حضرت ابراہیم علیہ السلام کانمرور سے مکالمہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت توحید کی خبر اس زمانے کے بادشاہ نمرود تک پہنچی تو اس نے آپ کو پرسش کے لیے اپنے دربار میں بلوالیا، نمرود عراق کا مطلق العنان بادشاہ تھا، اس زمانے کے بادشاہ اپنے آپ کو دیوتا کے ’’اوتار‘‘کی حیثیت سے پیش کرتے تھے ، چین ، ہندوستان ، مصر میں یہ چلن عام تھا، یعنی ان کی قوم میں جن دیوتا ئوں کی پرستش کی جاتی ، بادشاہ ان میں سے بڑے دیوتا کامظہر سمجھاجاتا ہے، اس طرح بادشاہ کوسیاسی اورمذہبی دونوں قسم کا اقتدار حاصل ہوجاتا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم مظاہر قدرت کی پوجا کرتی تھی ، سورج ، چاند ، ستارے ان کے معبود تھے، اوربت اوربادشاہ ان کے مظہرارضی۔ نمرود نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کے بارے میں سنا تو اس کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ اس کی مزعومہ خدائی میں کسی اورکی الوہیت کی دعوت دی جائے۔ قرآن نے ارشادفرمایا : کہ اسے اقتدار اوربادشاہت اللہ نے عطاء فرمائی تھی ، لیکن اکثر صاحبان اقتدار غرور اورتکبر کا شکا ر ہوجاتے ہیں اورشکر وعاجزی کا طریقہ اختیار کرنے کی بجائے، تکبر وسرکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اقتدار ومملکت کو اللہ رب العزت کا فضل وکرم سمجھنے کی بجائے اپنے علم ، تدبر اورسیاست کا ثمرہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔نمرود نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے استفسار کیاکہ آپ کس پروردگار کی پرستش کی بات کرتے ہیں توآپ نے ارشاد فرمایا، میرا رب وہ ہے جس کی اختیار میں زندگی اورموت ہے ، جو سلیم الفطرت شخص میں زندگی اور موت کے نظام پر غور کرے گا وہ اس حقیقت کوپالے کہ یہ نہ تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اورنہ ہی اس جیسی کسی اورمخلوق کی دسترس میں، جن لوگوں کو طب وحکمت سے بڑی شناسائی ہوتی ہے وہ بھی موت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ جن لوگوں کو الوہی اختیار کا دعویٰ ہوا ہے وہ بھی ایک عالم بے چارگی میں موت کے گھاٹ اتر گئے ، لیکن نمرود کے دماغ میں چونکہ اقتدار کا خنّاس سمایا ہوا تو، اس لیے اس نے اس واضح حقیقت کو غوروفکر کرنے کی بجائے یہ بے تکی بات کہہ دی کہ موت اورزندگی پر تو میں بھی اختیار رکھتا ہوں جس کا سرچاہوں قلم کردوں،جس کے بارے میں چاہوں موت کا حکم صادر کردوں ، جسے چاہوں بخش دوں اورعین تختہ دار پر سے اسے واپس بلالوں یا جلاد کی اٹھی ہوئی تلوار کو واپس نیام میں رکھنے کا حکم دے دوں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل میں جو لطافت تھی، نمرود کی بات اس کے بالکل برعکس تھی، آپ اس پر معارضہ فرما سکتے تھے، لیکن آپ سمجھ گئے کہ یہ کٹ حجتی پر اترآیا ہے۔اس لیے آپ نے بحث وتکرار میں الجھنے کی بجائے اپنے پاک پروردگار کادوسرا وصف بیان فرمادیا، آپ نے فرمایا میرا رب تو وہ ہے جو ہرروز سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اگر تمہیں بھی پندار خدائی ہے تو تم اس کو مغرب سے طلوع کرکے دکھادو، آپ کی ناقابل تردید دلیل سن کر نمرود ہکا بکا ہوکر رہ گیا۔ اس دلیل میں جہاں اس کی بے بسی کی مکمل عکاسی تھی، وہیں پران کے مذہبی رحجانات اورسورج ،دیوتا کانام نہاد اوتار ہونے کی قلعی بھی کھول کررکھ دی گئی تھی۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024