جو تجھے پسند ہے میرے خدا، مجھے اس ادا کی تلاش ہے!
کل تک جو ناممکن نظر آتا تھاوہ ہو چکا۔ نواز شریف کہتے تھے ؛ کپتان جاؤ! کرکٹ کھیلو، سیاست تمھارے بس کی بات نہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر نے کہا کہ عمران خان اگر وزیر اعظم بنے تو میںچوک میں خود کشی کر لوں گا! جس خاندان نے 56کمپنیوں کے سربراہ شاہی تنخواؤں پر بیوروکریسی میں سے چُن چُن کر لگائے وہ ملک کی جڑوں میں بیٹھ چکا تھا ۔ ان کے گرد جو مفاد پرست ٹولہ اپنی بادشاہت کو خطرے میں نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہ کسی اور کا وزیر اعظم بننا اسے برداشت تھا؟سالہا سال سے عوام کے نام پر قرض لے لے کر کھانے والے ایک کھلاڑی کو اختیارات دینے پر کبھی راضی نہیں ہو سکتے تھے۔ عمران ،اشرافیہ کو چھوڑ کر مڈل کلاس لوگوں کو آگے لانے کی قسم اٹھاتا ہے، مافیا یہ بات کیسے ہضم کر سکتے ہیں؟ ان کے نظام میںنسل در نسل بادشاہت ہی پاکستان میں چلے گی۔ان کی نظریں صرف اور صرف خاندانی مفادات پر جمی ہوئی ہوتی ہیں۔اپنے مفادات کیلئے یہ لوگ اپنے ملک کے کسی حصے یا عزت و غیرت کو فروخت کرنے یا رہن رکھنے سے گریز نہیںکرتے ۔ان سب نے اپنے گھر (safe heaven )ملک سے باہر بنا رکھے ہیں ،ان کے اکاؤنٹ باہر ہیں، کاروبار باہر ہیں۔ یہ اپنے بخار اور کھانسی کا علاج تک اپنے ملک میں نہیں کراتے۔ کرپشن کا جال ملک کے طول و عرض میںoctopus کی پھیل چکا ہے۔آٹھ ٹانگوں ، نو دماغوںاور نیلے خون والی اس مخلوق کے خون چوسنے والے sucker سارے ملک کے ہر محکمے میں پھیلے ہوئے ہیں۔عمران نے کئی دنوں کے غور اور غوض کے بعد پنجاب کے وزیر اعلٰی کیلئے ایک عام سا آدمی آگے کیا تو قوم سناٹے میں آ گئی! یہ قوم تو عادی ہے بڑے بڑے ناموں کی۔ شاطر جوڑ توڑ کے ماہرایسے عہدوں پر اس لئے لگائے جاتے کہ وہ بیورو کریسی کو tameکر سکیں۔ لاہور کی اشرافیہ کو چھوڑ کرایک پسماندہ علاقے کو نمائندگی دینا ایک روایت شکن کام ہے۔ اگر یہ شخص کام نہیں کرتا توعمران کیلئے اس کو نکالنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔عمران کے حلف میں بھی نقطے نکالے گئے کہ عینک دیر سے نکالی، الفاظ درست نہیں پڑھے ۔خدارا ! عمران کی نیت،ارادے اور قوم کیلئے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس کو دیکھئے۔کام ٹھیک ہو تو مدد کیجئے۔دعا کیجئے۔ ستر برسوں میں پہلی مرتبہ کوئی یہ کہتا ہے کہ مدینہ کی فلاحی ریاست میری منزل ہے۔ یہی نظریہ پاکستان ہے۔ جو اس نظریے کے مخالف ہیں وہ کبھی یہ ہضم نہیں کر سکیںگے۔ پیپلز پارٹی بدل بدل کر چالیں چل رہی ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے دن بلاول کی تقریر زہر آلود تھی۔ جس انتخاب سے بلاول جیت کر اسمبلی میں پہنچے وہ تو جائز تھا اور جوعمران کو آگے لائے وہ selection کہلائے ، آخر کیوں؟ الیکشن کمیشن سے کسی کو گلہ ہے تو کمیشن عمران کی پارٹی نے نہیں بنایا تھا۔ اس کا جو قانونی طریقہ ہے وہ ضرور اختیار کیا جائے۔اب پیپلز پارٹی ، ن لیگ سے سودے بازی میں مصروف ہے۔ صدر کیلئے پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن اور اپوزیشن لیڈر کیلئے ن لیگ کے شہباز شریف۔ اگر یہ اتحاد ملکی مفاد میں ہو تو سر آنکھوں پر ! اگر یہ اتحاد اپنے کرپشن کیس چھپانے کیلئے اور status quo کو قائم رکھنا ہے تو یہ unholy alliance کہلائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر بے حد روح افزا ہے۔ قرض ، کرپشن، اصراف،بے انصافی، قانون کی حکم رانی، تعلیم، علاج، سادگی اور پولیس کی زیادتیاں اس شخص کی فکریں ہیں۔ رُخ واضح ہے!! سنگِ میل مقرر کر دئے گئے!! یہی سب کچھ وہ ٹھیک کرنا چاہتا ہے۔ ٹورازم اور تعمیرات کے ذریعے ملک میں روزگار مہیا کرنا چاہتا ہے۔ درخت ملک کی اہم ضرورت ہیں۔ چپے چپے پر لگانے کی ضرورت ہے۔ بچپن میں ہم درسی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان میں جنگلات 4% ہیں۔ میں نے حال ہی میں ایک عالمی رپورٹ دیکھی ہے جس میں اب جنگلات کو صرف 2%بتایا گیا ہے۔یہ خاتمے کی طرف جا رہے ہیں۔ درخت ماحولیاتی بہتری کا اہم جزو ہیں۔ یہ نہ رہے تو بارشیں کہاں سے آئیں گی۔ جنگلات غریب کی زندگی کا ایک بڑا سہارا ہیں۔ ان کو ترجیح دینا، زندگی کی بقا ہے۔ درٖخت لگائیے اور درخت بچائیے!! کبھی کسی سیاسی پارٹی نے یہ مہم شروع نہیں کی۔ تحریک انصاف نے کے پی میں اپنے اہداف پورے کیے مگر بڑے بڑے علماء نے ان کا مذاق اڑایا۔ ایک نے دوسرے کو گواہ بنایا!! جیسے سیاسی پارٹیوں کا کام صرف قرضے مانگنا اور بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا ہے۔ا قوامِ متحدہ 25% جنگلات کسی بھی ملک کیلئے ضروری قرار دیتا ہے۔ ہمیں یہ ٹارگٹ مل جل کر حاصل کرنا ہے۔عمران نے بہت سی اچھی باتوں کا ذکر کیا۔شاید ملک و ملت سے محبت کرنے والے اس کی مدد کو آگے آئیں۔ عمران نے بیوہ عورتوں کے مسائل کا ذکر کیا مگر بات اس سے بہت بڑھکر کرنے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو وں کے بہت سے گوشوں سے کبھی مکمل فائدہ نہیں اٹھایا۔عورتوں کے حقوق بظاہر ایک سوشل مسلہ ہے مگر کسی بھی ملک کیلئے یہ اہم اقتصادی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ نصف آبادی کی زندگی کا یہ سوال ہے!عورتوںکے حقوق میں سب سے اہم وراثت میں اس کو حصہ دینا ہے۔ ایک طرف جاگیریں تقسیم ہونگی اور دوسری طرف عورت کسی کی محتاج نہ ہوگی۔
آسٹریا کے مشہور فلاسفر جنہوں نے اسلام پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں کہتے ہیں کہ؛قانونِ وراثت، اسلامی شریعت کی حد درجہ بے مثال شاخ ہے؛ اس قانون پر عمل کرنے سے ملک میں دولت پر جاگیر داروں کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی اور دولت کی گردش چند ہاتھوں سے نکل کر پوری قوم میں پھیل جائے گی۔افسوس ناک معاملہ یہ ہے کہ ملک کے علماء عملی طور پر کبھی اس کے حق میں نہیں رہے۔ قانون ہوتے ہوئے بھی کمزور طبقات عدالتوں میں خوار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اب اپنی عدالتوں کی طرف توجہ دیں اورکمزوروں کو عدالتی نظام کے ظلم سے نجات دلائیں۔