ممکنہ سیاسی مستقبل
عرصہ ہو چلا ملکی سیاسی حالات و معاملات پر لکھے ہوئے ،وجہ یہ نہیں کہ ہم ملکی سیاسی حالات پر لکھنا نہیں چاہتے یا یہ کہ ہمیں ملکی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ہے بالکل ہے ہمیں دلچسپی بھی اور چاہتے ہیں لکھنا بھی مگر پچھلے کافی عرصہ سے جو سیاست ہو رہی ہے اور جو حال سیاست کا کیا جارہا ہے ،اس وجہ سے ہمار ا من ہی نہیں کر رہا تھا لکھنے کو ،اور پھر یہ بھی کہ ہم لکھ بھی لیں گے تو کیا ہو جائے گا ہمارے لکھنے سے ،صرف ہم ہی کیا ہمارے ہی جیسے دیگر کئی لکھنے والے جو ریاست اور ریاست سے جڑے اہم قومی معاملات کو اپنے ذاتی معاملات و حالات پر ترجیح دیتے چلے آئے یا دیتے چلے آرہے ہیں ،اس سب کے لکھنے سے کیا ہوا یا فرق پڑا تو اس کا جواب نفی میں ہی سامنے آئے گا ،ہاں البتہ وہ لکھنے لکھانے والے بعض لکھاری جو ملک میں’’ ریاست مخالف انداز‘‘ متعارف ہی نہیں کروا رہے بلکہ اسے تقویت بھی دے رہے ہیں اور جو آن ائیر بولتے بھی ہیں ،یہ مزے میں ہیں ۔یہاں ہم پہلی بار ’’ریاست مخالف جرنلزم‘‘ کا زکر کر رہے ہیں مگر فی الوقت زکرپر ہی اکتفاکررہے ہیںاور مزید بات آئندہ کیلئے چھوڑے دیتے ہیں جبکہ باقاعدہ بات ملکی سیاسی حالات پر کئے لیتے ہیں ۔
ملکی سیاسی معاملات کو دیکھا جائے تو ملکی سیاسی عمل پر رواں صورتحال میں جو برُا وقت آیا ہواہے اس کی مثال ملک کی سیاسی ہی نہیں پارلیمانی روایات و تاریخ میں بھی نہیں ملتی ۔اپوزیشن ہو یا حکومت ، اطراف سے جو عمل یا رد ِ عمل سامنے آرہا ہے اسے کسی طور قابل ِ قبول قرار دیا نہیں جاسکتا ۔اس سلسلے میں پچھلے ہفتے کے دوران پارلیمنٹ میں ہونے والے اُس ناخوشگوار واقعات کی مثال سب کے سامنے ہے جسے اندرون ملک کیا بیرون ملک پوری دُنیا نے دیکھا ،کیا اس قابل مذمت واقعات سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی نہیں ہوئی ،تو اس کا جواب یقینا ہاں میں ہو گا اور ہونا بھی چاہیے ۔مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جگ ہنسائی کی پروا ہے تو کسے ہے ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے ۔کسی کو بھی ریاست ،ریاستی معاملات ،ملک سیاست پارلیمان کسی بھی چیز کی توقیر کا خیال نہیں اور اگر’’ انہیں ‘‘ اگر خیال ہے تو صرف اور صرف اپنے ’’ذاتی معاملات یعنی مفادات کا ۔ریاست کا خیال ہے نہ ملک کے وقار کا ،سیاسی اقدار زہن میں ہیں نہ ہی پارلیمنٹ کا تقدس زہن نشین ۔تو ایسے میں اگر ہم بات کریں ملکی سیاسی و پارلیمانی صورتحال کی تو کیا کریں ،اسے تو دیکھ کر ہم بھی کہے دئیے دیتے ہیں کہ اس سے تو صدارتی نظام ہی بہتر محسوس ہورہا ہے تو کیوں نہ صدارتی نظام کو آزمایا جائے مگر جب ہم صدارتی نظام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ نظام بھی ہمیں مناسب نہیں لگ رہا کہ اگر یہ نافذ کر بھی دیا جائے تو۔۔۔کب تلک ۔یہ اب سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو ہی دینا ہے، چاہے ہم ہوں یا یہ سب ۔یہ سب سے مراد اپوزیشن بھی ہے اور حکومت بھی ۔فرض کیا کہ چلیں پارلیمانی نظام جام کر کہ صدارتی نظام ہی نافذ کر دیا جاتا ہے اورہر سُو ہریالی پھیل جاتی ہے ،سیاسی شور شرابہ ختم ہر چیز سکون سے روان ہونے لگتی ہے ،تو یہ تو وقتی سکون ہوا مستقل تو نہیں ۔اور ہمیں اب وہ فیصلے کرنے ہیں جو ملکی بھی اور قومی دونوں کی تعمیر و ترقی کیلئے مستقل ہوں اور اس ’’ مستقل نعمت‘‘ کے حصول کیلئے سب سے پہلے سیاسی استحکام کی ضرورت ہوا کرتی ہے جس ہی کے حصول کی بات تو ہر کوئی کرتا تو چلا آیا ہے مگر اب کسی کی بھی ز باں سے سنی نہیں جارہی ہے بلکہ یہ بات اب کوئی کر بھی نہیں رہا حالانکہ سب کے لئے چاہیے ملکی قومی مفادات ہوں یا ذاتی مفادات سب کے لئے اگر کوئی چیز سب سے زیادہ ضروری ہے تو یہی اک چیز ہے اور وہ ہے ملکی سیاسی استحکام ۔اور اسی سیاسی استحکام ہی سے ملکی معاشی استحکام ،اقتصادی استحکام ،تجارتی استحکام،زرعی استحکام ،اور دفاعی استحکام سمیت ہر طرح کا استحکام وابستہ ہے اسی لئے ہم آج اپنے اس کالم کے زریعے اپوزیشن جماعتوں ہی کو نہیںپارلیمنٹ میں موجود حکومتی بنچوں پر بیٹھے پارلیمنٹیرینز سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ خدا کیلئے اس پارلیمنٹ کی توقیر کو مد نظر رکھا جائے اور ایکدوسرے کو سننے اور سنانے کا پورا پورا موقع دیا جائے تاکہ ملک کو درپیش اندرونی ہی نہیں بیرونی مصائب و مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے، اگربجٹ اجلاس میں پہلے دن وزیراعظم کو بولنے کا موقع پورا فراہم کر دیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اپوزیشن لیڈر بھی اپنی تقریر پوری نہ کر پاتے ۔اگر اس تمام صورتحال کو دیکھا جائے تو اس کی زمہ داری کل کلاں کو اپوزیشن ہی پر عائد ہوگی اور کہا جائے گا کہ اپوزیشن نے ہمیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ویسے بھی اپوزیشن کی سیاسی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت اس کا وجودا ب تک حکومت کیلئے کوئی قابل ِزکر مشکلات پید ا کرنے میں یکسر ناکام رہا ہے اور اگلے بقیہ دو برسوں کے دورا ن بھی جو دھڑااپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑا نظر آرہا ہے وہ حکومت ہی کا ہے۔ تاہم جہاں تک بات اگلی انتخابی مدت تک کی ہے تو اس میںیہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بات 2023کے انتخابات تک پہنچنے سے پہلے ہی صداتی نظام پر آجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ 2023کے انتخابات کے بعد جو حکومت معرض وجود میں آئے اس میں پی پی پی ،پی ٹی آئی مسلم لیگ ن سمیت دیگر علاقائی جماعتوں پر مشتمل تو ہومگر اس میں نواز شریف ،آصف علی زرداری اور مولانا فضل محمود نہ ہوںاور یقینا ہوں گے بھی نہیں بلکہ ان ہی جماعتوں کی نوجوان قیادت کو آگے لایا جائے یا پھر کسی اور کا انتخاب کر لیا جائے۔مگر یہ تو تمام باتیں قیاس سے متعلق ہیں اور قیاس آرائی پر تو ،سیاسی ہو یا حکومتی کوئی بھی عمارت کھڑی نہیں کی جاسکتی ،ہاںالبتہ اندازے کبھی کبھی درست بیٹھ ہی جایا کرتے ہیں ۔ہماری تو بس دعائیں ہی ہیں کہ کسی طرح اُن کروڑوں ووٹروں جو عوام کہلاتے ہیں کی امیدیں توقعات پوری ہو جائیں جوانہوں نے محض وزیراعظم عمران خان ہی سے نہیں خود اپوزیشن قائدین سے بھی 2018کے الیکشنز میں وابستہ کر رکھی تھیں اور جو ملک میں جاری عدم سیاسی استحکام ہی کہ وجہ سے تاحال پوری نہیں ہو سکیں ۔