(2) حکومت زرداری صاحب چلا رہے ہیں وزرائ، وزیراعظم نے نہیں چنے بلکہ زرداری صاحب نے چنے ہیں۔ وہ ان کی میٹنگ کرتے ہیں۔
(3) انتظامی طور پر مکمل کنٹرول زرداری صاحب کا ہے‘ ممبئی واقعے کے بعد سارا کام صدر صاحب کر رہے ہیں۔ وزیراعظم دب گئے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان میں یہ سارا معاملہ انکے وزیراعظم نے سنبھالا ہوا ہے اور اس معاملے میں صدر پٹیل کا کوئی نام نہیں آیا بلکہ پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہندوستان کا صدر کون ہے؟۔
-4 سیکرٹری صاحبان کی تعیناتی صدر صاحب کر رہے ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم کا اپنا سیکرٹری بھی وزیراعظم کی مرضی کیخلاف صدر نے چنا اور آج کل یہ عہدہ بہت عرصے سے خالی ہے اور بہت سی دیگر تعیناتیاں بھی صدر اور وزیراعظم کے اختلافات کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہیں۔ اتنا دخل جنرل مشرف کا نہ تھا وہ صرف چند اہم محکموں کے سیکرٹری صاحبان تعینات کرتے تھے۔ جناب جمالی اور جناب شوکت عزیز کے دفتر کے سیکرٹری کا تعین و تعیناتی کبھی بھی جنرل مشرف نے نہیں کی تھی۔
(5) کل ایران کے ساتھ ایک بہت اہم تیل و گیس کا معاہدہ ہوا ہے اور بجلی کا معاہدہ ہوا ہے قانون و ضابطے کے مطابق یہ وزیراعظم کے سامنے ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ ایوان صدر میں صدر زرداری کی موجودگی میں دستخط ہوا ہے۔
ان مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر کا رویہ اب بھی وہی ہے جو پچھلے دور میں تھا بلکہ اس سے زیادہ مداخلانہ ہوگیا ہے اور وزیراعظم بالکل بے بس ہے اور اپنا سیکرٹری بھی نہیں چن سکتا اس لئے کہ سترہویں ترمیم بھی موجود ہے اور جناب صدر حکمران پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس طرح تو ہوگا اس طرح کے کاموں میں۔
(ج) عدلیہ کی آزادی:2007 ء میں عدلیہ نے انگڑائی لی۔ مولوی تمیز الدین خان (1954) کیس میں عدلیہ نے طے کیا کہ فرد واحد عوام پر غالب ہے۔ یہی فلسفہ دو سو کیس (1985)ء سے ہوتا ہوا بیگم نصرت بھٹو کیس (1979) اور سید ظفر علی شاہ کیس (2000) تک رہا۔ 9 مارچ 2007 کو پہلی بار ایک آزاد مشن اور قومی غیرت والے جج افتخار محمد چودھری نے فوج ڈکٹیٹر کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور انکار کردیا جس کی وجہ سے پاکستان کے وکلاء نے عدلیہ کی حفاظت کیلئے مثالی تحریک چلائی۔ 20 جولائی 2007ء کو سپریم کورٹ نے ریفرنس خارج کر دیا۔ وردی والے کیس پر خوفزدہ ہو کر جنرل مشرف نے مارشل لاء لگا کر 62 جج صاحبان کو فارغ کر دیا گیا۔ اس مکروہ عمل کی جدید تاریخ میں مثال نہیں ملی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اس وکلاء تحریک میں شامل تھی۔
18 فروری کے بعد امید تھی کہ عدلیہ اور وکلاء کے اس رول کا احترام کیا جائیگا۔ آزاد مشن اور غیرت مند جج بحال ہونگے مگر صدر زرداری نے ایک نیا کھیل کھیلا۔ قرآن پر کئے گئے وعدے بھی ایک طرف رکھ دئیے۔ بینظیر بھٹو کے اعلان کو بھی بھلا دیا اور آج تک چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال نہ کیا۔ جج صاحبان کو واپس لانے کا بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا۔ متنازع جج صاحبان کا ساتھ دیا گیا۔ اس طرح وکلاء کی بے مثال جدوجہد پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ویسے تو تاریخی لحاظ سے پی پی پی کا کردار عدلیہ کے بارے میں نامناسب رہا ہے مگر اس تحریک میں پی پی پی کے وکلاء برابر کے شریک تھے۔ پی پی پی کے جیالے شریک تھے مگر صدر زرداری کی ذاتی انا آڑے آ گئی۔ این آر او آڑے آیا عدلیہ کی آزادی کی جنگ اصل میں سیاسی قوتوں کو لڑنی چاہئے مگر یہاں عدلیہ اور بار لڑ رہی تھی اور اب حکمران سیاسی ٹولہ اسکی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔ میثاق جمہوریت کے برخلاف جج صاحبان بھرتی کئے جارہے ہیں۔ قصہ مختصر سیاسی نظام قائم ہے اور مایوسی کی سیاہی اور گہری ہوتی جا رہی ہے۔ مشرف اور زرداری ایک جیسے لگ رہے ہیں۔
دستوری اور جمہوری معاشروں میں عوام کی منتخب کردہ پارلیمان کی بالادستی ہوتی ہے۔ جنرل مشرف کی پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ تھی اور لگتا ہے کہ آج بھی حکومت یہی چاہتی ہے۔ پہلے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی حکومت تھی اور انسان اس کا اصل اتحادی اب پی پی پی ایم کیو ایم اور اے این پی کی حکومت … بھی اس کا حصہ ہے۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم ہر بات کے جواب میں فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بالادست بنائیں گے لیکن صورتحال اس سے مختلف ہے۔
(1) سب سے پہلے پارلیمنٹ کے سر پر 58(2)B کی تلوار لٹک رہی ہے کہ اس کو صدر تحلیل کر سکتا ہے۔ پی پی پی اعلانات کے باوجود اسکو ختم نہیں کر رہی حالانکہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق ہے اور ایسی ترمیم چند منٹ میں اتفاق رائے سے منظور ہو جائیگی۔
(2) پارلیمنٹ کا کمیٹی سسٹم کمزور ہے۔ فرح حمید ڈوگر کیس میں حکومت نے پارلیمان کا ساتھ نہ دیا بلکہ اس کو تابع بنانے کیلئے حیلے بہانے ڈھونڈے گئے۔
(3) کوئی اہم پالیسی ابھی تک پارلیمان سے نہیں آئی۔ دہشت گردی کے بارے میں پارلیمان میں بحث ہوئی ایک کمیٹی بنی۔ ایک ماہ میں اس کا اجلاس نہ ہوسکا۔ فی الحال حکومت روڑے اٹکا رہی ہے۔ پارلیمان نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے مگر آج تک تبدیل نہ ہوسکی سپیکر پارلیمان کا محافظ ہوتا ہے موجودہ سپیکر صاحبہ صدر صاحب کے ذاتی قریبی دوست کی بیوی ہیں اور پی پی پی کی نمائندہ لگتی ہیں۔ اس لئے فی الحال اسکے کوئی آثار نہیں ہیں کہ پارلیمان ایک طاقتور ادارے کی حیثیت سے ابھر رہی ہے بلکہ حکومت کے ایک جج صاحب تمام قانونی اور دستوری تاریخ کے خلاف پارلیمان کو (دستور کیخلاف) کام سے روک دیتے ہیں اور پارلیمان خاموش رہتی ہے۔ اتنی سیاسی تو پہلے بھی نہ تھی جو اب ہے۔ (جاری ہے)
(ج) کشمیر پالیسی: جنرل مشرف کے دور میں کشمیر کے مسئلے پر اور ہندوستان پالیسی پچاس ؍ ساٹھ سالہ قومی فکری اتفاق کے مکمل برخلاف پالیسی اختیار کی گئی۔
(1) تسلیم کیا گیا کہ پاکستان بھارت کے خلاف استعمال ہوتا ہے اور ایسا نہیں کیا جائے گا۔ (2) فرد واحد نے کشمیر کے حل کیلئے نئے نئے فارمولے پیش کئے۔ یکطرفہ رعایتیں دیں اور کہا کہ یہ Confidence Building Measures ہیں۔ ہندوستان کو اجازت دی گئی کہ وہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان سیکورٹی باڑ لگائے -4 ہندوستان کو تجارت کی سہولتیں دینا شروع کی گئیں۔ -5 ہندوستان کیساتھ امریکہ نے سول جوہری معاہدہ کیا ہم نے اس کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی میں اسکی مخالفت نہ کی جس سے وہ منظور ہوا -6 ہندوستان پاکستان میں مداخلت کرتا رہا ہم چپ رہے یا پھر اشاروں کنایوں میں صرف تنقید کی۔ -7 ہندوستان نے چناب پر ڈیم بنایا ہم خاموش رہے جس سے پاکستان میں پانی اور بجلی کا بحران ہوا اور ہوتا رہے گا۔
موجودہ حکومت نے بھی ہندوستان و کشمیر پالیسی پر وہی رویہ جاری رکھا ہوا ہے جو جنرل مشرف کا تھا۔ -1 چناب پر ڈیم بلکہ ڈیموں کے مسئلے پر صدر زرداری نے کئی بار اعلان کیا مگر ہندوستان کو خط تک نہ لکھا گیا ۔
-2 ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر پر ہزار سال جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ معاہدہ تاشقند پر ہی وہ ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے تھے۔ صدر زرداری کہتے ہیں کہ کشمیری دہشت گرد ہیں۔ یہ بات انہوں نے وال سٹریٹ جنرل کو انٹرویو میں کہی۔ پاکستانی گورنمنٹ نے اس انٹرویو کے چھپنے کے بعد تردید کی تو وال سٹریٹ جنرل نے اس سارے انٹرویو کی آڈیو ریکارڈنگ اپنی ویب سائٹ پر ڈالی ہے اور یہ آج بھی موجود ہے کہ زرداری نے کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد کہا۔
-3صدر زرداری نے ارشاد فرمایا کہ ہندوستان پاکستان کے لئے خطرہ نہیں ہے حسین حقانی نے کہا کہ ہندوستان ہمارا نیا دوست ہے۔ حالانکہ ہم چار جنگیں لڑ چکے ہیں 1971,1965,1948, اور کارگل۔ حالیہ ممبئی کے دھماکوں کے بعد ہندوستان کا رویہ کیا خطرے سے خالی تھا؟ افغانستان کے حوالے سے جو ہندوستان مداخلت پاکستان میں کر رہا ہے کیا یہ دوستانہ عمل ہے؟۔
-4 صدر زرداری نے اپنی جاہلانہ ترنگ میں اعلان کر دیا کہ ہم ہندوستان کے خلاف ایٹمی جنگ میں پہل نہیں کریں گے حالانکہ ان کی یہ بات علمی حقائق اور ہماری مستند و طے شدہ پالیسی کے خلاف ہے جس پر انڈیا کے لوگ اور ان کا میڈیا بہت خوش ہوا۔ پاکستان عمومی جنگ میں ہندوستان کی برابری نہیں کر سکتا۔ ہمارے دفاع اور سلامتی کا انحصار ایٹمی طاقت میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم دوسری بار حملہ (Second Strike Capability) نہیں رکھتے۔ ویسے بھی ایسے اہم بیانات ہندوستان کے میڈیا کو نہیں دینے چاہئیں اپنی پارلیمنٹ میں پالیسی بیان ہو سکتا ہے۔ اس جنگی حکمت عملی کا پہلے ماہرین جائزہ لیں پھر اس کو افواج پاکستان دیکھیں۔ پھر یہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں لایا جائے پھر کابینہ منظور کرے اور بہتر ہے کہ اس کی منظوری پوری قوم سے لی جائے یا کم از کم پارلیمنٹ سے لی جائے۔ یہاں ایک فرد واحد منہ اٹھا کر اتنے نازک اور حساس معاملے پر اعلان کر دیتا ہے اس قومی حماقت کی کوئی حد ہونی چاہئے۔
-5 ممبئی حملے ہوئے ہندوستان نے دباؤ ڈالا ڈاکٹر کونڈا لیزا رائس امریکی وزیر خارجہ نے صدر زرداری سے بات کی کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو ہندوستان سمن کر رہا ہے آپ تعمیل کریں۔ صدر صاحب نے فوراً ہاں کردی پھر پوری قوم کا دباؤ پڑا تو پہلے ملبہ وزیراعظم گیلانی پر پڑا اور پھر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ میں کوئی آئی ایس آئی کے کسی سیاسی رول کا حامی نہیں ہوں لیکن یہ تو طے ہے کہ وہ اپنا قومی ادارہ ہے۔ ہم ہندوستان کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ یوں ہمارے جرنیلوں کو سمن کرے یا کسی سپاہی کو بھی سمن کرے۔
-6ممبئی کے بعد ہندوستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا کہ پاکستان کے لوگوں پر پابندیاں لگائی جائیں جو کہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہمارے سفیر نے اس کی مخالفت نہ کی۔ اپنے دوست چین کو ہم نے کہا کہ آپ اس کی مخالفت ؍ویٹو نہ کی۔ اپنے دوست چین کو ہم نے کہا کہ آپ اس کی مخالفت ویٹونہ کریں۔ سبحان اللہ۔ کیا بہادری اور قومی غیرت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پھر ہم نے تسلیم کیا کہ ہم ممبئی میں شامل ہیں اس لئے مخالفت نہ کی بلکہ اپنے دوستوں کو بھی قائل کیا کہ وہ ہندوستان کی مخالفت نہ کریں۔ حالانکہ ہندوستان نے آج تک ثبوت نہ دئیے ہیں خود پرناب مکھرجی یہ کہہ رہے ہیں۔
-7 پھر ہندوستان کے وزیر خارجہ نے صدر مملکت کو فون پر دھمکیاں دیں جس پر ہم اصرار کر رہے ہیں اور وہ انکار کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر صاحب نے اس جنگ کے ماحول میں ہندوستان کے وزیر خارجہ کی بات کیوں سنی۔ شاہ محمود قریشی کسی کام کے لئے وزیر خارجہ ہیں؟ ہمارے سفارت خانے کس کام کے لئے ہیں کیا یہ صدر کے پروٹوکول کے خلاف نہیں ہے؟ قوم کا کیوں مذاق اڑوایا جا رہا ہے؟ آخر کار ہم 17 کروڑ کا ملک ہیں کوئی لائیریا یا فجی تو نہیں ہیں؟۔
آپ کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ حکومت پاکستان اور خاص طور پر صدر زرداری کا رویہ جنرل مشرف والا ہے۔ وہ ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ مشرف نے بھی کشمیریوں کو دہشت گرد نہیں کہا۔ ہندوستان کو دوست نہیں کہا۔
(2) افغانستان پالیسی: 1998ء کے جینیوا معاہدہ کے بعد پاکستان کو افغانستان کے معاملات سے علیحدہ ہو جانا چاہئے تھا مگر ہم Strategic Depth کے چکر میں رہے حتیٰ کہ 9/11 کے بعد ہمیں القاعدہ اور طالبان کا ساتھی سمجھا گیا۔ ہم ایک ٹیلی فون کال پر ہی ڈھیر ہوگئے اور مکمل یوٹرن (U.Turn) لے لیا۔ کل کے طالبان دوست ہمارے دشمن بن گئے۔ ہم نے امریکہ کو اپنے اڈے دئیے۔ زمین دی۔ کرایہ پر سپاہی دئیے۔ اپنے لوگوں پر گولیاں چلانا شروع کردیں۔ جنگ پاکستان کے اندر داخل ہونا شروع ہوگئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے امریکیوں کو باور کروایا کہ وہ صدر مشرف سے بہتر ہیں۔ واپسی پر بی بی نے بھی عوام کا موڈ دیکھ لیا۔ وہ فارغ ہوگئیں اور حادثاتی طور پر صدر زرداری تشریف لائے۔ انہوں نے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ اپنے لوگوں پر ایف سولہ سے باجوڑ اور سوات اور وزیرستان میں فائرنگ کی گئی۔ لاکھوں لوگوں کو دربدر کیا گیا امریکہ کو حملے کرنے کی اجازت دی گئی اور امریکی جہاز حملہ کرتے ہیں اب ہم احتجاج بھی نہیں کرتے۔ گویا کہ بے غیرتی سے پی جاتے ہیں۔
پارلیمان نے کہا کہ افغان پالیسی تبدیل کرو۔ ہم نے تبدیل نہ کی پارلیمان کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہیں۔ اس کا سرکاری اعلان ایک ماہ بعد ہوا پھر اس کے اجلاس نہیں ہو رہے حالانکہ روزانہ اس کا اجلاس ہونا چاہئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری اپنی افواج اور امریکی جاسوس طیاروں کے حملے ہم پر بڑھ گئے ہیں اور یہی تبدیل آئی ہے۔
(ج) معاشی پالیسی: معاشی پالیسی بالکل تبدیل نہیں ہوئی ہے پچھلے دور میں معاشی پالیسی ایک تابعدار فرمان بینکار کے پاس تھی اب بھی ایک بینکر کے پاس 2 پچھر پچھلے زمانے میں ایک غیر منتخب آدمی بطور مشیر اس کا انچارج تھا۔ اب بھی منتخب نوید قمر کو ہٹا کر شوکت ترین کو لایا گیا ہے۔ 3 پچھلے دور میں خالص سرمایہ دارانہ نظام پر عمل کرتے ہوئے امیر کو امیر تر کرنے کا منصوبہ تھا کہ بعد میں Trickle Pown سے امارت نیچے آئے گی حالانکہ یہ نظریہ 1960ء کی دہائی میں تباہی دکھا چکا ہے مگر پھر ہم نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں اپنائیں اور نئی حکومت نے برقرار رکھی ہیں۔
-4 عام شہری کو پانی بجلی گیس آٹا میسر نہیں ہے اور حکومت کہتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کوئی حکومتی مشینری ان مسائل کے حل کے لئے بظاہر کوشاں نظر نہیں آتی۔ 5 صدر مشرف معاشی پالیسی کے خالق کہلاتے تھے اور اب بھی صدر زرداری اصل مالک ہیں۔ آج کل بھی گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی میٹنگ وزیراعظم کی بجائے صدر صاحب کرتے ہیں۔ پچھلے صدر صاحب کبھی کبھی مداخلت کرتے تھے صرف پالیسی بناتے تھے مگر آج کل وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تیل وغیرہ سب کام صدر پاکستان کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ پہلے حبیب بنک اور سٹیل ملز کی غیر شفاف نجکاری کی گئی اور اب پھر کراچی کی بجلی کی کمپنی خفیہ طور پر ابراح کمپنی کو دی گئی جس کے تمام اعلیٰ عہدیدار جناب صدر کے قریبی رشتہ دار ہیں اس طرح قادر پور گیس فیلڈ بھی اپنے عزیزوں کو دیا جارہا تھا پوری قوم حتیٰ کہ سندھیوں نے بھی شور مچایا تو مجبوراً کام روکنا پڑا۔ اسی طرح کسی بھی محاذ (معاشی زرعی صنعتی سرمایہ کاری وغیرہ) کوئی واضح پالیسی نہ ہے۔ اب تک پرانی پالیسیوں کا تسلسل اور ان پر عمل اور بھی کمزور ہے جس سے دن بدن غربت زیادہ ہو رہی ہے۔ مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اعتماد نہ ہے سٹاک مارکیٹ کو بٹھا دیا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یا تو پرانی پالیسیوں کا تسلسل ہے یا پھر پہلے سے بھی زیادہ خرابی ہے۔
(چ) پارٹی غائب: جنرل مشرف نے پاکستان مسلم لیگ (ق) ایجنسیوں اور نیب کی مدد سے بنائی اس کے ذریعے حکومت بنائی۔ پھر پارٹی کو نظر انداز کیا اور خود سارے اہم فیصلے کرتا رہا۔ اب تو جناب چودھری شجاعت حسین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پارٹی اور حکومت کے سارے فیصلے خود جنرل صدر مشرف کرتے تھے یہی حال آج کل ہے۔ حکومت کے سارے فیصلے صدر کرتے ہیں۔ پارٹی کے سارے فیصلے خود صدر زرداری کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارٹی سیاسی منظر سے غائب ہے۔ 1 معاشی پالیسی بہت اہم ہوتی ہے اس کو چلانے والا جناب شوکت ترین پارٹی کا نہ ہے بلکہ شوکت عزیز کا ذاتی دوست اور کاروباری حصہ دار ہے۔ 2 داخلی پالیسی پوری کی پوری جناب رحمان ملک کے پاس ہے جن کا تعلق پی پی پی سے نہ ہے وہ 1989, 1979,1969 اور 1997ء میں پی پی پی میں نہ تھے۔ 3 دفاعی اور خارجہ پالیسی اصل میں جنرل محمود درانی اور حسین حقانی صاحب چلا رہے ہیں۔ جنرل صاقب جنرل مشرف کی باقیات میں ہے اور حسین حقانی بھی پارٹی سے منسلک نہ ہے بس آخری زمانے میں اس نے بی بی سے تعلق جوڑا تھا۔
-4 حکومت کی زبان محترمہ شیری رحمان وزیر اطلاعات ہیں وہ بھی پارٹی میں نئی ہیں۔ ملک کے انرجی وسائل کا انچارج ڈاکٹر عاصم حسین ہیں جو پارٹی کے کارکن نہیں ہیں اسی طرح وزیر قانون اصل پی پی پی سے نہیں ہیں۔ -6 پارٹی کے اہم لوگ جناب مخدوم امین فہیم، جناب رضا ربانی سید خورشید شاہ، جناب نوید قمر کی توہین کی گئی ہے ان کو بہت بعد میں اور غیر اہم عہدے دئیے گئے ہیں۔ 7 بی بی کے ذاتی دوست مثال کے طور پر ناہید خان اور سینیٹر صفدر عباسی جہانگیر بدر در بدر پھر رہے ہیں -8 آٹھ ماہ کی حکومت کے بعد پی پی پی کی سینٹرل قیادت ایک بار بھی کسی اہم داخلی یا خارجی مسئلہ پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھی۔
اس تجزئیے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں 18 فروری 2008ء کو ایک نئی صبح طلوع نہیں ہوسکی۔ دستوری سیاہی قائم ہے آزاد عدلیہ کے خواب کو ختم کردیا گیا ہے۔ خارجی غلامی بڑھ رہی ہے۔ معاشی استحصال گہرا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ زیر دست ہے۔ صدر زور آور ہے۔ سترہویں ترمیم قائم ہے۔ اپنے لوگوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ ہندوستان کی خدمت و خوشامد ہو رہی ہے۔ ادارہ تباہ ہو رہے ہیں۔ عوام پس رہے ہیں۔ امن وامان کی صورتحال بدستور خراب ہے۔لوگوں کا معاشی قتل ہو رہا ہے۔رشوت کے چرچے عام ہیں۔ قصہ مختصر وہ صبح طلوع نہ ہوئی ہے جس کا خواب 18 فروری کو دیکھا گیا تھا۔ سیاہ رات چل گئی مگر صبح روشن نہ آ سکی اور پھر ایک نئی سیاہ رات آ گئی ہے اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا ؎
صبح ہونے کو ہے اے دلِ بے تاب ٹھہر
(3) انتظامی طور پر مکمل کنٹرول زرداری صاحب کا ہے‘ ممبئی واقعے کے بعد سارا کام صدر صاحب کر رہے ہیں۔ وزیراعظم دب گئے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان میں یہ سارا معاملہ انکے وزیراعظم نے سنبھالا ہوا ہے اور اس معاملے میں صدر پٹیل کا کوئی نام نہیں آیا بلکہ پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہندوستان کا صدر کون ہے؟۔
-4 سیکرٹری صاحبان کی تعیناتی صدر صاحب کر رہے ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم کا اپنا سیکرٹری بھی وزیراعظم کی مرضی کیخلاف صدر نے چنا اور آج کل یہ عہدہ بہت عرصے سے خالی ہے اور بہت سی دیگر تعیناتیاں بھی صدر اور وزیراعظم کے اختلافات کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہیں۔ اتنا دخل جنرل مشرف کا نہ تھا وہ صرف چند اہم محکموں کے سیکرٹری صاحبان تعینات کرتے تھے۔ جناب جمالی اور جناب شوکت عزیز کے دفتر کے سیکرٹری کا تعین و تعیناتی کبھی بھی جنرل مشرف نے نہیں کی تھی۔
(5) کل ایران کے ساتھ ایک بہت اہم تیل و گیس کا معاہدہ ہوا ہے اور بجلی کا معاہدہ ہوا ہے قانون و ضابطے کے مطابق یہ وزیراعظم کے سامنے ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ ایوان صدر میں صدر زرداری کی موجودگی میں دستخط ہوا ہے۔
ان مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر کا رویہ اب بھی وہی ہے جو پچھلے دور میں تھا بلکہ اس سے زیادہ مداخلانہ ہوگیا ہے اور وزیراعظم بالکل بے بس ہے اور اپنا سیکرٹری بھی نہیں چن سکتا اس لئے کہ سترہویں ترمیم بھی موجود ہے اور جناب صدر حکمران پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس طرح تو ہوگا اس طرح کے کاموں میں۔
(ج) عدلیہ کی آزادی:2007 ء میں عدلیہ نے انگڑائی لی۔ مولوی تمیز الدین خان (1954) کیس میں عدلیہ نے طے کیا کہ فرد واحد عوام پر غالب ہے۔ یہی فلسفہ دو سو کیس (1985)ء سے ہوتا ہوا بیگم نصرت بھٹو کیس (1979) اور سید ظفر علی شاہ کیس (2000) تک رہا۔ 9 مارچ 2007 کو پہلی بار ایک آزاد مشن اور قومی غیرت والے جج افتخار محمد چودھری نے فوج ڈکٹیٹر کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور انکار کردیا جس کی وجہ سے پاکستان کے وکلاء نے عدلیہ کی حفاظت کیلئے مثالی تحریک چلائی۔ 20 جولائی 2007ء کو سپریم کورٹ نے ریفرنس خارج کر دیا۔ وردی والے کیس پر خوفزدہ ہو کر جنرل مشرف نے مارشل لاء لگا کر 62 جج صاحبان کو فارغ کر دیا گیا۔ اس مکروہ عمل کی جدید تاریخ میں مثال نہیں ملی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اس وکلاء تحریک میں شامل تھی۔
18 فروری کے بعد امید تھی کہ عدلیہ اور وکلاء کے اس رول کا احترام کیا جائیگا۔ آزاد مشن اور غیرت مند جج بحال ہونگے مگر صدر زرداری نے ایک نیا کھیل کھیلا۔ قرآن پر کئے گئے وعدے بھی ایک طرف رکھ دئیے۔ بینظیر بھٹو کے اعلان کو بھی بھلا دیا اور آج تک چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال نہ کیا۔ جج صاحبان کو واپس لانے کا بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا۔ متنازع جج صاحبان کا ساتھ دیا گیا۔ اس طرح وکلاء کی بے مثال جدوجہد پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ویسے تو تاریخی لحاظ سے پی پی پی کا کردار عدلیہ کے بارے میں نامناسب رہا ہے مگر اس تحریک میں پی پی پی کے وکلاء برابر کے شریک تھے۔ پی پی پی کے جیالے شریک تھے مگر صدر زرداری کی ذاتی انا آڑے آ گئی۔ این آر او آڑے آیا عدلیہ کی آزادی کی جنگ اصل میں سیاسی قوتوں کو لڑنی چاہئے مگر یہاں عدلیہ اور بار لڑ رہی تھی اور اب حکمران سیاسی ٹولہ اسکی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔ میثاق جمہوریت کے برخلاف جج صاحبان بھرتی کئے جارہے ہیں۔ قصہ مختصر سیاسی نظام قائم ہے اور مایوسی کی سیاہی اور گہری ہوتی جا رہی ہے۔ مشرف اور زرداری ایک جیسے لگ رہے ہیں۔
دستوری اور جمہوری معاشروں میں عوام کی منتخب کردہ پارلیمان کی بالادستی ہوتی ہے۔ جنرل مشرف کی پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ تھی اور لگتا ہے کہ آج بھی حکومت یہی چاہتی ہے۔ پہلے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی حکومت تھی اور انسان اس کا اصل اتحادی اب پی پی پی ایم کیو ایم اور اے این پی کی حکومت … بھی اس کا حصہ ہے۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم ہر بات کے جواب میں فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بالادست بنائیں گے لیکن صورتحال اس سے مختلف ہے۔
(1) سب سے پہلے پارلیمنٹ کے سر پر 58(2)B کی تلوار لٹک رہی ہے کہ اس کو صدر تحلیل کر سکتا ہے۔ پی پی پی اعلانات کے باوجود اسکو ختم نہیں کر رہی حالانکہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق ہے اور ایسی ترمیم چند منٹ میں اتفاق رائے سے منظور ہو جائیگی۔
(2) پارلیمنٹ کا کمیٹی سسٹم کمزور ہے۔ فرح حمید ڈوگر کیس میں حکومت نے پارلیمان کا ساتھ نہ دیا بلکہ اس کو تابع بنانے کیلئے حیلے بہانے ڈھونڈے گئے۔
(3) کوئی اہم پالیسی ابھی تک پارلیمان سے نہیں آئی۔ دہشت گردی کے بارے میں پارلیمان میں بحث ہوئی ایک کمیٹی بنی۔ ایک ماہ میں اس کا اجلاس نہ ہوسکا۔ فی الحال حکومت روڑے اٹکا رہی ہے۔ پارلیمان نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے مگر آج تک تبدیل نہ ہوسکی سپیکر پارلیمان کا محافظ ہوتا ہے موجودہ سپیکر صاحبہ صدر صاحب کے ذاتی قریبی دوست کی بیوی ہیں اور پی پی پی کی نمائندہ لگتی ہیں۔ اس لئے فی الحال اسکے کوئی آثار نہیں ہیں کہ پارلیمان ایک طاقتور ادارے کی حیثیت سے ابھر رہی ہے بلکہ حکومت کے ایک جج صاحب تمام قانونی اور دستوری تاریخ کے خلاف پارلیمان کو (دستور کیخلاف) کام سے روک دیتے ہیں اور پارلیمان خاموش رہتی ہے۔ اتنی سیاسی تو پہلے بھی نہ تھی جو اب ہے۔ (جاری ہے)
(ج) کشمیر پالیسی: جنرل مشرف کے دور میں کشمیر کے مسئلے پر اور ہندوستان پالیسی پچاس ؍ ساٹھ سالہ قومی فکری اتفاق کے مکمل برخلاف پالیسی اختیار کی گئی۔
(1) تسلیم کیا گیا کہ پاکستان بھارت کے خلاف استعمال ہوتا ہے اور ایسا نہیں کیا جائے گا۔ (2) فرد واحد نے کشمیر کے حل کیلئے نئے نئے فارمولے پیش کئے۔ یکطرفہ رعایتیں دیں اور کہا کہ یہ Confidence Building Measures ہیں۔ ہندوستان کو اجازت دی گئی کہ وہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان سیکورٹی باڑ لگائے -4 ہندوستان کو تجارت کی سہولتیں دینا شروع کی گئیں۔ -5 ہندوستان کیساتھ امریکہ نے سول جوہری معاہدہ کیا ہم نے اس کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی میں اسکی مخالفت نہ کی جس سے وہ منظور ہوا -6 ہندوستان پاکستان میں مداخلت کرتا رہا ہم چپ رہے یا پھر اشاروں کنایوں میں صرف تنقید کی۔ -7 ہندوستان نے چناب پر ڈیم بنایا ہم خاموش رہے جس سے پاکستان میں پانی اور بجلی کا بحران ہوا اور ہوتا رہے گا۔
موجودہ حکومت نے بھی ہندوستان و کشمیر پالیسی پر وہی رویہ جاری رکھا ہوا ہے جو جنرل مشرف کا تھا۔ -1 چناب پر ڈیم بلکہ ڈیموں کے مسئلے پر صدر زرداری نے کئی بار اعلان کیا مگر ہندوستان کو خط تک نہ لکھا گیا ۔
-2 ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر پر ہزار سال جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ معاہدہ تاشقند پر ہی وہ ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے تھے۔ صدر زرداری کہتے ہیں کہ کشمیری دہشت گرد ہیں۔ یہ بات انہوں نے وال سٹریٹ جنرل کو انٹرویو میں کہی۔ پاکستانی گورنمنٹ نے اس انٹرویو کے چھپنے کے بعد تردید کی تو وال سٹریٹ جنرل نے اس سارے انٹرویو کی آڈیو ریکارڈنگ اپنی ویب سائٹ پر ڈالی ہے اور یہ آج بھی موجود ہے کہ زرداری نے کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد کہا۔
-3صدر زرداری نے ارشاد فرمایا کہ ہندوستان پاکستان کے لئے خطرہ نہیں ہے حسین حقانی نے کہا کہ ہندوستان ہمارا نیا دوست ہے۔ حالانکہ ہم چار جنگیں لڑ چکے ہیں 1971,1965,1948, اور کارگل۔ حالیہ ممبئی کے دھماکوں کے بعد ہندوستان کا رویہ کیا خطرے سے خالی تھا؟ افغانستان کے حوالے سے جو ہندوستان مداخلت پاکستان میں کر رہا ہے کیا یہ دوستانہ عمل ہے؟۔
-4 صدر زرداری نے اپنی جاہلانہ ترنگ میں اعلان کر دیا کہ ہم ہندوستان کے خلاف ایٹمی جنگ میں پہل نہیں کریں گے حالانکہ ان کی یہ بات علمی حقائق اور ہماری مستند و طے شدہ پالیسی کے خلاف ہے جس پر انڈیا کے لوگ اور ان کا میڈیا بہت خوش ہوا۔ پاکستان عمومی جنگ میں ہندوستان کی برابری نہیں کر سکتا۔ ہمارے دفاع اور سلامتی کا انحصار ایٹمی طاقت میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم دوسری بار حملہ (Second Strike Capability) نہیں رکھتے۔ ویسے بھی ایسے اہم بیانات ہندوستان کے میڈیا کو نہیں دینے چاہئیں اپنی پارلیمنٹ میں پالیسی بیان ہو سکتا ہے۔ اس جنگی حکمت عملی کا پہلے ماہرین جائزہ لیں پھر اس کو افواج پاکستان دیکھیں۔ پھر یہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں لایا جائے پھر کابینہ منظور کرے اور بہتر ہے کہ اس کی منظوری پوری قوم سے لی جائے یا کم از کم پارلیمنٹ سے لی جائے۔ یہاں ایک فرد واحد منہ اٹھا کر اتنے نازک اور حساس معاملے پر اعلان کر دیتا ہے اس قومی حماقت کی کوئی حد ہونی چاہئے۔
-5 ممبئی حملے ہوئے ہندوستان نے دباؤ ڈالا ڈاکٹر کونڈا لیزا رائس امریکی وزیر خارجہ نے صدر زرداری سے بات کی کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو ہندوستان سمن کر رہا ہے آپ تعمیل کریں۔ صدر صاحب نے فوراً ہاں کردی پھر پوری قوم کا دباؤ پڑا تو پہلے ملبہ وزیراعظم گیلانی پر پڑا اور پھر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ میں کوئی آئی ایس آئی کے کسی سیاسی رول کا حامی نہیں ہوں لیکن یہ تو طے ہے کہ وہ اپنا قومی ادارہ ہے۔ ہم ہندوستان کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ یوں ہمارے جرنیلوں کو سمن کرے یا کسی سپاہی کو بھی سمن کرے۔
-6ممبئی کے بعد ہندوستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا کہ پاکستان کے لوگوں پر پابندیاں لگائی جائیں جو کہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہمارے سفیر نے اس کی مخالفت نہ کی۔ اپنے دوست چین کو ہم نے کہا کہ آپ اس کی مخالفت ؍ویٹو نہ کی۔ اپنے دوست چین کو ہم نے کہا کہ آپ اس کی مخالفت ویٹونہ کریں۔ سبحان اللہ۔ کیا بہادری اور قومی غیرت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پھر ہم نے تسلیم کیا کہ ہم ممبئی میں شامل ہیں اس لئے مخالفت نہ کی بلکہ اپنے دوستوں کو بھی قائل کیا کہ وہ ہندوستان کی مخالفت نہ کریں۔ حالانکہ ہندوستان نے آج تک ثبوت نہ دئیے ہیں خود پرناب مکھرجی یہ کہہ رہے ہیں۔
-7 پھر ہندوستان کے وزیر خارجہ نے صدر مملکت کو فون پر دھمکیاں دیں جس پر ہم اصرار کر رہے ہیں اور وہ انکار کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر صاحب نے اس جنگ کے ماحول میں ہندوستان کے وزیر خارجہ کی بات کیوں سنی۔ شاہ محمود قریشی کسی کام کے لئے وزیر خارجہ ہیں؟ ہمارے سفارت خانے کس کام کے لئے ہیں کیا یہ صدر کے پروٹوکول کے خلاف نہیں ہے؟ قوم کا کیوں مذاق اڑوایا جا رہا ہے؟ آخر کار ہم 17 کروڑ کا ملک ہیں کوئی لائیریا یا فجی تو نہیں ہیں؟۔
آپ کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ حکومت پاکستان اور خاص طور پر صدر زرداری کا رویہ جنرل مشرف والا ہے۔ وہ ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ مشرف نے بھی کشمیریوں کو دہشت گرد نہیں کہا۔ ہندوستان کو دوست نہیں کہا۔
(2) افغانستان پالیسی: 1998ء کے جینیوا معاہدہ کے بعد پاکستان کو افغانستان کے معاملات سے علیحدہ ہو جانا چاہئے تھا مگر ہم Strategic Depth کے چکر میں رہے حتیٰ کہ 9/11 کے بعد ہمیں القاعدہ اور طالبان کا ساتھی سمجھا گیا۔ ہم ایک ٹیلی فون کال پر ہی ڈھیر ہوگئے اور مکمل یوٹرن (U.Turn) لے لیا۔ کل کے طالبان دوست ہمارے دشمن بن گئے۔ ہم نے امریکہ کو اپنے اڈے دئیے۔ زمین دی۔ کرایہ پر سپاہی دئیے۔ اپنے لوگوں پر گولیاں چلانا شروع کردیں۔ جنگ پاکستان کے اندر داخل ہونا شروع ہوگئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے امریکیوں کو باور کروایا کہ وہ صدر مشرف سے بہتر ہیں۔ واپسی پر بی بی نے بھی عوام کا موڈ دیکھ لیا۔ وہ فارغ ہوگئیں اور حادثاتی طور پر صدر زرداری تشریف لائے۔ انہوں نے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ اپنے لوگوں پر ایف سولہ سے باجوڑ اور سوات اور وزیرستان میں فائرنگ کی گئی۔ لاکھوں لوگوں کو دربدر کیا گیا امریکہ کو حملے کرنے کی اجازت دی گئی اور امریکی جہاز حملہ کرتے ہیں اب ہم احتجاج بھی نہیں کرتے۔ گویا کہ بے غیرتی سے پی جاتے ہیں۔
پارلیمان نے کہا کہ افغان پالیسی تبدیل کرو۔ ہم نے تبدیل نہ کی پارلیمان کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہیں۔ اس کا سرکاری اعلان ایک ماہ بعد ہوا پھر اس کے اجلاس نہیں ہو رہے حالانکہ روزانہ اس کا اجلاس ہونا چاہئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری اپنی افواج اور امریکی جاسوس طیاروں کے حملے ہم پر بڑھ گئے ہیں اور یہی تبدیل آئی ہے۔
(ج) معاشی پالیسی: معاشی پالیسی بالکل تبدیل نہیں ہوئی ہے پچھلے دور میں معاشی پالیسی ایک تابعدار فرمان بینکار کے پاس تھی اب بھی ایک بینکر کے پاس 2 پچھر پچھلے زمانے میں ایک غیر منتخب آدمی بطور مشیر اس کا انچارج تھا۔ اب بھی منتخب نوید قمر کو ہٹا کر شوکت ترین کو لایا گیا ہے۔ 3 پچھلے دور میں خالص سرمایہ دارانہ نظام پر عمل کرتے ہوئے امیر کو امیر تر کرنے کا منصوبہ تھا کہ بعد میں Trickle Pown سے امارت نیچے آئے گی حالانکہ یہ نظریہ 1960ء کی دہائی میں تباہی دکھا چکا ہے مگر پھر ہم نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں اپنائیں اور نئی حکومت نے برقرار رکھی ہیں۔
-4 عام شہری کو پانی بجلی گیس آٹا میسر نہیں ہے اور حکومت کہتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کوئی حکومتی مشینری ان مسائل کے حل کے لئے بظاہر کوشاں نظر نہیں آتی۔ 5 صدر مشرف معاشی پالیسی کے خالق کہلاتے تھے اور اب بھی صدر زرداری اصل مالک ہیں۔ آج کل بھی گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی میٹنگ وزیراعظم کی بجائے صدر صاحب کرتے ہیں۔ پچھلے صدر صاحب کبھی کبھی مداخلت کرتے تھے صرف پالیسی بناتے تھے مگر آج کل وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تیل وغیرہ سب کام صدر پاکستان کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ پہلے حبیب بنک اور سٹیل ملز کی غیر شفاف نجکاری کی گئی اور اب پھر کراچی کی بجلی کی کمپنی خفیہ طور پر ابراح کمپنی کو دی گئی جس کے تمام اعلیٰ عہدیدار جناب صدر کے قریبی رشتہ دار ہیں اس طرح قادر پور گیس فیلڈ بھی اپنے عزیزوں کو دیا جارہا تھا پوری قوم حتیٰ کہ سندھیوں نے بھی شور مچایا تو مجبوراً کام روکنا پڑا۔ اسی طرح کسی بھی محاذ (معاشی زرعی صنعتی سرمایہ کاری وغیرہ) کوئی واضح پالیسی نہ ہے۔ اب تک پرانی پالیسیوں کا تسلسل اور ان پر عمل اور بھی کمزور ہے جس سے دن بدن غربت زیادہ ہو رہی ہے۔ مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اعتماد نہ ہے سٹاک مارکیٹ کو بٹھا دیا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یا تو پرانی پالیسیوں کا تسلسل ہے یا پھر پہلے سے بھی زیادہ خرابی ہے۔
(چ) پارٹی غائب: جنرل مشرف نے پاکستان مسلم لیگ (ق) ایجنسیوں اور نیب کی مدد سے بنائی اس کے ذریعے حکومت بنائی۔ پھر پارٹی کو نظر انداز کیا اور خود سارے اہم فیصلے کرتا رہا۔ اب تو جناب چودھری شجاعت حسین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پارٹی اور حکومت کے سارے فیصلے خود جنرل صدر مشرف کرتے تھے یہی حال آج کل ہے۔ حکومت کے سارے فیصلے صدر کرتے ہیں۔ پارٹی کے سارے فیصلے خود صدر زرداری کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارٹی سیاسی منظر سے غائب ہے۔ 1 معاشی پالیسی بہت اہم ہوتی ہے اس کو چلانے والا جناب شوکت ترین پارٹی کا نہ ہے بلکہ شوکت عزیز کا ذاتی دوست اور کاروباری حصہ دار ہے۔ 2 داخلی پالیسی پوری کی پوری جناب رحمان ملک کے پاس ہے جن کا تعلق پی پی پی سے نہ ہے وہ 1989, 1979,1969 اور 1997ء میں پی پی پی میں نہ تھے۔ 3 دفاعی اور خارجہ پالیسی اصل میں جنرل محمود درانی اور حسین حقانی صاحب چلا رہے ہیں۔ جنرل صاقب جنرل مشرف کی باقیات میں ہے اور حسین حقانی بھی پارٹی سے منسلک نہ ہے بس آخری زمانے میں اس نے بی بی سے تعلق جوڑا تھا۔
-4 حکومت کی زبان محترمہ شیری رحمان وزیر اطلاعات ہیں وہ بھی پارٹی میں نئی ہیں۔ ملک کے انرجی وسائل کا انچارج ڈاکٹر عاصم حسین ہیں جو پارٹی کے کارکن نہیں ہیں اسی طرح وزیر قانون اصل پی پی پی سے نہیں ہیں۔ -6 پارٹی کے اہم لوگ جناب مخدوم امین فہیم، جناب رضا ربانی سید خورشید شاہ، جناب نوید قمر کی توہین کی گئی ہے ان کو بہت بعد میں اور غیر اہم عہدے دئیے گئے ہیں۔ 7 بی بی کے ذاتی دوست مثال کے طور پر ناہید خان اور سینیٹر صفدر عباسی جہانگیر بدر در بدر پھر رہے ہیں -8 آٹھ ماہ کی حکومت کے بعد پی پی پی کی سینٹرل قیادت ایک بار بھی کسی اہم داخلی یا خارجی مسئلہ پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھی۔
اس تجزئیے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں 18 فروری 2008ء کو ایک نئی صبح طلوع نہیں ہوسکی۔ دستوری سیاہی قائم ہے آزاد عدلیہ کے خواب کو ختم کردیا گیا ہے۔ خارجی غلامی بڑھ رہی ہے۔ معاشی استحصال گہرا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ زیر دست ہے۔ صدر زور آور ہے۔ سترہویں ترمیم قائم ہے۔ اپنے لوگوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ ہندوستان کی خدمت و خوشامد ہو رہی ہے۔ ادارہ تباہ ہو رہے ہیں۔ عوام پس رہے ہیں۔ امن وامان کی صورتحال بدستور خراب ہے۔لوگوں کا معاشی قتل ہو رہا ہے۔رشوت کے چرچے عام ہیں۔ قصہ مختصر وہ صبح طلوع نہ ہوئی ہے جس کا خواب 18 فروری کو دیکھا گیا تھا۔ سیاہ رات چل گئی مگر صبح روشن نہ آ سکی اور پھر ایک نئی سیاہ رات آ گئی ہے اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا ؎
صبح ہونے کو ہے اے دلِ بے تاب ٹھہر