دہشت گردی کے عفریت پر فوری قابو پایا جائے
امریکا کے اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان سے نکلنے کے بعد وہاں حالات میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا اثر پاکستان میں دکھائی دے رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان میں جنگ کی جو آگ بھڑکائی تھی اس کی تپش اور شعلے پاکستان کی طرف بھی آئے اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بہت سی قربانیاں دے کر پاک افغان سرحد کے قریب واقع علاقوں میں امن و امان قائم کیا جس کے بعد ان علاقوں کے باسیوں نے اس بات پر سکھ کا سانس لیا تھا۔ لیکن امریکا اور نیٹو افواج نے بیس برس گزار کر جس طرح کی صورتحال پیدا کر کے افغانستان چھوڑا اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک طرف افغانستان میں انسانی المیہ پیدا ہونے کو ہے تو دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں اور وابستگان کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ پھر سے افغانستان کو اپنی بیس بنا کر پاکستان میں اپنی تخریبی کارروائیاں شروع کردیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی تخریبی کارروائیوں اور ان کے اثرات پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے لیے سکیورٹی ادارے نہ صرف پوری طرح مستعد ہیں بلکہ وہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں آپریشنز کر کے ٹی ٹی پی کا سر کچلنے میں مصروف بھی ہیں۔ شمالی وزیرستان میں ایک تازہ آپریشن کے دوران دو دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، سکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع پر تھل کے علاقے میں آپریشن کے دوران جن دو دہشت گردوں کو ہلاک کیا ان کے نام غیور اور بہاء الدین ہیں۔ فائرنگ کے تبادلے میں مارے جانے والے یہ دونوں دہشت گرد سکیورٹی فورسز پر حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث تھے۔ ان کے خلاف جس جگہ پر آپریشن کیا گیا وہاں سے بڑی تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کیا گیا۔
ادھر، دیر زیریں میں پولیس اور دیر لیویز کی ایک مشترکہ چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں ایک اہلکار کے شہید اور دوسرے کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ٹاکورو منڈا نامی علاقے میں حملے کے دوران سکیورٹی اہلکاروں نے جوابی فائرنگ کی جس سے ایک دہشت گرد مارا گیا۔ سکیورٹی فورسز نے کارروائی کے بعد علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا۔ اسی طرح، پشاور میں پولیس پر دو دستی بم حملے ہوئے جن کے نتیجے میں ایک سب انسپکٹر سمیت تین پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق، ایک واقعے میں بڈھ بیر میں حیات آباد روڈ پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے پولیس موبائل وین پر دستی بم پھینکا جس سے تین اہلکار زخمی ہوئے جبکہ دوسرے واقعے میں حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں پرانی پولیس چوکی پر دستی بم پھینکا گیا تاہم اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
دو روز پہلے اسلام آباد کے علاقے کراچی کمپنی میں بھی دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں پولیس ناکے پر ڈیوٹی کرتا ہوا ہیڈ کانسٹیبل منور حسین فائرنگ سے شہید ہوگیا۔ منگل کو شہید ہیڈ کانسٹیبل کی نماز جنازہ میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے شرکت کی اور اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے واضح کیا کہ یہ چوری یا ڈکیتی کا واقعہ نہیں ہے بلکہ دہشت گردوںکی طرف سے فائرنگ کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ ایک قسم سگنل ملا ہے کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہو گئے ہیں۔ یہ اس سال کا پہلا واقعہ ہے، ہمیں بہت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ شیخ رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس ناکے پر دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ملزمان کا سلیپنگ سیل راول پنڈی کے علاقے مصریال میں تھا اور ان کی موٹر سائیکلوں سے ان کو ٹریس کرتے ہوئے ان کی لوکیشن واقعے کی رات کو ہی معلوم کر لی گئی تھی۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا ہے کہ جن دو افراد نے یہ کارروائی کی ان کے نام ضرار اور عمر ہیں۔
سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور قربانیوں کے نتیجے میں ایک لمبے عرصے تک امن قائم رہنے کے بعد اب پھر دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات ایک تسلسل سے ہورہے ہیں۔ ان میں کچھ واقعات کی ذمہ داری تو کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے قبول کر لی جاتی ہے لیکن کچھ واقعات پر ان کی طرف سے کوئی بیان وغیرہ جاری نہیں کیا جاتا۔ وفاقی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں بھی دہشت گردوں کے سلیپر سیلز موجود ہیں۔ یہ صورتحال واقعی تشویش ناک ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی ہزاروں جانوں کی قربانی کے علاوہ اربوں روپے کا نقصان بھی برداشت کرچکا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کی طرف سے نہ صرف اس پر شک کیا جاتا ہے بلکہ کئی بار الزام تراشی بھی کی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے سکیورٹی فورسز کو ہر طرح کی سہولیات سے لیس کرتے ہوئے تیار کرے اور بین الاقوامی برادری کو اپنے مسائل سے آگاہ کر کے افغانستان میں قیام امن اور اپنے ملک کے استحکام کے لیے اس سے مدد حاصل کرے۔