زبانوں میں زبان ہماری زبان اردو قوم کی ترقی کا وہ زینہ جو ہمارے پرچم کے چاند ستارے کو فلک پہ جا طاکتا ہے مجھے سکول کی وہ اسمبلی یاد آرہی ہے جہاں ہم ایک زبان پڑھتے تھے۔
ہم سب کا وطن پاکستان
ہم سب کا ہے اک ایمان
ہم سب کا ہے ایک قرآن
ہم سب کی ہے اردو زبان
یہ سبق ہمیں آج تک یاد ہے۔ جب ہمارا دور گزررہا تھاتو ہم نے سائنس بھی اردو زبان میں پڑھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجانے کہاں غلامی کی زنجیروں نے زور پکڑا اور ہمارے ذہنوں کو غلام بنانے کی تدبیریں شروع ہوگئیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی تھی۔ وہ تو وقت کی ضرورت تھی۔ مگر ڈگریاں یہ نہیں کہتیں کہ ہم اپنی زبان کی تحقیر شروع کردیں۔ ہمارے ملک کی تمام بولیاں شدومد سے اپنے علاقوں میں جاری ہیں لیکن اردو زبان پہ یہ قفل کیوں؟ آج انگریزی زبان کا جبری تسلط ہماری خودی کیلئے ہرذہ سرائی بنا ہوا ہے۔ ایسے لوگ جو اس جرم میں شامل ہیں ہماری اقدار وتہذیب کو کچلنا چاہتے ہیں انہیں سزا وار ٹھہرانا چاہیے۔ ہماری زبان ایک سنہری زبان ہے ہماری باوقار اور وطن سے جڑی ہر چیز سے محبت کرنے والے عوام کبھی اس زبان کی عزت پہ حرف نہیں آنے دینگے۔1857کی جنگ آزادی کے بعد سنسکرت کو ہندوئوں سے اور اردو زبان کو مسلمانوں سے منسلک کیاجانے لگا تھا، اردو زبان پہ باقاعدہ مشاعرے ہوا کرتے تھے۔
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی
مقالہ نگاروں نے اس پہ مقالے لکھے۔ اردو زبان کی شروعات، اس کا پھیلائو کہاں تک ہے؟ اس کا خاندان کیا تھا؟ اس کی عظمت وکردار اس کی مقبولیت پر بیش بہا قیمتی پیرائے لکھے گئے۔ انسانی کارناموں میں راقمہ کی نظر میں اس کا اہم ترین تخلیقی کارنامہ زبان ہے۔ علم کی اصل طاقت زبان ہے۔ رشتوں کا نبھائو زبان ہے۔ ہماری اردو تو اس لیے بھی معتبر زبان ہے کیونکہ اس میں عربی، فارسی اور ہندی کے لہجے، صوت اور رموز واوقاف نظر آتے ہیں ، اس کا رسم الخط ابتداء سے فارسی ہے۔ اردو تو ماں کی آغوش کی طرح ہرزبان کو اپنے اندر سمیٹ کر خود میں زم کرلیتی ہے، زبان کے لحاظ سے ہمیں جان لینا چاہیے کہ اس پہ کسی بادشاہِ وقت کا حکم نہیں چلتا بلکہ ملک کے باشندے زبان پہ حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عام لوگ کسی کے کہنے اور جبر سے زبان کے معاملے میں ایجاب وقبول نہیں کرتے یہ تو ترویج وتدریج کا ایک سلسلہ ہے جو روایت ،ذہن درس گاہوں اور معاشرے سے چلتاہے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ زبان اور اس کے الفاظ کوئی انسان نہیں ہوتے کہ آج زندہ ہیں اور کل مرجائیں گے۔ یہ بہت سخت جان ہوتے ہیں اور خود کو رگیدنے والوں سے کڑا حساب لیتے ہیں، ادب نے اس زبان کی پرورش میں ہمیشہ والدین اور استاد کا کردار ادا کیا ہے ان کی وجہ سے زبان میں یکسانیت، ہمہ گیر جہت پیدا ہوتی ہے ۔ چلتی ہوئی اس صدی میں مغربی اقدار وافکار نے اس زبان کو کچوکے لگانے شروع کردیئے، ہماری تہذیب اخلاق ، قدریں، خوراک لباس، چال ڈھال، تعلیم اور رہن سہن اس کے جال میں بری طرح اور تیزی سے پھنسنے لگا یہاں سب سے زیادہ نقصان زبان کو پہنچنے کاخطرہ لاحق ہوگیا۔ زبان تو قوم کی پہچان ہواکرتی ہے، جسم سے اگر زبان نکال دیں تو گونگے کی رمزیں کون سمجھے گا؟ اسی طرح سے اگر ہم اپنی اردو کو اپنے دفاتر، درس گاہوں روزمرہ کی گفتگو سے نکال دیں توہم گونگے ہوجائیں گے، یہ رابطہ عامہ کی زبان جب بیرون ملک جاکے انگریزی کے کفن میں لپیٹ دی جاتی ہے، اور اس پر ترکی، چائنیز، عربی زبان کا تڑکہ یوں لگایاجاتاہے کہ سب اپنی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور میزبان ملک اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کرتاہے جبکہ اردو کے ترجمے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ اسی لیے یہاں کے وہ اشخاص خاص کر جو اسلامی جمہوریہ مملکت کی ترجمانی کررہے ہوتے ہیں وہ مرعوبیت میں جامہ غلامی پہنے انگریزی بولتے ہیں، ہماری اولادوں کو احساس کمتری کا شکار کرنے کیلئے گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولز کا نصاب زمین آسمان کے فاصلے سے حساب سے رکھاگیاہے فکری اور ذہنی انتشار سے اپنی نسلوں کو بچانے کیلئے اردو کی اہمیت کواجاگرکرنے کے لیے جس طرح فاطمہ قمر برسرپیکار ہیں اس کی مثال نہیں ملتی، فاطمہ کے ساتھ راقمہ بھی اور وطن سے محبت کرنے والے تمام لوگ اپنی آزادی اور عظمت کی سربلندی کیلئے سوچنے والے عوام سے اردوزبان کے فروغ کیلئے شب وروز کا لمحہ لمحہ شمار کرکے حکام بالا تک اپنی آواز پہنچائیں گے۔ جو ناانصافیاں اس سے پہلے اردو کے ساتھ ہوچکیں اب نہیں ہونگی، کچھ حتمی فیصلے ہوچکے اور کچھ ہونے کو باقی ہیں۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024