رانا بلند اختر کاشمار بھٹو کے ابتدائی جیالوں میں ہوتا ہے۔ وہ لاہور پیپلزپارٹی کے صدر رہے۔ بارہ تیرہ سال قبل" بھٹو بچ جاتے اگر" کتاب شائع ہوئی۔ کتاب کی تیاری میں طارق اسماعیل ساگر کا میں معاون تھا۔ یہ کتاب زیادہ تر رانا بلند اختر کے خیالات پر مبنی ہے۔ کچھ اور لوگوں کے بھی اس کتاب میں انٹرویوز شامل تھے۔ کچھ ساگر صاحب اور میں نے ایک ساتھ جبکہ کچھ میں نے اکیلے بھی کئے۔ رانا بلند اختر پرانے ساتھی جیالوں سے بھی ملواتے رہے۔ میرا چھٹی کے روز ان کے گھر جانا ہوتا۔ رانا بلند اختر سیاسی دائو پیچ جانتے تھے مگر ان کی زندگی کرپشن اورمنافقت سے بہت دور تھی۔ وہ ہائی ایس وین کو عام سفر کیلئے استعمال کرتے۔ یہ ان کی سواری کیا تھی ان کا ڈیرہ تھا ،بیٹھک تھی۔ اس میں حقہ، پانی کا کولراور تکیہ وغیرہ موجود ہوتا۔ کتاب کی اشاعت کے بعد کافی سال ان سے رابطہ رہا پھر موبائل فون کی ادلا بدلی میں ان کا نمبر مس ہوگیا۔ چند دن سے ان سے ملاقات کا خیال آرہا تھا۔ 16 جون کو میرا جنم دن تھا۔ زندگی ایک برس اور کم ہوگیا۔ تاہم سالگرہ پر وِش کرنارسم ضرور ہے۔ اس حوالے سے قیوم نظامی صاحب کا فون آیا۔ ان سے رانا بلند اختر کے بارے پوچھا تو پتہ چلا رانا بلند اخترکا ڈیڑھ سال قبل انتقال ہوگیا ہے۔ نظامی صاحب کو رانا بلند اختر کی وفات کی بابت رانا صاحب کے بھتیجے نے بتایا تھا۔ اس نوجوان کا کہنا تھا رانا صاحب اہلخانہ کے ساتھ بیٹھے تھے، سب کیلئے چائے لائی گئی۔ رانا صاحب نے چائے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’آپ لوگ چائے پئیں، وہ مجھے لینے آگئے ہیں۔ میں ان کے ساتھ جارہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ بھتیجے کے مطابق ان کی قبر کھودی گئی تو حیران کن طور پر اس میں روشنی تھی۔
گزشتہ دنوں ایک ہی روز ہمارے دو کولیگ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ عزیز ظفر آزاد، نوائے وقت میں کالم نگار اور حفاظت اللہ سینئر آرٹ ایڈیٹر تھے۔ عزیز ظفر آزاد پاکستان قومی زبان تحریک کے صدر تھے۔ ان کی ایک آنکھ خراب تھی۔ سال ڈیڑھ سال قبل نئے گھر کی تعمیر کے دوران چوٹ لگنے سے دوسری آنکھ کی بینائی بھی جاتی رہی مگر ان کے معمولات پہلے کی طرح جاری رہے۔ وہ کسی اور اخبار میں لکھتے تھے۔ انہوں نے قائداعظم پر دو مضمون لکھے۔ مجید نظامی صاحب نے وہ لفٹ کرنے اوران سے رابطہ کرکے نوائے وقت میں لکھنے کو کہا۔ اس کے بعد سے وہ آخری سانس تک نوائے وقت سے وابستہ ہے اور 4 جون کو موت سے گلے جاملے۔حفاظت اللہ سے 15 سال سے نوائے وقت کے توسط سے تعلق تھا۔ عموماً کھلکھلاتے رہتے تاہم دفتر میں کچھ ساتھیوں سے ’’آڈا‘‘ بھی لگائے رکھتے تھے۔ ان کو بخار اور شدید کھانسی تھی۔ وہ اسے کرونا ماننے کو تیار نہ تھے۔ موت کی وادی میں اترنے سے دو روز قبل ان کا فون آیا ، تو ان کی حالت دگرگوں محسوس ہوتی تھی۔ انہوں نے ڈاکٹر سلیم اختر سے بات کرنے کیلئے میر ے سیل پر کال کی تھی۔ لواحقین موت کی وجہ شوگر اور بلڈپریشر شوٹ کرنا بتاتے ہیں۔شوگر سات سو ہوگئی تھی ۔ حفاظت اللہ کے انتقال کے بعد سے نوائے وقت آفس کی فضا خوف کے سائے لئے ہوئے کافی سوگوار ہے۔
14 جون کو عالمی شہرت کا (Living Eagle)زندہ شاہین بھی دنیا سے چل بسا جس پراسرائیل اور بھارت میں شدید مخاصمانہ، پاکستان اور شام میں نہایت محبانہ اور بنگلہ دیش میں متعصبانہ جذبات پائے جاتے تھے۔ یہ پاک فضائیہ کے شاہین سیف الاعظم تھے۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ بدلنے کے بعد وہ بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔ان کی وصیت تھی، کفن میں دل کے مقام پر سبز ہلالی پرچم ٹانک دیا جائے ان کی یہ خواہش ’’کالی ماتا‘‘ اور اس جیسے پاکستان کے دشمنوں کے سینے پر ناگ بن کر لوٹتی رہی۔ اسی لئے بنگلہ دیش میں ان کو مطلوبہ پروٹوکول نہیں دیا گیا۔ بھارت کی بھی ناراضی کا حسن کے نام پر داغ حسینہ کو اندیشہ تھا۔ سیف الاعظم نے 65 کی جنگ میں بھارت کا ایک جہاز مار گرایا جس کے پائلٹ مایا دیو نے کود کر ابھی نندن کی طرح جان بچائی تھی۔ الاعظم نے بھارت میں گھس پر 12ٹارگٹس اُڑا کے رکھ دیئے تھے۔ ان کی زندگی کا بطور پاکستانی سب سے بڑا کارنامہ1967 ء میں شام کی طرف سے لڑتے ہوئے تین اسرائیلی طیارے مار گرانا ہے۔
نیلام گھر والے طارق عزیز بھی دنیا میں کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ ان سے ایک دو ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نوازشریف جدہ چلے گئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے غبارے سے ہوار خارج اور ہم خیال گروپ جو آگے جاکر ق لیگ کے قالب میں ڈھل گیا اس میں بھری جارہی تھی۔ ہمایوں اختر خان کے گھر نئی پارٹی تشکیل پار رہی تھی۔ وہاں تین چار میٹنگوں میں بطور صحافی شرکت کا موقع ملا۔ ایک شام طارق عزیز ہمایوں اختر کے گھر کھانے سے قبل الگ بیٹھے تھے میں ان کے پاس جا بیٹھا۔ان دنوں وہ" وضعدار" ہوچکے تھے۔ ان سے دو تین سوال پوچھے اس میں ایک وہ بھی تھا جو ہمایوں اختر خان سے قبل ازیں پوچھا تھا۔ جواب دونوں کا ایک جیسا تھا’’آپ نوازشریف کو چھوڑ رہے ہیں۔‘‘
ہم نہیں چھوڑ رہے، وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘
طارق عزیز ہر دلغزیز شخصیت تھے مگر سیاست میں آنے سے ان کی ہر دلعزیزی تقسیم ہوگئی تھی ۔انہوں نے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور لاہور سے جیت گئے۔ سیاست میں نو آموزعمران خان کو ہرایا تھا۔ نیلام گھر نے ان کو عزت اور شہرت کے آسمان کا درخشندہ ستارہ بنا دیا تھا۔ سیاست میں انٹری ان کے شایان شان نہیں تھی اور پھر پارٹی سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے سپر یم کورٹ پر حملہ آور جتّھے کا حصہ بن گئے۔ اس جرم پر انہیں چودھری اختر رسول اور میاںمنیر سمیت قید کی سزا ہوئی گو طارق عزیز نے اس جرم سے یہ کہہ کر دامن بچانے کا یارا بھی کیا کہ تصویر میں ،میں دروازے سے تختی اکھاڑ نہیں رہا ، لگارہا ہوں۔ پھر وہ ن لیگ سے وابستگی پر بھی قائم نہ رہ سکے اور ق لیگ کے ساتھ سیاسی مستقبل وابستہ کر لیا۔
آپ بڑے فنکار ،بلند پائے کے کھلاڑی یا عظیم سکالر ہیں ۔آپ کابلا امتیاز احترام اور قدر منزلت غیرمتنازعہ رہنے تک ہے ۔سیاست میں آئیں گے تو آپکے سیاسی نظریات کے حامی پلکوں پر ضرور بٹھائیں گے مگر مخالفین جن میں سے بہت سوں کے آپ کل تک ہیرو تھے وہ تذلیل و تضحیک کی پستی تک گرانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ عمران خان کی طرح مخالفت دشنام ، الزام کے قلزم عبور کر کے وزارت عظمٰی کے منصب پر پہنچ جائیں تو"پوں باراں" ورنہ " تِن کانے"۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024