آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اگر پی سی اوججوں پرہم نے سمجھوتہ کر لیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم آئین کا تحفظ نہیں کرپائے۔ چیف جسٹس
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تین نومبردو ہزار سات کو جوعدالت نے آڈر جاری کیا وہ پاکستان کی تارٰیخ کا واحد آڈر ہے جس کے ذریعے مہم جو کا راستہ روکا گیا ۔ تین نومبر دو ہزار سات کو غیرآئینی اقدامات کیئے گئے اورعدالت نے بہ یک جنبش قلم انکو مسترد کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تین نومبر دو ہزار سات کو بہت مشکلات میں آڈر جاری کیا تھا اوراس وقت فوج نے عدالت کو گھیر رکھا تھا غیرآئینی اقدامات کو روکنے کے لیے ججوں اور وکلا کے پاس بندوق نہیں صرف قلم ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ملک میں صرف آئین کی حکمرانی ہوگی اور کوئی آمر اس ملک کو تہس نہس کرنے کی جرآت نہیں کر سکے گا ۔ تین نومبر کے اقدامات پر آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے اس سے پہلے عدالت کو بتایا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا کی آنکھوں کا آپریشن ہے لٰہذا مزید سمات کچھ روز کے لیے ملتوی کی جائے عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ پی سی او ججوں کی آئینی حثیت کے بارے میں تحریری جواب داخل کرائیں۔ عدالت نے مزید سمات چار اپریل تک ملتوی کردی ۔