے دوران پاکستان نے ہزاروں جانوں اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زائد کا اپنا مالی نقصان کروایا جبکہ پاکستان کے معاشرے میں ہیروئن اور کلاشنکوف کا تحفہ ہمیں بونس میں ملا پاکستان کی ان جانی مالی نقصانات کے باوجود دنیا شک ہی کرتی رہی۔
پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کی بہتری کے لیے ہی کام کیا۔ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کی راہ امریکہ کی خواہش اور افغان عوام کی اصلاح کے لیے ہموار کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کو محفوظ ممکن بنایا۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان سے جا چکا ہے افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہو چکی ہے، نہ طالبان حکومت ہم سے خوش ہے اور نہ ہی امریکی ہماری خدمات کا اعتراف کر رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے قیام سے قبل تحریک طالبان کی پشت پناہی بھارت کرتا رہا جبکہ افغانستان میں بھارت کو اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں امریکی معاونت حاصل رہی۔ طالبان کی ناراضگی تو شاید اس بات کی وجہ سے ہو سکتی ہے کہ ان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان عالمی برادری سے ہٹ کر جلد بازی میں کوئی اقدام نہیں کرے گا تاہم وہ عالمی برادری کے دل میں طالبان حکومت کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے کوششیں ضرور کرتا رہے گا مگر ٹی ٹی پی کا دوبارہ سے منظم ہونا اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ظاہر کرتا ہے کہ انہیں دوبارہ سے بھارت کو سرپرستی اور معاونت حاصل ہو رہی ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہماری حکومت، سکیورٹی اداروں اور پولیس کو زیادہ مؤثر انداز میں حفاظتی انتظامات کرنے اور دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑنے کے لیے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو خارجہ محاذ پر بھی ازسرنو غور کرنا ہوگا لیکن مضبوط خارجہ پالیسی کے لیے ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا۔ اگر ہم معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو پھر ہمیں کوئی ڈکٹیٹ بھی نہیں کر سکے گا۔ اسی لیے پاکستان نے اپنی قومی سلامتی پالیسی میں معیشت کو بڑی خاص اہمیت دی ہے۔