اعلیٰ حضرت ابوالفضل ظہور احمد قادریؒ
رانا دلشاد قادری ۔۔۔۔
اولیائے کرام لوگوں کیلئے دین کی تبلیغ اور رشد و ہدایت کا ذریعہ بن کر اس دنیا میں آئے ، اس مقصد کی خاطر ہر تکلیف اور صعوبت برداشت کی اور بھٹکے ہوﺅں کو راہ راست پر لانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ان مینارہ ہائے نور، عظیم روحانی شخصیات میں ایک نام قبلہ حضور بوالفضل ظہور احمد قادری کا ہے جو سیرت مصطفی کی ایک عمدہ مثال ہےں۔ آپ نے اپنے مرشد کامل سادات ساڈھورا کے نامور سپوت اعلیٰ حضرت پیر سید محمد فضل شاہ کے حکم پر”آستان فضل“ کے نام سے دینی و فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی جہاں سے تشنگان علوم روحانی ہمیشہ فیض یاب ہوتے رہیں گے ۔ بوالفضل ظہور احمد قادری کا تعلق وادی سون ضلع خوشاب سے ہے۔ جہاں حضرت غازی عباس علمدار کی اولاد آباد ہے جو ایک نسبت سے حضرت امام حسینؓ کے اعوان (خادم) کہلاتی ہے۔ اس قبیلہ کے مشہور و معروف روحانی شخصیت محمد مقبول الٰہی المعروف قاری اعوان تھے ، جوپیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کے ہم مکتب اور خلیفہ تھے۔قاری اعوان کے خاندان کی تحریک آزادی میںقربانیاں کسی سے کم نہیں۔ قاری محمد مقبول الٰہی کے ایک بھائی کو لال قلعہ میں شدید اذیتیں دیکر شہید کیا گیا۔ خود ان کو میرٹھ میں انگریز فوجی افسران کے قتل کے مقدمہ میں سزائے موت سنائی گئی جو بعد میں ایک پادری کی سفارش پر معاف ہوئی۔ قبلہ حضرت بوالفضل ظہور احمد قادری محمد مقبول الٰہی کے پانچویں فرزند ہیں۔ عالم روحانیت کا یہ شمس تاباں18 جنوری 1930ءکو طلوع ہوا جس کی ضوفشانی سے ایک عالم جگمگایا۔قیام پاکستان سے قبل آپ نے ببانگ دہل کہنا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان بن گیا اور 1947ءمیں ملک تقسیم ہو گیا۔ آپ پیدائشی ولی اللہ تھے۔ ابتدائی تعلیم شکر کوٹ میں حاصل کی اور میٹر ک کا امتحان ہائی سکول نوشہرہ سے پاس کیا۔ علوم شرقیہ اور بی اے کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔1948ءمیں تقسیم کے بعد مرشد پاک سید محمد فضل شاہ کی ڈھونڈ نے بالآخر انہیں شرف بیعت سے نوازا، اور دم آخرین تک قبلہ بوالفضل ظہور قادری ان ہی کے ہو رہے۔جو کچھ بھی کماتے آستانہ عالیہ کے اخراجات پر خرچ ہو جاتا۔ آپ نے فرمایا کہ میں جب بھی حضور محمد فضل شاہ کی خدمت میں حاضر ہوتا بالخصوص گیارہویں شریف اور عرس مبارک کے موقع پر تو میں سرکار کے پلنگ کے نیچے لیٹ جاتا تھا۔بوالفضل ظہور احمد قادری نے روحانی مدارج و مراتب کی سربلندی کیلئے خود کو مجاہدات کی بھٹی میں ڈال دیا اور تھل کے علاقہ میں نکل گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ تمے (حنظل) کھا کھا کر طبیعت اس حد تک عادی ہو گئی تھی کہ تمے کڑوے نہیں لگتے تھے۔ رات جب شغل اور مراقبے میں دنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو جاتا تو اس وقت سانپ آ کر میرے جسم سے چمٹ جاتے میں اپنے دھیان میں گم سم بیٹھا ہوتاتو صحرائی درندے آ جاتے مجھے سونگھتے اور چلے جاتے ۔ یہ سلسلہ کافی عرصے اسی طرح چلتا رہا۔ پھر مرشد صاحب کے حکم پر گورڈن کالج راولپنڈی میں داخلہ لے لیااور ایم اے کا امتحان پاس کر لیا۔اس کے بعد آپ نے محکمہ ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹمز میں ملازمت اختیار کر لی جو1979ءتک جاری رہی۔ دوران ملازمت کا ایک واقعہ پاکستان سٹیل ملز کے چیئرمین جی این اختر بیان کرتے ہیںکہ میں سرگودھا میں اسسٹنٹ کلکٹر تھا اور جناب قادری اس دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ قادری صاحب چھٹی کے بعد دیر تک بیٹھتے تھے۔ میں نے انہیں بلایا اور کہا کہ ہمارے پاس اوورٹائم کا بجٹ نہیں ہے۔ اسلئے آپ زیادہ دیر تک نہ بیٹھا کریں۔ جناب قادری نے جواب دیا کہ آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ ان سے کبھی کوئی کام کہا ہو۔ میں تو اپنے مرشدسرکار کی نوکری کرتا ہوں۔ تنخواہ کیلئے ملازمت نہیں کرتا۔ میری تو یہ عبادت ہے۔ اسی دوران قادری صاحب کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے سپیشل انکریمنٹ کا لیٹر موصول ہوا۔ میں اور دفتر کے باقی حضرات جناب قادری کو مبارکباد دینے آپ کی سیٹ پر جمع ہوئے۔ مدعا بیان کیا تو قادری صاحب نے فوراً پیسے نکالے مٹھائی اور چائے منگوائی۔ سب لوگ خوش گپیوں میں مشغول تھے کہ ان کے ایک دوست آئے اور کان میں کچھ کہا تو قادری نے فوراً میز کے نیچے سے ایک ٹوکری نکال کر اس کے حوالے کی کچھ توقف کے بعد مجھے کہنے لگے کہ ”کچھ دیر کیلئے گھر جانا ہے“۔ اگر اجازت ہو تو؟ میرے کہنے پر قادری صاحب گھر چلے گئے۔ دوسرے روز صبح ہی دفتر کے ایک ملازم نے رپورٹ دی کہ کل قادری صاحب کا بچہ وفات پا گیا تھا اور ٹوکری میں کفن وغیرہ تھا۔ اور وہ گھر اس کو دفنانے گئے تھے۔ اگلے روز افسوس کیلئے آئے لوگوں سے جناب قادری نے ارشاد فرمایا کہ ”بھائیو افسوس کس بات کا نہ اس پر دعویٰ ملکیت تھا نہ میری خواہش اور مرضی سے آیا اور نہ ہی اس کی واپسی پر مجھے کوئی اختیار تھا۔ ذات حق کے حکم اور ارادے سے آیا اور چلا گیا....میں آپ لوگوں کی خوشیوں کو کیوں خراب کرتا؟ یہ سن کر سب لوگ محو حیرت ہوئے کہ یا خدا یہ تیرا کیسا بندہ ہے جو دوسروں کی خوشیوںکو اپنے ہر دکھ اور الم پر فائق رکھتا ہے۔ دوران ملازمت آپ نے اپنے فرائض کو نہایت دیانتداری اور جانفشانی کے ساتھ ادا کیا پوری ملازمت کے دوران کبھی بھی سائل کی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی چیز قبول نہ کی آپ کا دامن اس لحاظ سے پاک ہے۔ 1979ءمیں آپ نے ریٹائرڈ منٹ لے لی اور ہمہ تن دین کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ سماجی اور انسانی خدمات کیلئے آستان فضل سرگودھا پر الخیر فری طبی ہسپتال قائم کیا۔ اپنی نوعیت اور خدمات کے لحاظ سے منفرد ادارہ ہے۔ یہاں سے روزانہ پانچ چھ سو تک مریض فری تشخیص، دوا، علاج اور خوراک رہائش کی خدمات سے مستفیض ہوتے ہیں۔ دوسرے شہروں اور ملکوں میں مریضوں کو بذریعہ ڈاک ادویات نہ صرف فری بھیجی جاتی ہیں بلکہ ڈاک کے اخراجات بھی طبی ہسپتال برداشت کرتا ہے۔ اس فری طبی ہسپتال کی دس برانچیں مختلف اضلاع میں کام کر رہی ہیں۔ جہاں سے مریضوں کو فوری دوا اور علاج مہیا کیا جاتا ہے۔ ادارہ تعلیمی خدمات کی بجا آوری کیلئے وفاقی وزارت صحت کا منظور شدہ طبیہ کالج اور ماڈل ہائی سکول جیسے ادارے مصروف خدمت ہیں۔ ادارہ اس وقت تک تصوف ، طب اور ادب پر درجنوں کتب شائع کرچکا ہے۔ جنہیں عوام میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ بوالفضل ظہور احمد قادری کا جسم مبارک دبلا پتلا، اخلاق حسنہ کا ایک زمانہ گواہ ا ور مداح ہے۔ آپ اکثر اوقات حالت روزہ میں رہتے، سحری میں چند لقمے اناج (جو کے چند دانوں کا دلیہ) اور آدھ پیالی چائے اور افطاری میں ایک کھجور اور آدھ پیالی چائے پیتے۔ خوراک اتنی کم کہ ایک معصوم بچہ بھی اتنی خوراک سے مطمئن نہ ہو۔ فرماتے تھے۔اس کی امانت کو برقرار رکھنا ضروری ہے وگرنہ اتنی خوراک کی بھی ضرورت نہیں۔ آپ کے وصال پر کون سی آنکھ ہے جو اشکبار نہیں ہوئی۔ کونسا دل ہے جو آپ کے ہجر و فراق میں نہیں رویا۔ آپ نے زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے دکھ بانٹنے میں صرف کیا۔ آپ دکھی دلوں کے ملجیٰ و ماویٰ تھے۔ آپ اسوہ رسول کا ایک بہترین نمونہ تھے۔ بوالفضل ظہور احمد قادری کا سالانہ عرس مبارک آج 19 جولائی سے 21 جولائی بمطابق 10 رمضان المبارک سے 12 رمضان المبارک آستان فضل سرگودھا 49 ٹیل کے مقام پر نہایت عقیدت و احترام سے منایا جائے گا۔ عرس مبارک میں ہونے والی تقریبات کی نگرانی ظہور فضل قادری کریں گے۔