کسی بھی ملک کا آئین اور کسی بھی قوم کا دستور اصولوں سے بھرپور غیر تحریر شدہ احکامات اور اقدار پر مشتمل ہوتا ہے جن کی عوام پیروی کرتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ یہ آئین میں لکھے ہوئے ہیں یا نہیں۔ قانون کی ناقابل فہم زبان میں انہیں اکثر روایات کے طور پر لیا جاتا ہے اور سماجی، سیاسی اور مذہبی میدان میں انہیں رسم و رواج ، عقائد اور طرز عمل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصول اور ان کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی باطنی عقائد اس طرح آئینی اقدار کا حصہ ہیں۔ جیساکہ خود قانون کی شقیں ہیں۔ اسی تناظر میں اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ اسلام کم از کم اسلامی نظریات اور اصولوں کی موجودہ تشریح (ہم میں سے اکثر لوگوں کی روزمرہ زندگی کا اور پاکستان کی آئینی اقدار کا ایک ناگزیر اور اہم حصہ ہیں۔
جبکہ پاکستانی آئین کی شق 2 (مملکتی مذہب) شق 2 A (قرارداد مقاصد) اور شق 227 (اسلامی دفعات) میں خاص طور پر اسلام کو قومی نظریات کا ترجمان قرار دیا گیا ہے۔ درحقیقت ان شقوں کی غیر موجودگی میں بھی اسلام کی تشریح و توضیح ہمیں اپنی زندگی گزارنے میں رہنمائی مہیا کرتی رہے گی۔ اسلام‘ نتیجتاً قانونی پہلوؤں کے قطع نظر پاکستانی عوام کے لئے زندگی کے مختلف پہلوؤں تک رسائی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کام ہمیں ایک خاص تناظر میں ہمارے کاروباری اداروں کے کام کرنے‘ اپنے قانون کی امتیازی صفات‘ اپنے تعلیمی نظام کی کارکردگی‘ ہماری دہشتگردی سے جنگ لڑنے کی حکمت عملی ہماری بیرونی طاقتوں کی حمایت اور مخالفت اور یہاں تک کہ ہمارے ان لوگوں جو اللہ کے نام پر قتل کرتے ہیں کے اخلاقیات پر فیصلے‘ لہذا پاکستانی قوانین کی اصلاح ہمارا قومی نظریہ اور ہمارے اجتماعی مدار یقینی طور پر ہمارے اسلام کے تصور کو ازسرنو متعین کرنے کا قدرتی نتیجہ ہیں۔
حقیقت چاہے واضح کرنے پر جتنی بھی خطرناک ہو جائے یہ ہے کہ اسلام موجودہ پاکستان میںکٹر ملائوں کے زیر اثر ہے، جو چند ہٹ دھرم روایات پر عمل کو ہی مذہب کا اصل مقصد قرار دیتے ہیں۔ ہم مذہبی نظریات کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جہاں اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ خدا کے نام پر قتل کی عظمت کو برقرار رکھنا زندہ رہنے سے کہیں زیادہ معتبر ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں کا اللہ کے سامنے جھکنا اور اسکا نام پکارنے کے انداز میں معمولی تفریق ان لوگوںسے نفرت کرنے کیلئے کافی ہے۔ حتی کہ انہیں قتل کرنے تک کا کہا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کالا رنگ شیعہ اور سبز رنگ سنیوں کا علامتی نشان ہے۔ ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ زانی کو سائنسی شواہد کے بنا پر سزا نہیں ہو سکتی کیونکہ عینی شاہد صرف اسلام ہی ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اللہ نیکی اور بدی کے پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہے، بیٹھ کر پانی پینے سے ہمیں دس نیکیاں ملیں گی اور اگر ہم نے الٹے ہاتھ سے کھانا کھایا تو ہماری دس نیکیاں ضائع ہو جائیں گی۔ اللہ اور انسان کا رشتہ لین دین کی بنیاد پر ہوتا ہے جیسے کہ اگر ہم سات بار قرآنی آیات کا ورد کریں تو ہمیں جنت مل جائے گی، نہیں تو جہنم کا عذاب ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ کعبہ کی جانب سجدہ ریز ہونا ہی اصل عبادت ہے، اس سے قطع نظر کہ ایسے ملتجی کے دل کو یہ جہالت و اندھیرا گمراہ کرے۔ لیکن پھر ہم امن کے گہوارہ اس مذہب میں ایک اور راستہ بناتے ہیں جو کم پیچدار اور کم اعتقادی اور پیار سے بھرپور ہوتا ہے۔ جسے ہمارے صوفیا کرام ’’اسلام کا دل‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا قول ہے کہ:
سجدوں کے عوض فردوس ملے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہوں تیرا مزدور نہیں
اسلام اگر امن کا مذہب ہے تو اس کا محبت سے ضرور ایک گہرا رشتہ ہے جسے عشق حقیقی کہا جاتا ہے۔ ایسی محبت اعتقادات کی رسومات اور ماورائے عقل بہت پرے عالم ارواح میں ایک ہی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دنیا میں صرف اللہ ہی حقیقت ہے۔ جہاں یہ ہر طرح کی نیکی اور بدی سے آزاد ہے۔یہ اس بات کی اصلاح کرتا ہے کہ اللہ اور اسکے دین کو بدلے میںکسی بھی طرح کی روپے پیسے ‘خون اور تشدد کی ضرورت نہیں ہے، یہ تو صرف محبت کاطلبگار ہے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے چھوٹا یا بڑا‘کم یا زیادہ جس طرح بھی ممکن ہو ہم اللہ سے اپنی محبت کا اظہار کریں۔ اللہ تو ہمیں عیسائیوں کے ان بچوں کے چہروں میں بھی نظر آتا ہے جن کے گھر لاہور میں تعصب پسند افراد نے جلا کر راکھ کر دیئے۔ ہم اسکی آواز کو اس عورت کے ذریعے بھی سنتے ہیں جس پر سندھ میں تیزاب پھینک دیا گیا اور وہ انصاف کیلئے آہ و بکا کر رہی ہے۔ ہم اس کی پرچھائی رومی کے شعروں میں، منصور کے کلمہ کفر بلھے شاہ کے رقص میں اور اقبالؒ کے شکوہ میں دیکھتے ہیں۔ اسکی عبادت میں سکوت رقص سے حاصل ہو سکتا ہے اس خاموشی میں صرف اسی کی آواز گونجتی ہے۔ اسلام کا ایک ایسا گروہ جو اللہ کی اس حقیقت سے آگاہ ہے اور جانتا ہے کہ یہ خالص محبت ہے۔ جنہیں معلوم ہے کہ مذہب کیلئے فرمانبرداری اور اطاعت ہی اصل آزادی ہے۔ محبت کی اس راہ پر چلنا جس سے دوسرے بھی متاثر ہو کر چلیں اور روح کو خوبصورت انداز میں سقوط سے موڑنا نہ کہ بندوق کے شور سے۔
یہ بات آشکار ہے کہ اس کا انصاف گواہوں کی تعداد پر منحصر نہیں ہوتا۔ اسکی سزا نے کوڑوں کی تعداد متعین نہیں کی۔ مظلوموں کیلئے اس کا قانون خاموش نہیں رہتا بلکہ سرکشی کرنیوالوں کیلئے دردناک عذاب کا انتظام کرتا ہے۔ اسکی اطاعت کو لمبی داڑھی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ اسکے راستے پر چلنے کیلئے شلوار کے پائنچے کا ٹخنوں سے اوپر ہونا ضروری نہیں۔
اس غیر تبدیل شدہ حقیقت پر یقین رکھنا کہ اللہ کی حقیقت‘ اسلام کی حقیقت واضح طور پر ہماری ذات کی حقیقت ہے۔ ہماری یہ سچائی اسکے ساتھ اور اسکے بندوں کے ساتھ ہماری پراسرار محبت میں بستی ہے۔
ایک بار ہم نے اسلام کے اس دل کے حوالے سے اپنی اصلاح کر لی تو ہی ہم اپنے معاشرے میں سے تعصب اور تشدد کے ختم ہونے کی امید کر سکتے ہیں اور ایک اخلاقی دستور متعارف کروا سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ ہماری ذات سے بھی مخلص ہو۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024