آزاد خارجہ پالیسی ہی مستحکم پاکستان کی ضامن
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنے دورۂ امریکا کے دوران کئی مواقع پر عملی طور پر اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان آزاد خارجہ پالیسی کا حامل ہے اور وہ امریکا سمیت کسی کے بھی دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ امریکی ذرائع ابلاغ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکا کے ساتھ دو طرفہ تجارتی تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کو مشکل حالات میں کوئی بیل آؤٹ پیکیج دیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارا نظریہ ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تجارت کو امداد پر فوقیت دی جائے۔ ہم تجارت پر یقین رکھتے ہیں، بھیک پر نہیں۔ پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ کی طرف سے اختیار کیا جانے والا یہ موقف واقعی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت میں گامزن ہے۔ خارجہ پالیسی کا آزاد ہونا ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔ وزیر خارجہ نے اقوامِ متحدہ کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران جس طرح سابق وزیراعظم عمران خان کے دورۂ روس کا دفاع کیا وہ بھی لائقِ تحسین ہے اور اپنے اس اقدام سے بلاول نے بالغ نظر اور مدبر ہونے کا ثبوت دیا۔ کسی بھی ریاست کے نمائندے کو ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے ملک کی نمائندگی کا حق ایسے ہی ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کے لیے پاکستان کا آزاد خارجہ پالیسی کا حامل ہونا بہت ضروری ہے ورنہ کوئی بھی طاقتور ملک ہمیں اپنے مقاصد اور مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرسکتا ہے جو طویل مدتی تناظر میں پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ ماضی میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن کر ہم دیکھ ہی چکے ہیں جس کے بعد پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا جس میں سکیورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں‘ پاکستان کی کمزور معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ان سب قربانیوں کے باوجود امریکا پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں ہوا اور اس نے اپنا ڈومور کا تقاضا جاری رکھا۔ پاکستان کے اس کردار سے چین جیسے مخلص دوستوں نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن پاکستان نے پھر بھی امریکی خوشنودی کے لیے اپنے اس کردار کو جاری رکھا۔ اس تناظر میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی دوسرے کی پالیسی کو لے کر چلنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔