تجارتی خسارہ کے ساتھ قرضوں میں مسلسل اضافہ
احسن صدیق
پاکستان کی معیشت نے گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران کئی نشیب و فراز سے گزری ہے، کہیں حکومت نے اقتصادی اصلاحات کے ذریعے مالیاتی خسارے کو 8.8 فیصد سے کم کرکے 4.8 فیصد تک لانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی تو قرضوں کا حجم اس مدت کے دوران 16442.3 ارب روپے سے بڑھ کر مالی سال 2017-18ء کی پہلی سہ ماہی میں 25819.9 روپے تک پہنچ گیا۔ ملک میں بجلی اور گیس کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا گیا تو حکومت کے اقتصادی اقدامات کے اثرات پوری طرح عام آدمی تک منتقل نہیں ہوئے۔ عالمی حالات کے باعث مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ رہی لیکن خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 40 فیصد رہی۔جو ایک ڈالر یومیہ اجرت کے مطابق ہے۔ مالی سال 2013-14ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ملک کی شرح نمو اوسطاً 3 فیصد رہی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے پہلے مالی سال 2013-14ء میں شرح نمو 4.05 فیصد ہوئی اور گزشتہ مالی سال 2016-17ء میں شرح نمو 5.28 فیصد رہی۔ حالانکہ اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ مالی سال 2015-16ء میں شرح نمو بتدریج 7 فیصد تک بڑھ جائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آئی ایم ایف کی پشین گوئی کے مطابق مالی سال 2017-18ء میں پاکستان کی شرح نمو 5.6 فیصد رہے گی۔
گزشتہ 4.5 سال کے دوران حکومت نے قرضوں سے معیشت بہتر کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زرمبادلہ کے ذخائر دسمبر 2016ء کے اختتام تک 23 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ۔مگر آئی ایم ایف کے قرضے کی سخت شرائط اور پنجاب کی انڈسٹری کو آر ایل این جی اور مہنگی بجلی کے باعث نہ صرف انڈسٹریل گروتھ رک گئی بلکہ 100 ٹیکسٹائل ملیں بھی بند ہوگئیں اور 10 لاکھ افراد بیروزگار ہوگئے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے 2 فروری 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا مجموعی حجم 19 ارب 18 کروڑ 29 لاکھ ڈالر رہ گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی بیان کی گئی ہے جس کا حجم 4 ارب ایک کروڑ 9 لاکھ ڈالر بنتا ہے۔ اس مدت کے دوران ٹیکس وصولی بھی ہدف سے کم رہی۔ مالی سال 2013-14ء کیلئے بجٹ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 25 کھرب 98 ارب روپے مقرر کیا گیا لیکن اس کے مقابلے میں وصولی 22.54 کھرب روپے ہوئی۔ مالی سال 2014-15ء کیلئے ٹیکس وصولی کا ہدف 31.29 کھرب روپے مقرر کیا گیا لیکن اس کے مقابلے میں 25.899 کھرب روپے کی وصولی ہوئی۔ مالی سال 2015-16ء کیلئے ٹیکس وصولی کا ہدف 34.18 کھرب روپے مقرر کیا گیا اس کے مقابلے میں وصولی 31.12 کھرب روپے ہوئی۔ مالی سال 2016-17ء کیلئے ٹیکس وصولی کا ہدف39.56 کھرب روپے مقرر کیا گیا اور اس کے مقابلے میں 33.61 کھرب روپے کی ٹیکس وصولی ہوئی۔ رواں مالی سال 2017-18ء کے پہلے 7 ماہ جولائی تا جنوری تک ایف بی آر نے 20کھرب روپے کی ٹیکس وصولی کی ہے۔ جبکہ پورے مالی سال کیلئے بجٹ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 43.304 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے۔حکومت کے مخالفین کا اندازہ ہ ہے کہ ایف بی آر اس ہدف کو حاصل نہیں کرسکے گا اور پھر نظرثانی کروا کر ٹیکس وصولی کے ہدف میں کمی کروا دی جائے گی۔
رواں مہینے 8 فروری کو آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن ’’آپٹما‘‘ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو مدعو کیا۔ اس موقع پر آپٹما کے گروپ لیڈر اعجاز گوہر اور چیئرمین عامر فیاض نے پنجاب میں انڈسٹری کے حوالے سے بتایا کہ قلیل مدت کی پالیسی کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری میں سرمایہ کاری رک گئی ہے، پنجاب کو انرجی پرائس ایشو کا سامنا ہے۔جس کے نتیجے میں وہ خطے کے ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پانچ سال قبل خام تیل کی فی بیرل قیمت 100 ڈالر تھی جبکہ بجلی کے یونٹ کی قیمت 9 روپے تھی آج خام تیل کی فی بیرل قیمت 65 ڈالر ہے لیکن بجلی کے یونٹ کی قیمت 15 روپے ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں بجلی کی قیمت 7 روپے ہے۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت جس تیزی سے قرضے لے رہی ہے اس سے پاکستان اپنی خودمختاری بھی کھو رہا ہے ۔ اگر معاشی طور پرہم مضبوط ہوتے تو کیوں کسی ملک کی جنگ لڑتے۔پاکستان کو ان ہی وجوہات سے بیروزگاری اور برآمدات میں کمی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ جس سے برآمدات میں کمی ہورہی ہے۔ اسی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی بھی دبائو میں ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ اسی لئے تکمیل تک پہنچ سکا کیونکہ ہمارے ڈونرز اسے مکمل ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ہمارے ہاں براہ راست ٹیکسز اس لئے اکٹھے نہیں کئے جاتے کیونکہ ایف بی آر ایک ادارہ نہیں بن سکا اور اسی لئے ان ڈائریکٹ ٹیکسز کا آغاز کرکے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ آپٹما عمران خان دیگر کاروباری تنظیموں اور اقتصادی ماہرین نے ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے 2 تجاویز دی ہیں کہ برآمدات میں اضافے کیلئے مؤثر اقدام کئے جائیں ٹیکس نٹ میں اضافہ کیا جائے اور اس کیلئے ایف بی آر کو ادارہ بنایا جائے جس شخص کی سالانہ آمدن 10 لاکھ سے زائد ہو اس کو لازمی ٹیکس نٹ میں لاکر ٹیکس وصول کیا جائے۔ سرکلر ڈیٹ کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر میرٹ کے مطابق تقرر کیا جائے اور انڈسٹری کو لیول پلینگ فیلڈ کا ماحول میسر ہو۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مسلسل چیخ و پکار کے بعد اب شنید ہے کہ وفاقی حکومت نے برآمدی سیکٹر کو گیس اور بجلی کا خصوصی پیکج دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق وزیر اعظم شا ہد خاقان عباسی اس پیکج کے لئے متعلقہ وزارتوں سے مشاورت کر رہے ہیں اور فروری2018ء کے آخر تک اس پیکج کا اعلان متوقع ہے اس پیکج کے مطابق برآمدی سیکرٹ کے لئے بجلی کا ہدف 9روپے فی یونٹ جبکہ گیس پر عائد انفراسٹکچر میں ختم کرنے کی تجویز ہے ۔