چین کا وائرس کو تلف کرکے دم لینے کا عزم
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کرونا وائرس جسے اب" کووڈ 19 " کا نام دیا گیا ہے ، کے خلاف چینی حکومت اور عالمی سطح پر مشترکہ جدوجہدجاری ہے تا کہ اس وبا کی روک تھام اور کنٹرول سے انسانی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شریک چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے شرکا پر واضح کیا کہ چین کورونا وائرس کے خلاف اپنی جد و جہد میں یقینی طور پر کامیاب ہو گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومتی کوششیں ثمر آور ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ وانگ یی نے یہ بھی کہا کہ وائرس کی وبا کے خلاف کامیابی کا سویرا طلوع ہونے والا ہے۔ انہوں نے اس وبا کو ملکی حکومت کے لیے ایک انتہائی سنگین چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر قابو پر کر اقتصادی ترقی کا سفر دوبارہ سے بحال ہو جائے گا۔
سال 2009 میں امریکہ میں پھیلنے والے "ایچ ون این ون سوائن فلو" سے دنیا بھر میں تقریباً چھ کروڑ افراد متاثر ہوئے اور اْسی برس اٹھارہ ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ تاہم سال 2012 میں سامنے آنے والے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ "ایچ ون این ون سوائن فلو" کے اثرات تو کہیں زیادہ مہلک اور خطرناک تھے جس میں تقریباً تین لاکھ افراد جاں بحق ہوئے۔ یہاں چند سوالات یہ بھی ذہن میں آتے ہیں کہ اْس وقت تو کہیں پر بھی امریکہ مخالف جذبات سامنے نہیں آئے ، نہ ہی کسی نے امریکہ کی جانب انگلی اٹھائی اور نہ ہی امریکہ پر کسی نے حقائق چھپانے کا الزام لگایا۔ اس کے برعکس اس وقت جب چین کی حکومت کی طرف سے تمام تر اقدامات کے باوجود مختلف مغربی حلقوں سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مختلف الزامات چین پر عائد کیے جا رہے ہیں ،افواہوں اور جعلی خبروں کا ایک بازار سا لگا ہوا ہے اور عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر ممالک کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی ہے چینی حکومت کے اقدامات اور اس کے نتیجے میں کامیابی ہی تما م تر نکتہ چینی کا جواب ہے۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وبائی امراض کا تعلق کسی ایک ملک یا خطے سے نہیں ہوتا بلکہ یہ تو پوری انسانیت کے عالمگیر دشمن ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے بھی مشترکہ جدوجہد ایک بنیادی شرط ہے۔ عالمی دنیا کو حقائق کی روشنی میں چین کی حمایت کرنی چاہیے اور چین کے بر وقت اور مضبوط اقدامات کو سراہنا چاہیے۔چین میں طرزحکمرانی کا ایک بہترین نظام موجود ہے اور ووہان شہر میں چند عہدہ داروں کی کوتاہی کا ملبہ ساری چینی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ چینی حکومت کو داد دینا ہو گی کہ ووہان میں موجود اہم عہدہ داروں کو فی الفور برطرف کر دیا گیاہے اور دیگر دنیا کے لیے احتساب سے متعلق ایک مثال قائم کی گئی ہے۔اس اقدام سے دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا کہ کسی بھی لاپرواہی اور کوتاہی کی صورت میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔
اب ایک اور نقطے کی جانب بڑھتے ہیں کہ کیا سوائن فلو کی وبا کے دوران اندرون امریکہ یا پھر بیرونی ممالک کی جانب سے امریکہ کے لیے سفری پابندیاں عائد کی گئی تھیں ؟ کیا چین ،جرمنی ،جاپان اور دیگر ممالک نے امریکی مسافروں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں ؟ ان تمام سوالات کا جواب ہمیں " نہیں" کی صورت میں ملتا ہے۔یہاں اس بات کو سمجھے کی ضرورت ہے کہ کرونا وائرس " چائنا وائرس " نہیں ہے اور نہ ہی سوائن فلو " امریکی وائرس" تھا۔ کرونا وائرس اگرچہ متعدی ضرور ہے مگر اس کے باعث شرح اموات انتہائی کم یعنی صرف دو فیصد ہے۔ عام طور پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اسی سے نوے فیصد اموات ایسے عمر رسیدہ افراد میں دیکھنے میں آئی ہیں جو پہلے ہی سے صحت کے مختلف مسائل کا شکار تھے جبکہ اس کے برعکس سوائن فلو وائرس کے باعث نوجوانوں اور بچوں میں شرح اموات زیادہ دیکھنے میں آئیں۔چین کی جانب سے ایک ریکارڈ مدت میں صحت کے عالمی اداروں کے ساتھ وائرس سے متعلق بنیادی معلومات کا تبادلہ کیا گیا جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ طبی ماہرین اینٹی وائرس ادویات کی تیاری میں لگ گئے اوراس کے جلدبہتر نتائج بھی سامنے آ چکے ہیں۔اس وقت چین کے سبھی ایک ارب چالیس کروڑ باشندے کرونا وائرس کے خلاف مہم میں بطور جسے عالمی برادری بھی چینی حکومت اور عوام کے کردار کو "نایاب" اور "مثالی" قرار دے رہی ہے۔ بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ چین نے وبائی امراض کی روک تھام اور کنٹرول کا ایک نیا معیار وضع کیا ہے۔
(چائینہ ریڈیو انٹرنیشنل)