انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کونسل میں نسل پرستی کے معاملے پر بحث و تمحیص کے دوران شرکا نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ کے شہر منی ایپلس میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں موت کے سانحہ کی غیر جانبدرانہ تفتیش کی جائے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جنیوا میں منعقد ہونے والے کونسل کے اجلاس کی ابتدا میں نسلی انصاف کے شکار لوگوں کی یاد میں خاموشی اختیار کی گئی۔اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اس جانب توجہ دلائی کہ نسل پرستی کے واقعات کی محض مذمت سے صدیوں کی نا انصافی کا مداوا نہیں کیا جا سکتا۔ نیویارک سے اس ٹیلی کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ یہ بحث اس پس منظر میں ہو رہی ہے جب دنیا بھر میں نسلی انصاف اور برابری کے مطالبے کے حق میں لوگ اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ان کے الفاظ میں حالیہ مظاہروں کے پس پردہ جارج فلائیڈ کی پولیس کی ظالمانہ کاروائی کے نتیجے میں المناک موت کا واقعہ ہے۔ تاہم انھوں نے کہ حقیقت احوال یہ ہے کہ تشدد کا دائرہ سرحدوں کا پابند نہیں اور بدقسمتی سے اس نے دنیا کے بہت سے حصوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اس کے بارے میں ایک ساتھ آواز بلند کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ لوگوں کو ایک طویل عرصے سے جس اذیت کا سامنا ہے اس پر غور و فکر کی جائے۔کونسل میں بحث سے پہلے، جنیوا میں اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر اینڈریو بریم برگ نے ایک بیان میں اعادہ کیا کہ واشنگٹن نے نسلی امتیاز کے مسئلے اور اس سے پیدا ہونے والی ناانصافیوں سے نمٹنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ صدر ٹرمپ نے اس واقعہ میں ملوث پولیس والوں کی ظالمانہ کاروائیوں کی مذمت کی ہے، اور پولیس اصلاحات بھی کی جا رہی ہیں۔مبصرین کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ فلائیڈ کی ہلاکت کے المیہ کے بعد نسلی مساوات کے لئے جو آوازیں ایک مرتبہ پھر بلند کی جا رہی ہیں، وہ کیا رنگ دکھاتی ہیں اور صدیوں کے زخم کو مندمل کرنے میں کہاں تک کارگر ہوتی ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024