عوام کا انتخابی عمل اور جمہوریت پر اعتماد برقرار رکھنا الیکشن کمیشن اور سیاسی قیادتوں کی ذمہ داری ہے
پنجاب ‘ خیبر پی کے ضمنی انتخابات! بدنظمی‘ قتل و غارت گری اور انتخابی عملے کے غائب ہونے کے افسوسناک واقعات
پنجاب اور خیبر پی کے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے چار حلقوں میں ضمنی انتخابات کے دنگل میں حکمران پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی ایک نشست پر جبکہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور خیبرپی کے کی دونوں صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ ان میں حلقہ پی پی 51 وزیرآباد اور حلقہ پی کے 63 نوشہرہ شامل ہیں جہاں غیرسرکاری نتائج کے مطابق بالترتیب بیگم طلعت شوکت اور اختیار ولی نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مدمقابل کامیابی حاصل کی۔ حلقہ این اے 45 ضلع کرم میں پی ٹی آئی کے امیدوار ملک فخرزمان نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار کے مدمقابل کامیابی حاصل کی۔ الیکشن کمیشن نے حلقہ این اے 75 سیالکوٹ کے غیرحتمی نتائج کا اعلان روک دیا۔
ان ضمنی انتخابات میں سیالکوٹ کا حلقہ این اے 75 بدنظمی کی بدترین مثال بنا رہا جہاں مسلم لیگ (ن) کی سیدہ نوشین افتخار اور پی ٹی آئی کے علی اسجدملہی ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ اس حلقے کے مختلف پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ کے آغاز ہی میں لڑائی جھگڑوں اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے باعث دو افراد جاں بحق اور دس افراد زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں ذیشان کا تعلق مسلم لیگ (ن) اور ماجد کا تعلق حکمران پی ٹی آئی سے تھا۔ اس افسوسناک واقعہ پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور عہدیداران نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کیا اور مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال اور مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی کو امن و امان خراب کرنے کا موردالزام ٹھہرایا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان اور پی ٹی آئی کے سیالکوٹ کے رہنما عثمان ڈار نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماء رانا نثاراللہ پر حالات کی خرابی کا سارا ملبہ ڈالا جن کیخلاف قتل کی ایف آئی آر بھی درج کرادی گئی۔
اس حلقے کے ضمنی انتخاب کا سب سے افسوسناک واقعہ 20 پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کا ووٹوں کے تھیلوں سمیت غائب ہونا تھا جس کا پاکستان الیکشن کمیشن نے بھی سخت نوٹس لیا اور معاملہ کی انکوائری کے احکام جاری کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو حلقہ این اے 75 کے غیرحتمی نتائج کے اعلان سے روک دیا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان الیکشن کمیشن کی جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ’’حلقہ این اے 75 سیالکوٹ کے نتائج تاخیر سے موصول ہوئے۔ اس دوران متعدد بار پریذائیڈنگ افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی ہوئی۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کی اطلاع پر چیف الیکشن کمشنر نے آئی جی پولیس پنجاب‘ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سے رابطہ کی کوشش کی تاکہ متعلقہ پریذائیڈنگ آفیسرز کا پتہ لگایا جاسکے مگر کوئی ریسپانس نہ ملا۔ چیف سیکرٹری پنجاب سے ایک دفعہ رابطہ رات تقریباً تین بجے ممکن ہوا جنہوں نے گمشدہ آفیسرز اور پولنگ بیگز کو ٹریس کرکے رزلٹس کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی مگر پھر انہوں نے خود غیردستیاب (Unavailable) کرلیا۔ کافی تگ و دو کے بعد تقریباً صبح چھ بجے پریذائیڈنگ آفیسرز بمعہ پولنگ بیگز حاضر ہوئے۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر حلقہ این اے 75 سیالکوٹ نے یہ اطلاع دی کہ 20 پولنگ سٹیشنوں کے نتائج میں ردوبدل کا شبہ ہے لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقہ کا غیرحتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان معروضات کی بنیاد پر حلقہ این اے 75 سیالکوٹ کے غیرحتمی نتائج کے اعلان سے روک دیا ہے اور مکمل انکوائری اور ذمہ داران کے تعین کیلئے متعلقہ ریٹرننگ افسران کو ہدایات جاری کی ہیں۔ ساتھ ہی صوبائی الیکشن کمشنر اور جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچنے کی ہدایت کی ہے تاکہ معاملات کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔ چیف الیکشن کمشنر نے متعلقہ حلقہ کا ریکارڈ مکمل طور پر محفوظ کرنے کی بھی ہدایت کی ہے اور قرار دیا ہے کہ یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔
کسی حلقے کے 20 پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسران کا پولنگ بیگز سمیت ایک ہی وقت میں اچانک غائب ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ کسی انتخابی فریق کی گہری منصوبہ بندی لگتی ہے چنانچہ اس صورتحال پر مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں کو بھی سیاست کا بازار گرم کرنے کا موقع ملا۔ مریم نواز نے اپنے ٹویٹر پیغام کے ذریعے انتخابی عمل کو رگیدا اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے الیکشن کمیشن کی جاری کردہ پریس ریلیز کو بنیاد بنا کر الزام عائد کیا کہ متعلقہ انتخابی عملہ کو اغواء کراکے انتخابی نتائج تبدیل کرائے گئے ہیں۔ انکے بقول اس حلقہ کے ضمنی انتخاب میں دیگر تمام پولنگ سٹیشنوں پر ٹرن آئوٹ 30 فیصد تک تھا جبکہ غائب ہونیوالے 20 پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسران نے ان حلقوں میں ٹرن آئوٹ 80 فیصد ظاہر کرکے پولنگ بیگز میں پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ ڈالے اور اس طرح مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی واضح جیت کو شکست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
اس معاملہ پر فریقین کی جانب سے تو یقیناً سیاست کا بازار گرم کیا جاتا رہے گا تاہم یہ صورتحال خود الیکشن کمیشن اور متعلقہ انتظامی مشینری کیلئے بھی لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ اس سے شفاف انتخابات کے عمل پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملہ کی مکمل انکوائری کرکے متعلقہ پولنگ سٹیشنوں کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا چاہیے اور بہتر یہی ہوگا کہ ان پولنگ سٹیشنوں پر سخت انتظامی اقدامات کے ساتھ دوبارہ انتخاب کرایا جائے اور ساتھ ہی غائب ہونیوالے انتخابی عملہ اور انکے معاونین کا جرم ثابت ہونے پر ان کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ یہ صورتحال عوام کو انتخابی عمل اور جمہوریت سے بدگمان کرنے کی سازش معلوم ہوتی ہے جس کا ازالہ مکمل شفافیت کے ساتھ انکوائری سے ہی ممکن ہے۔
جہاں تک گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کراچی‘ پشین (بلوچستان)‘ نوشہرہ‘ ضلع کرم (خیبرپی کے) اور ڈسکہ‘وزیرآباد (پنجاب) میں ہونیوالے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج کا معاملہ ہے یہ حکمران پی ٹی آئی کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کیونکہ ان میں سے صرف کرم کی نشست پر پی ٹی آئی کا امیدوار کامیاب ہو پایا ہے۔ حلقہ این اے 75 کا نتیجہ رک چکا ہے اور دیگر حلقوں پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ نوشہرہ کی نشست تو حکمران پی ٹی آئی کی اپنی نشست تھی جس میں ناکامی بادی النظر میں عوام کے بدلتے ہوئے تیوروں کی عکاسی کررہی ہے۔ حکومت کو اس امر کا بہرصورت احساس و ادراک کرنا چاہیے کہ عوام حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں اڑھائی سال کے عرصہ میں اپنے روٹی روزگار اور مہنگائی کے گھمبیر ہوتے مسائل سے عملاً عاجز آچکے ہیں اور سابق حکمرانوں کی لوٹ مار سے نجات حاصل کرنے کیلئے عمران خان سے وابستہ ان کا رومانٹسزم اب ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ اگر حکومت نے عوام پر تسلسل کے ساتھ مہنگائی کا بوجھ لادنے اور انہیں بے روزگاری کی جانب دھکیلنے کی پالیسیاں برقرار رکھیں تو اگلے عام انتخابات میں بھی اسے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج جیسے عوامی ردعمل کا ہی سامنا کرنا پڑیگا۔