جناب خاقان عباسی ،وزیراعظم پاکستان بہت دلچسپ اور دانا شخصیت ہیں۔ وہ بڑی جرات اور ہمت سے یہ بات دہراتے ہیں کہ ان کے وزیراعظم جناب نواز شریف ہیں۔مسلم لیگ ن کا یہ موقف واضح ہے۔ کہ بعض فیصلوں کے باوجود ان کے صدر ، لیڈر اور رہبر نواز شریف ہیں۔ اور مسلم لیگ کے جذباتی کارکنان اپنے اس موقف کو تبدیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ سینٹ الیکشن اور نئے اراکین کے حلقے کے چند دنوں بعد قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ بہرحال دوران سال کے وسط سے پہلے چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جائیں گی اور مسلم لیگ ن اور پی پی کی مشاورت سے نگران حکومتیں قائم کر دی جا ئیں گی۔ اور غالباً اس دوران ہی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ جب موجودہ حکومتیں نہیں ہوں گی۔ تب الیکشن مہم زور و شور سے برپا ہو گی۔ اور اس دوران پتہ چلے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے؟ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ انتخابی جلسوں میں مریم نواز ، پی ٹی آئی کے عمران خان اور پی پی کے بلاول بھٹو زرداری کو شکست سے بآسانی دوچار کر سکتی ہیں۔ مسلم لیگ کے پرجوش جلسوں میں وہ قدآور سیاستدان کی حیثیت سے جلوہ گر ہو رہی ہیں کہ جلسوں میں پارٹی کارکردگی ہی فیصلہ کرے گی۔ کہ مستقبل کا وزیراعظم کون ہو گا۔ تاہم ہماری رائے میں مریم نواز وزارت عظمیٰ کے لئے مسلم لیگ کی درست طور پر امیدوار کہلانے کی مستحق ہیں۔
جناب خاقان عباسی نے بھی پچھلے دنوں میں کہا ہے کہ وزیراعظم کون ہو گا؟ اس کا فیصلہ الیکشن کے بعد ہو گا۔ انہوں نے ایسا کیوں کہا ہے یہ وہی جانتے ہیں، مگر الیکشن مہم کے دوران یہ فیصلہ واضح طور پر ہو جائے گا کہ مسلم لیگ ن میں وزارت عظمیٰ کی اصل مستحق مریم نواز ہیں۔ جناب نواز شریف کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کے بادل چھٹ گئے تو ظاہر ہے پھر وہی وزیراعظم ہوں گے۔ بصورت دیگر وہ شہباز شریف کا نام دے ہی چکے ہیں۔ لیکن اصل فیصلہ الیکشن مہم کرے گی۔ اور الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر ہی ہونا ہے اس لحاظ سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قسمت مریم نواز کے حق میں فیصلہ صادر کرے گی۔
ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ جناب غلام اسحاق خان نے بحیثیت صدر پاکستان58(2) B کے تحت محترمہ بے نظیر کی حکومت ختم کر دی اور اس وقت اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا۔ جو ایک سیاسی اتحاد ، اسلامی جمہوری اتحاد جو I J I کے نام سے مشہور ہے کے صدر تھے۔ جناب صدر غلام اسحق خان اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کی خواہش تھی کہ جتوئی صاحب آئندہ وزیراعظم بن جائیں۔ بے نظیر مخالف کیمپ کی مقبول شخصیت نواز شریف تھے۔ اس وقت مہم نے جناب نواز شریف کی خدمت میں لکھا تھا کہ وہ جتوئی صاحب کے ہمراہ الیکشن مہم نہ چلائیں، وہ ایسا کریں گے۔ تو بحیثیت صدر I J I اور نگران وزیراعظم جتوئی صاحب کی شخصیت نمبر ایک ہو گی اور نواز شریف کی شخصیت دب جائے گی۔ اور جتوئی صاحب کو وزیراعظم بنانے کا کام آسان ہو جائے گا۔
جناب نواز شریف خود بہت ذہین انسان ہیں۔ انہوں نے نگران وزیراعظم اورI J Iکے صدر جتوئی صاحب کے ہمراہ الیکشن مہم چلانے کی بجائے تنہا مہم چلائی۔I J I جیت گئی مگر اراکین ، وزیراعظم کے حوالے سے نواز شریف کے حق میں تھے۔ غلام اسحاق اور مسلم لیگ کا فیصلہ ادھورا رہ گیا اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔اب بھی الیکشن تک مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے بار بار حالات تبدیل ہوں گے۔ کبھی نواز شریف کا نام آئے گا۔ کبھی شہباز شریف کا یا کبھی مریم نواز کا۔
اس دوران مخالفتوں کے باوجود مریم نواز کو بہت فعال اور متحرک رہنا ہو گا۔ جناب نواز شریف کی موجودگی میں وہ خاموش اور باادب رہتی ہیں۔ یہ بہت اچھی صفت ہے۔ لیکن جلسوں میں انہیں ACTIVC رہنا ہو گا اور اپنے آپ کو ایک بلند قامت ، بااعتماد لیڈر ثابت کرنا ہو گا۔ شخصیت کا سحر ہی نفسیاتی طور پر عوام کو متاثر کرتا ہے۔پھر یہ ضروری بھی نہیں کہ ایک الیکشن میں سارے مراحل مکمل ہو جائیں۔ سیاست مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ جہد مسلسل کے ذریعے منزل کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔ پارٹی حلقوں میں مریم نواز کی شخصیت روز بروز بلند مقام حاصل کرتی جا رہی ہے تاہم اس منصب کے لئے بلاشک و شبہ مریم نواز اپنے محترم والد کی شفقت کی بھی محتاج ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024