مادرِ جمہوریت بیگم کلثوم نواز
موت اٹل حقیقت ہے، ایک نہ ایک دن سب کو آنی ہے مگر کچھ ایسی شخصیات کے اس جہان فانی سے چلے جانے کا غم نہ صرف اپنوں کو رلادیتا ہے بلکہ پرائے بھی آنسو بہائے نہیں رہتے۔ میرا موضوع سخن میری بڑی بہنوں جیسی میری لیڈر مادر جمہوریت بیگم کلثوم نواز کی رحلت ہے۔ ان کی وفات پر نہ صرف اپنے روئے بلکہ پرلے درجے کے سیاسی مخالفین بھی وفات کا سن کر افسردہ ہو گئے:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
مرحومہ کی نماز جنازہ پر ہر شخص یہ کہتے سنا گیا کہ تحریکِ بحالی جمہوریت کی جدوجہد میں بیگم کلثوم نواز نے سیاسی منظر نامے پر انمٹ نقوش مرتب کئے۔ تحریک بحالی جمہوریت کے دوران بیگم کلثوم نواز سے متعلق ان گنت یادیں اور واقعات ہیں جنہیں قطعہ ارتعاش پر ثبت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے انہی اوصاف حمیدہ کے طفیل وہ ہمیشہ ممتاز رہیں اور تا ابد رہیں گی۔ مثل مشہور ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح کامیاب طلباء کی کامیابیوں میں ان کے والدین کی دعائیں اور اساتذہ کی شب و روز کی محنت کار فرما ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح میرے جیسے سیاسی طالب علموں کی رہنمائی اور کم ہمتی کو بلند حوصلے میں بدلنے کا سہرا صرف اور صرف مادر جمہوریت بیگم کلثوم نواز کے سر ہی سجتا ہے۔12اکتوبر 1999ء کی مشرف آمریت کو سب سے پہلے چیلنج کرنے کا اعزاز بھی راقم کو ہی حاصل ہے۔ میری یاداشت کے مطابق اس وقت قائد محترم میاں محمد نوازشریف لانڈی جیل کراچی میں تھے ان پر طیارہ سازش کیس ٹرائل ہو رہا تھا۔ احاطے عدالت میں بیگم کلثوم نواز کی ملاقات کے وقت راقم بھی موجود تھا۔ اس ملاقات میں تحریک بحالی جمہوریت چلانے کے متعلق فیصلہ ہوا۔جب تحریک چلانے کی بات ہوئی تو کئی احباب نے برملا کہا کہ بیگم صاحبہ خالصتاً گھریلو خاتون ہیں وہ ایک طاقتور آمر کا کسی صورت مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔ مگر چشم فلک نے دیکھا ایک گھریلو اور سیدھی سادھی خاتون نے مشرف جیسے آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے رکھ دیا بیگم کلثوم نواز نہ صرف نڈر، بہادر، جفا کش اور بیباک لیڈر تھیں بلکہ اعلیٰ پائے کی مدیر، صلح جو بھی تھیں۔ ایم اے اُردو ہونے کے باعث اُردو شعر و ادب میں بھی انہیں کمال کا ملکہ حاصل تھا، بلاکی مقرر تھیں ان کی تقاریر اور لہجے میں ہمیشہ مٹھاس ہوتی، زبان و بیان کا انداز بھی نہایت مدلل ہوتا۔ فقروں کو موقع کی مناسبت سے ادا کرتیں، بلاوجہ تنقید برائے تنقید سے کوسوں دور تھیں۔ عام طور پر ہمیشہ نرمی کے ساتھ گفتگو کرتیں۔ عجب بہادر اور نڈر تھیں میں نے انہیں کسی بھی حال میں کبھی بھی پریشان نہیں پایا اور نہ ہی پریشانی کے لمحات میں ان کی گفتگو میں کسی قسم کا کوئی ہیجان پیدا ہوتا۔
لاہور سے باہر ایک جلسے میں جانے کے لئے محترمہ ماڈل ٹائون گھر کے جنگلے توڑ کر نکلیں میری گاڑی ان کی گاڑی کے پیچھے تھی۔ ایف سی کالج پل پر پولیس نے ان کی گاڑی رکاوٹیں کھڑی کرکے روکی اور کرین سے اوپر اٹھا لیا۔ اس موقع پر راقم بیگم کلثوم نواز کی گاڑی کو اٹھانے والی کرین پر لپکا جس کے باعث میرے دائیں ہاتھ کی انگلی کٹ گئی۔ رات گئے تک ٹوٹی ہوئی انگلی کو لئے گاڑی کے ساتھ ساتھ رہا۔ اس سارے واقعہ کی کوریج کرنے والے صحافی حضرات اس بات کے گواہ ہیں کہ جی او آر میں گاڑی میں محبوس افراد اور راقم کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا۔ پولیس اہلکاروں نے راقم کو بھی کئی بار گرفتار کرنے کی کوششیں کیں مگر غیور صحافیوں نے تمام کوششیں ناکام بنا دیں۔ گاڑی کے اندر سے محترمہ کا مسلسل میرے ساتھ رابطہ رہا۔
یہ 3سالہ اذیت ناک دور جو1999ء سے 2001ء تک محیط ہے۔ شریف فیملی کیلئے انتہائی مصائب و آلام کا دور تھا۔ قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کا راگ الاپنے والے اکثر مشرف کے ہمنوا بن گئے۔ ایسے میں کئی قد آور شخصیات جن سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔ در پردہ اور ظاہری طور پر مشرف کی جھولی میں جا بیٹھے۔ ان حالات میں شریف خاندان خصوصاً قائد محترم میاں نوازشریف کی باعزت رہائی جمہوریت کی بحالی کیلئے باامر مجبوری بیگم کلثوم نواز کو کارزار سیاست قدم رکھنا پڑا۔ ہر خاص و عام بخوبی آگاہ ہے کہ ہر دور کے فرعون کی سرکوبی کیلئے ایک موسیٰ پیدا ہوتا ہے ایوب آمریت کو للکارنے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح میدان میں آئیں۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی جمہوریت کے لئے خدمات اور قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مادر ملت نے طویل عرصہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ گزرا تھا جبکہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی تربیت ذوالفقار علی بھٹو کرتے چلے آ رہے تھے مگر بیگم کلثوم نواز بحالی جمہوریت تحریک کے آغاز سے قبل وہ بالکل گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا بلکہ بہت ہی قلیل عرصے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا چار سو لوہا منوایا بہت ہی تھوڑے عرصے میں مسلم لیگ میں نئی روح پھونک دی۔
سکوت کے حامل سیاسی میدان میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ اپنی خداداد قائدانہ صلاحیتوں کے باعث مسلم لیگ کے کارکنوں، عہدیداروں، ورکرز پریس، سیاسی لیڈروں اور وکلاء سمیت سول سوسائٹی کے جید افراد کو اپنے سحر انگیز خطابات سے گرویدہ بنا لتیں۔یہ وہ دور تھا جب بڑے بڑے نامور سیاستدان مشرف کے خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔
4 فروری 2001ء کو یوم یکجہتی کشمیر منانے اور نیلابٹ کشمیر جانے کے لئے ہم لاہور سے روانہ ہوئے پہلا پڑائو میاں نواز شریف کے مری والے گھر کیا۔ رات گیارہ بجے بیگم صاحبہ نے حکم دیا کہ ہم نے راتوں رات مظفر آباد میں سردار عبدالقیوم کے گھر پہنچنا ہے چلیں، کیپٹن (ر) محمد صفدر، بیگم صاحبہ کے بھائی میاں لطیف مرحوم، محترمہ تہمینہ دولتانہ اور چودھری صفدرالرحمن ہم سب تین گاڑیوں پر مشتمل قافلے کی صورت روانہ ہوئے۔ ہم نے آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ ا یک بھاری بھرکم درخت سڑک پر گرا پڑا تھا۔مجبوراً ہمیں گاڑیاں وہاں روکنا پڑیں کافی دیر انتظار کے بعد میں گاڑی سے اُتر کر اِدھر اُدھر مدد کے لئے آدھی رات کو آوازیں لگائیں، کوئی بھی نہ آیا۔ گرمی کے موسم میں حبس اور مچھروں نے تنگ کر رکھا تھا۔ کافی دور پہاڑی کے قریب ایک گھر میں لائٹ جلتی نظر آئی میں نے بیگم کلثوم نواز صاحبہ سے کہا کہ میں وہ دور لائٹ کی طرف جاتا ہوں ہو سکتا ہے کوئی ہماری مدد کر دے۔ سو کافی دیر پیدل چلنے کے بعد خود کو ایک گھر کے سامنے پایا۔ دروازہ کھٹکھٹانے پر بابا غلام حسین نامی شخص باہر نکلا۔ ساری صورتحال سے آگاہی پر اس نے اپنی بیوی بچوں کو جگایا۔ مجھے چارپائی دی جسے سر پر اٹھا کر گاڑیوں کی طرف چل دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد تین چارافراد کلہاڑیوں کے ساتھ وہاں آ گئے بابا غلام حسین اپنے بیٹے کے ہمراہ چائے لیکر بیگم صاحبہ کے لئے آ گیا۔ یوں ہم یوم یکجہتی کشمیر کی احتجاجی ریلی اور انسانی زنجیر بنانے کے لئے جانے میں کامیاب ہوئے۔ وہاں کیپٹن(ر) صفدر نے پرجوش انداز میں واہ رے سندھیلہ واہ کا پرجوش نعرہ لگایا۔ یہاں ایک بات کا ذکر نہ کروں تو تاریخی بخل ہوگا۔ کیپٹن (ر) صفدر نے ان تمام کڑے حالات میں جرأت و ہمت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔
جن دنوں میاں نواز شریف کا جیل میں طیارہ سازش کیس ٹرائل چل رہا تھا انہی دنوں ان کے وکیل اقبال رعد ایڈووکیٹ کو انہی کے دفتر میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ اقبال رعد کا آبائی گھر تحصیل ننکانہ ا ور ضلع فیصل آباد کی بانڈری لائن پر تھا۔ بیگم کلثوم نواز نے اقبال رعد کے گھر افسوس کے لئے جانا تھا۔ طے پایا کہ بیگم صاحبہ اقبال رعد ایڈووکیٹ کے گھر جانے سے قبل شیخوپورہ شہر میں مسلم لیگ کے ورکروں، عہدیداروں ا ور سول سوسائٹی کے جید ا فراد کو تحریک بحالی جمہوریت میں ہمہ وقت متحرک رکھنے کے لئے ان سے ملاقات کریں گی۔ مشرف کے خوف سے کوئی بھی قدآور سیاسی شخصیت بیگم صاحبہ کی میزبانی کیلئے تیار نہ تھی۔ بیگم صاحبہ کو دعوت دینا اپنے لئے مصیبت کھڑی کرنے کے مترادف تھا لیکن سب نے دیکھا کہ بیگم کلثوم نواز کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے ڈالی ۔ بیگم صاحبہ ابھی میرے گھر نہ پہنچی تھی کہ پولیس نے ٹریکٹر چوری کے الزام میں میرے بوڑھے والد اور 2 بھائیوں کو گرفتار کر کے تھانہ فاروق آباد میں بند کر دیا۔ اسی دوران چودھری برجیس طاہر کو بھی بیگم صاحبہ کا پرجوش حامی ہونے پر گرفتار کر لیا گیا۔ انہی دنوں لاہور ہائی کورٹ آمد پر کارکنوں کا ایک جم غفیر بیگم صاحبہ کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمڈ آیا اس موقع پر مشرف کے ’’حواریوں‘‘ جو کہ پولیس کی وردیوں میں ملبوس تھے مسلم لیگی ورکروں پر وحشیانہ لاٹھی چارج کیا۔ کئی بیچارے کارکن خون میں نہا گئے راقم سمیت متعدد ورکر گرفتار کر لئے گئے۔ اس موقع پر بیگم صاحبہ یہاں سے جانے کے بجائے پولیس کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں۔ انہوں نے واضح اعلان کر دیا کہ جب تک پولیس گرفتار کارکنوںکو رہا نہیں کر دیتی وہ کسی صورت یہاں سے جانے والی نہیں ۔پولیس کو مجبوراً مجھ سمیت دیگر کارکنوں کو رہا کرنا پڑا۔ یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ قائد محترم میاں محمد نوازشریف سے میرے تعلقات 36 سالوں پر محیط ہیں مگر اس میں گہرائی اس وقت آئی جب منظور وٹو نے بطور وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کے ماڈل ٹاؤن لاہور میں گھر کے جنگلے گرائے تھے۔ اس موقع پرمیں نے احتجاجاً تا مرگ بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔ جب حالت بگڑ گئی تب میاں نواز شریف نے اپنے ہاتھوں سے دودھ کا کلاس میرے ہونٹوں کو لگا کر میری تا مرگ دم بھوک ہڑتال ختم کروائی تھی۔ اس موقع پر میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملے نکلے۔ میاں صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں پیرس میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوں لیکن آپ نے جو عزت مجھے بخشی ہے اب میں پیرس جیسا شہر آپ کی محبت پر نچھاور کرتا ہوں چاہے حالات کیسے بھی ہوں تا مرگ آپ کے شانہ بشانہ رہوں گا۔ (جاری)